عبدالماجد نظامی
جنوبی ہند کی واحد ریاست کرناٹک جہاں زعفرانی پارٹی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی اب وہاں وہ بری طرح شکست کھا چکی ہے اور اس کے اثرات وہ بہت دیر اور دور تک محسوس کرے گی۔ وہیں دوسری جانب ملک کی سب سے قدیم اور مابعد آزادی سب سے طویل مدت تک حکومت و قیادت کی زمام سنبھالنے والی کانگریس پارٹی جس کو ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک عوامی سیاست کا تجربہ حاصل ہے اور جس نے نہ صرف اس ملک عزیز کو سامراجی قوت سے آزادی دلائی بلکہ اس نے عالمی سطح کے قد آور لیڈران بھی اس ملک کو عطا کئے، اس پارٹی نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے کا ہنر جانتی ہے۔ یہ پہلو بطور خاص قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوگا کہ وہی کانگریس پارٹی جس کا سیاسی مستقبل ختم کرنے اور ملک کو اس کی سیاست سے پاک کر دینے کا جو دعویٰ بھارتیہ جنتا پارٹی کرتی آ رہی تھی، اب مسلسل یکے بعد دیگرے انتخابات میں جیت حاصل کر رہی ہے اور پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر رہی ہے۔
یہ کانگریس سے وابستہ پالیسی سازوں کی کامیابی مانی جانی چاہئے کہ انہوں نے بی جے پی کی نفرت سے پْر اور غیر مہذب طرز سیاست کے بجائے صحتمند سیاست کو اپنا شیوہ بنایا اور ہر محاذ پر ناکام ہو رہی بر سر اقتدار زعفرانی پارٹی کی عوام مخالف پالیسیوں سے پردہ اٹھا کر انہیں صحیح سمت میں لے جانے کا بیڑہ اٹھایا۔ اس کی سب سے بڑی مثال خود راہل گاندھی کی شخصیت ہے جس کو عوام کی نظر میں بدنام اور ناقابل اعتبار بنانے کی کوشش کی گئی۔ راہل گاندھی پر یہ حملہ بے وجہ نہیں تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جانتی ہے کہ ملکی سطح پر کانگریس واحد ایسی پارٹی ہے جس کو ملک کے طول و عرض میں اب بھی 20فیصد ووٹ حاصل ہوتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ووٹروں کا پانچواں حصہ جس پارٹی پر اپنا اعتماد ظاہر کرتا ہو اس کو ہلکے میں نہیں لیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس دوسری تمام غیر کانگریس اور غیر بی جے پی مقامی پارٹیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ کوئی بھی پارٹی اپنے بل پر زیادہ سے زیادہ صرف 5 فیصد ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔ ایسے میں بھارتیہ جنتا پارٹی جانتی ہے کہ اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ واحد کانگریس پارٹی ہے اور اس کو غیر معتبر بنانے کے لئے یہ ضروری تھا کہ راہل گاندھی کی شخصیت کو مجروح کیا جائے اور کانگریس سے دل برداشتہ ہونے والوں کا ووٹ اپنی جھولی میں اکٹھا کر لیا جائے۔ لیکن راہل گاندھی اور کانگریس پارٹی نے قدم پیچھے کھینچنا مناسب نہیں سمجھا اور ان کے خلاف جاری جارحانہ حملہ کے جواب کا مؤثر طریقہ ڈھونڈ ہی لیا۔ کانگریس پارٹی نے خود عوام کے درمیان جانے اور ان سے اپنی بات کہنے اور ان کی باتیں سننے کا فیصلہ کیا۔ راہل گاندھی کی قیادت میں ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا روڈ میپ تیار کیا گیا اور کامیابی کے ساتھ اس کو نافذ بھی کیا گیا۔ اس یاترا کی اہمیت کو اس طرح سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ریاست کرناٹک میں 21 ایسے حلقہ ہائے انتخاب تھے جہاں سے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا قافلہ گزرا تھا۔ ان میں سے 16 حلقوں میں کانگریس پارٹی نے جیت حاصل کی ہے۔ اس کے علاوہ جن حلقوں میں کانگریس جیت حاصل نہیں کرپائی وہاں بھی ان کے ووٹوں کی شرح میں کافی اضافہ ہوا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ راہل گاندھی کی کردار کشی میں بی جے پی بْری طرح ناکام رہی۔ اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی نے کرناٹک میں وزیر اعظم نریندرمودی کی شخصیت کا خوب استعمال کیا اور انتخابی حلقوں سے لے کر روڈ شوز تک ہر جگہ ان کو بڑے پیمانہ پر پیش کیا گیا لیکن اس کے باوجود 2018 کے اسمبلی انتخابات کے مقابلہ اس بار بی جے پی کو 38 سیٹیں کم ملیں جبکہ کانگریس پارٹی نے 55 اضافی سیٹوں پر فتح حاصل کرکے مجموعی طور پر 135 سیٹیں حاصل کرلی اور آسانی سے اکثریت کے ساتھ حکومت سازی کی اہل قرار پائی۔ کرناٹک کی جیت سے دوسرا بڑا فائدہ کانگریس پارٹی کو یہ ہوا ہے کہ ان کے کیڈر میں نیا جوش و امنگ اور نئی قوت پیدا ہوگئی ہے۔ کرناٹک کی جیت کانگریس کے مستقبل کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اگر یہ فتح اسے حاصل نہیں ہوتی تو 2024 کا مقابلہ بہت مشکل ہوجاتا۔ اب کانگریس کے ممبران بھی سمجھ رہے ہیں کہ انہیں گرد و غبار جھاڑ کر نئی ہمت اور قوت کے ساتھ کھڑے ہونے کا سبب ہاتھ آ گیا ہے۔ ان کے پاس اب قومی سطح کا ایک معتبر لیڈر بھی ہے جس کا اعتبار بحال ہو چکا ہے اور تنظیم کی سطح پر بھی ڈسپلن موجود ہے اور یہ دونوں چیزیں ہی میدان سر کر نے کے لئے درکار ہوتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں نکالنا چاہئے کہ ہندوتو کی سیاست مکمل طور اپنا اثر کھو چکی ہے۔ ایسا سوچنا غلط فہمی ہوگی اور اس کے منفی نتائج سامنے آئیں گے۔ البتہ اتنا ضرور سمجھنا چاہئے کہ ہندوتو کی سیاست کا مقابلہ مثبت سیاست سے کیا جا سکتا ہے جس کا اثر کرناٹک میں نظر آیا۔ کرناٹک کی جیت سے کانگریس پارٹی میں یہ یقین بھی پیدا ہوگا کہ انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ ملک میں جمہوری قدروں کے تحفظ کے لئے ان کا وجود بے حد اہم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک کی 28 ریاستوں میں سے 13 ریاستیں ایسی ہیں جہاں غیر بی جے پی پارٹیاں بر سر اقتدار ہیں جن میں سے چار ریاستوں میں کانگریس پارٹی حکومت کر رہی ہے۔اس کے ساتھ ہی جغرافیائی اور آبادی میں تناسب سے ملک کے نصف سے زائد حصہ پر بھی غیر بھاجپا ئی پارٹیوں کا قبضہ ہے۔ کرناٹک سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اب کانگریس پارٹی ہندوتو کے خلاف پوری قوت کے ساتھ سامنے آئے اور نفرت و تقسیم کی سیاست کا مقابلہ بے خوف ہوکر کرے جیسا کہ اس نے کرناٹک میں کیا اور واضح الفاظ میں پی ایف آئی کے ساتھ ساتھ بجرنگ دل کی نفرت و قتل کی سیاست کو بھی نشانہ بنایا اور آخر لمحہ تک اس پر قائم رہی۔ کرناٹک کے عوام نے یہ ثابت کیا کہ فرقہ واریت پر مبنی سیاست سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے اور عملی طور پر انہوں نے بی جے پی کے ان تمام وزراء کو شکست سے دوچار کیا جو فرقہ وارانہ سیاست کی قیادت کر رہے تھے۔ کرناٹک کی جیت کے بعد دیگر مقامی پارٹیاں بھی سوچنے پر مجبور ہوں گی کہ وہ بی جے پی کے خلاف کوئی بھی محاذ کانگریس کے بغیر قائم نہیں کر سکتی ہیں اور اس کے آثار بھی نظر آنے لگے ہیں۔ یہ اتحاد بیحد ضروری اس لئے ہے تاکہ بی جے پی کے اس فریب سے پردہ اٹھایا جا سکے جس کے تحت ترقیاتی کاموں اور رفاہی پالیسیوں کا شور تو مچایا جاتا ہے لیکن پس پردہ وہ اپنی آئیڈیالوجی کو نافذ کرنے میں کوشاں نظر آتی ہے۔ باوجودیکہ 2014 میں اس نے اپنا نعرہ ترقی و رفاہ کو بنایا تھا۔ اس نے ملک کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو اپنی خاص آئیڈیالوجی کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی ہے۔ کرناٹک میں بھی اس کی کوشش شدت کے ساتھ کی گئی لیکن آخر کار ناکام رہی۔ ملکی سطح پر بھی عوام میں بے چینی ہے۔ اب یہ کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کی ذمہ داری ہوگی کہ عوام کے اس غصہ کو ملک میں جمہوری قدروں کی بحالی کے لئے استعمال کرے اور اپنے اندرونی اختلافات کو اسی طرح حل کرنے کی سعی کرے جس طرح کرناٹک کے اندر وزیر اعلیٰ کے منصب سے متعلق مسئلہ کو باہمی اتفاق سے حل کیا گیا ہے۔ جو لوگ اب تک سمجھ رہے تھے کہ جمہوریت کا مستقبل اس ملک میں تابناک نہیں ہے انہیں بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے اور انہیں اپنی دستوری ذمہ داریوں کو سمجھ کر اپنے حصہ کا کام کرنے میں مصروف ہو جانا چاہئے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]