محمد حنیف خان
سیاسی اور فکری تفوق ملک کو ان راہوں سے بہت دور لے جا چکا ہے جس پر چل کر وہ انسانی دنیا کے لیے مشعل راہ بن سکتا تھا۔جب اس نے جزوی طور پر اس پر عمل کیا توگنگا جمنی تہذیب کا علمبردار بن گیا، اگر یہ عمل جزوی کے بجائے کلی ہوتا تو سوچا جا سکتا ہے کہ آج روئے زمین پر اگر کہیں جنت ہوتی تو یہی ہندوستان ہوتا۔در اصل میٹھے پانیوں کے درمیان کھارے پانی کی ایک ایسی لکیر کھنچ گئی ہے جس سے دو نوں میٹھے پانی آپس میں نہیں مل سکتے،دو میٹھے ہیں مگر وہ بس اپنے لیے ہیں، کوئی ایک دوسرے میں مدغم ہو کر دوسرے کے وجود میں اضافہ نہیں کر سکتا ہے۔جن کو اس لکیر کو ختم کرنا ہے وہی اگر اس لکیر کو بڑھانے کے حامی ہوں تو کبھی بھی یہ دونوں آپس میں نہیں مل سکتے ہیں۔لیکن نااُمید نہیں ہونا چاہیے،کشت ویراں میں کبھی کبھی بارش کی پھوہار بھی اس کو سرسبزی و شادابی میں بدل دیتی ہے۔
اس وقت رام مندر کی تعمیر چل رہی ہے،جس کے لیے عام چندہ بھی اکٹھا کیا گیا، اس دوران کچھ مقامات پر ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے۔مدھیہ پردیش میں حالات سب سے زیادہ خراب نظر آئے جہاں انسانی اقدار کو نہ صرف پامال کیا گیا بلکہ مذہبی منافرت کو بھی فروغ دینے کی کوشش ہوئی، البتہ اچھی بات یہ رہی کہ حالات قابو میں ہوگئے اور ایک بار پھر حالات پرسکون ہوگئے۔بابری مسجد-رام مندر تنازع میں فیصلہ کے بعد محسوس ہوا تھا کہ اب مذہب/مسجد و مندر کی سیاست ختم ہوجائے گی اور حالات ایک فریق کی ہزیمت کے ساتھ ہی معمول پر آجائیں گے مگر جب چندہ جمع کرنے کے لیے ٹولیاں نکلنے لگیں اور طرح طرح کی خبریں آنے لگیں تو پیشانیوں پر شکنیں پڑنے لگیں۔
حکومتPlaces of Worship (Special Provisions) Act 1991 قانون کے تحفظ کیلئے مجبور نہیں ہے اور نہ ہی اس کو مجبور کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ وہ اکثریت میں ہے، اس لیے وہ جب چاہے اس قانون کو پارلیمنٹ میں ایک بل کے ذریعہ منسوخ کرسکتی ہے،جس کو وہ ایک مزید اصلاحی قدم سے تعبیر کرکے سیاست کو مزید دھار دے سکتی ہے۔مگر اس کے کیا عواقب ہوں گے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب حالات معمول پر آجائیں گے؟مسجد و مندر کے تناظر میں ہونے والی سیاست اور اس سے پیدا منافرت کا اب خاتمہ ہوجائے گا؟ در اصل یہ سوال ذہن میں اس لیے آیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ایک ایسے قانون کے خلاف سماعت کے لیے درخواست منظور کرلی ہے اور حکومت سے اس کا موقف جاننے کے لیے نوٹس جاری کیا ہے جو اس بات کی ضمانت دیتا تھا کہ 15اگست 1947سے قبل جس طرح اور جہاں مذہبی مقامات تھے، ان میں چھیڑ چھاڑ نہیں کی جا سکتی ہے۔Places of Worship(Special Provisions)Act 1991 پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت نے ستمبر1991میں پارلیمنٹ میں منظور کیا تھا۔ چونکہ اس وقت بابری مسجد کا معاملہ عدالت میں تھا، اس لیے اس کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھاجس کی روح سے1947سے قبل کے کسی بھی مذہبی مقام کے خلاف نہ تو عدالت میں سنوائی ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔مگر عدلیہ نے اس قانون کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی کو سماعت کے لیے منظور کر کے ایک ایسا قدم اٹھادیا ہے جس سے کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔
حکومت کے ذریعہ دیا جانے والا جواب ہندوستان کے مستقبل کو طے کرے گا،اس کا جواب ہی بتائے گا کہ وہ آئندہ کن خطوط پر جائے گا۔یہ خطوط مذہبی نقوش پر مبنی ہوں گے یا پھر اس نئے ہندوستان کی شناخت بنیں گے جس کا خواب گاندھی،نہرو اور مولانا آزاد نے مل کر ایک ساتھ دیکھا تھا۔جس طرح عدالت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی قانون کے جواز کی جانچ کرے،اس سے متعلق حکومت کا موقف معلوم کرے بعینہٖ حکومت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا موقف کھل کر بیان کرے، اس کا موقف مدعی کے موافق بھی ہو سکتا ہے اور مخالف بھی۔اگر اس قانون کی منسوخی والی عرضی کے خلاف حکومت کا موقف ہوا تو اس میں ملک کے ہر طبقے کے لیے بھلائی ہے لیکن اگر اس کی حمایت میں اپنے موقف کا اظہار کرتی ہے تو پھر ایک ایسے ہندوستان سے نئی نسل کا واسطہ پڑے گا جس نے گنگا جمنی تہذیب کو سنا بھی نہیں بس کتابوں میں پڑھا ہوگا۔
بات در اصل یہ ہے کہ اس قانون کی منسوخی نہ صرف متھرا میں شاہی عید گاہ اور بنارس میں گیان واپی مسجد کے وجود کے خاتمہ کے لیے دستخط ہوگی بلکہ ’’دی ہندو ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں تقریباً 3000مذہبی مقامات کے خلاف عدالتی کارروائی کے آغاز کا سرنامہ ثابت ہوگی۔اس میں صرف عدالتوں پر بڑھنے والے بوجھ کا مسئلہ نہیں ہے،اس قانون کی منسوخی سے سب سے بڑا مسئلہ سماجی اخوت و محبت اور آپسی رواداری کے لیے پیدا ہوجائے گا۔ہندوستان کی سیاست میں جس طرح بابری مسجد سب سے بنیادی مسئلہ تھا جس نے ملک کے تانے بانے کو ادھیڑ کر رکھ دیا، وہی کیفیت اس مسئلہ کے حل کے بعد دوبارہ پیدا ہوسکتی ہے۔کیونکہ منسوخی کی صورت میں عدالتوں میں جہاں اس طرح کی عرضیوں کا سیلاب آئے گا، وہیں ان مقامات کے متعلقہ علاقوں میں گنگا جمنی تہذیب کو نہ صرف چوٹ پہنچے گی بلکہ وہاں تفوق و برتری کی ایک نئی جنگ کا آغاز بھی ہوجائے گا۔
حکومت کا رخ کیا ہوگا؟ اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن قرائن و قیاسات اور ملک کے حالات کس جانب اشارہ کرتے ہیں، اس کے جائزہ سے منظر نامہ کچھ نہ کچھ دکھائی دینے لگتا ہے۔عدالت نے حکومت کا موقف جاننے کے لیے وقت کا تعین نہیں کیا ہے، حکومت جب چاہے اپنے موقف کا اظہار کرسکتی ہے۔اس لیے اس کے پاس ہر پہلو پر غور وفکر کا وقت بھی ہے۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں جو در اصل حکمراں ہوتی ہیں، ان کو اپنے ووٹ بینک،حکومت اور طاقت کو سب سے پہلے دیکھنا ہوتا ہے۔ایسے میں حکومتوں کے لیے دوسری وہ باتیں جو ملک کے عوام کے لیے زیادہ اہم ہیں، غیر اہم ہوجاتی ہیں۔پھر بھی ہم اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا چاہیں گے جس کے لیے ماضی میں جانا ہوگا۔ 10ستمبر 1991کو پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ ایس بی چوان نے کہا تھا کہ یہ بل ملک کی اخوت و سالمیت کے لیے پیش کیا گیا ہے، آزادی سے قبل جو آپسی رواداری تھی اس کو یقینی بنانے کے لیے یہ لایا گیا تاکہ ہماری روایات کو کوئی چوٹ نہ پہنچا سکے۔چوں کہ کانگریس کے پاس اکثریت تھی، اس لیے اس نے یہ بل منظور کرا لیا تھا۔ پارلیمنٹ میں اقلیت کے باوجود بی جے پی نے اس کی مخالفت کی تھی۔سابق مرکزی وزیر اوما بھارتی نے اس وقت جو باتیں کہی تھیں وہ قابل غور ہیں،انہوں نے اس قانون کو ’’بیل کی پیٹھ پر زخم ‘‘ سے تعبیر کیا تھا،ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس قانون کے ذریعہ ہندوؤں کو ایک نیا زخم دے رہی ہے۔پارٹی نے اس بل کی مخالفت میں اجلاس کا بائیکاٹ کردیا تھا۔اس وقت جو حکومت ہے وہ غلطیوں میں اصلاح کا نعرہ دیتی ہے۔خود وزیر اعظم بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کو صدیوں کی ’اپاسنا‘‘ کہتے ہیں۔ابھی کچھ دن قبل اتراکھنڈ کے نئے وزیراعلیٰ نے یہاں تک کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی پوجا ہوگی۔اس بیان کے بطن میں ان کا وہ وجود ہے اور فکر ہے جس نے ان کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔حکمراں پارٹی کھلے عام اس موقف کا اظہار کرتی رہی ہے غیر ملکیوں نے مندروں کو توڑا اور اس کی جگہ اپنے معابد بنائے،خود وزیر اعظم کو اس شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس نے ہندوؤں کو تفوق و برتری سے ہمکنار کیا ہے۔ایسے میں ان کا موقف کیا ہوگا؟ بہت زیادہ اس پر غور و فکر کی شاید ضرورت نہیں ہے۔چونکہ حکومت کے سامنے اس کے اپنے سیاسی مفادات و نقصانات ہوتے ہیں اس لیے وہ سب سے پہلے اسی پر نظر ڈالتی ہے اور یہاں تو سیاسی مفادات کے ساتھ ہی نئی تاریخ رقم کرنے کا جنون اور ایک الگ سیاسی فکر ہے۔ایسے میں حکومت سے بہت زیادہ مثبت امیدیں نہیں رکھی جانی چاہیے۔ 2024 میں پارلیمانی الیکشن کے وقت تک کے لیے اپنے جواب کو حکومت التوا میں ڈال سکتی ہے تاکہ اس کا فائدہ وہ اس الیکشن میں اٹھا سکے۔
حکومتPlaces of Worship (Special Provisions)Act 1991 قانون کے تحفظ کے لیے مجبور نہیں ہے اور نہ ہی اس کو مجبور کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ وہ اکثریت میں ہے، اس لیے وہ جب چاہے اس قانون کو پارلیمنٹ میں ایک بل کے ذریعہ منسوخ کرسکتی ہے،جس کو وہ ایک مزید اصلاحی قدم سے تعبیر کرکے سیاست کو مزید دھار دے سکتی ہے۔مگر اس کے کیا عواقب ہوں گے، اس کا اندازہ وہ نسل لگا سکتی ہے جس نے سابق وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی کی رتھ یاترا دیکھی ہو،یا بابری مسجد کی شہادت کے بعد پورے ملک میں پھوٹ پڑنے والے فسادات کا منظر دیکھا ہو۔جب بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو اس میں نقصان ملک کا ہوتا ہے بس ذہنی سطح پر تفوق و برتری کسی ایک طبقے کو حاصل ہوتی ہے۔اس لیے حکومت کو ملک کی سالمیت،اس کی تعمیر و ترقی اور زخم سے نکل کر مرکزی دھارے میں شامل ہونے والے طبقات کا خیال رکھ کر اپنے موقف کا اظہار کرنا چاہیے۔ہر طبقے کے سیکولر اور لبرل افراد کو اس معاملے کو ابھی سے سنجیدگی سے لینا چاہیے اور حکومت کو عرضی گزار کی موافقت میں اپنے موقف کے اظہار سے باز رکھنے کی کوششیں شروع کردینا چاہیے۔
[email protected]