قرآن کریم میں ’بین المذاہب ‘گفتگو کی اصولی بنیادیں: ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی

0

ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی

قرآن مجید اللہ کی آخری کتاب، دنیا بھر کے انسانوں کے لیے رہنمائی کا ایک کامل سرچشمہ ہے۔ یہ الہامی کتاب نہ صرف ایمان، عبادات، اور اخلاقیات کی تعلیمات فراہم کرتی ہے بلکہ مختلف مذاہب اور نظریات کے حامل افراد کے درمیان مکالمے اور پرامن تعلقات کے اصولوں کو بھی واضح طور پر بیان کرتی ہے۔ قرآن کا یہ پیغام ہمہ جہتی ہے، جو تمام انسانیت کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے نظریاتی اختلافات کو حکمت، صبر، اور محبت کے ساتھ حل کریں۔مکالمہ بین المذاہب قرآن کا ایک اہم موضوع ہے، کیونکہ یہ مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی، اتفاق، اور باہمی احترام کا پیغام دیتا ہے۔ قرآن نے مختلف قوموں، اہل کتاب، اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں سے خطاب کرتے ہوئے ان کے عقائد کا جائزہ لیا، ان کے سوالات کا جواب دیا، اور ان کے ساتھ باوقار انداز میں بات چیت کے اصول سکھائے۔ ان اصولوں کی روشنی میں بین المذاہب مکالمہ صرف ایک گفتگو کا عمل نہیں بلکہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعے دلوں کو جیتا جا سکتا ہے اور انسانیت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جا سکتا ہے۔

قرآن کریم عظیم الشان تعلیمات اور حکمت سے لبریز ہے، جس میں انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کے لیے رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ اس مقدس کتاب میں توحید، عبادات، اخلاقیات، معاملات، معاشرتی عدل، اقتصادی اصول، انسانی حقوق، والدین کے حقوق، عورتوں کی عزت، اور مظلوموں کی حمایت جیسے بے شمار موضوعات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، اس میں جنت و جہنم کے احوال، قیامت کے مناظر، انبیاء￿ کی زندگیوں کے واقعات، اور گزرے ہوئے اقوام کے عبرت آموز قصے پیش کیے گئے ہیں تاکہ انسان ان سے سبق حاصل کرے اور اپنے رب کے حکموں پر عمل پیرا ہو۔ قرآن پاک کا ہر لفظ نہ صرف ہدایت کا منبع ہے بلکہ انسان کو دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتا ہے، اور یہ کتاب زندگی کے ہر شعبے کیلئے ایک کامل ضابطہ حیات کے طور پر دنیا کے سامنے موجود ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’الفوز الکبیر‘‘ میں قرآن مجید کے معانی و مضامین کو پانچ علوم میں تقسیم کرکے قرآن فہمی کے ایک منفرد اور جامع اسلوب کی بنیاد رکھی۔ ان علوم میں سے ایک اہم اور نمایاں علم ’’علمِ مخاصمہ‘‘ ہے، جس کے تحت اللہ تعالیٰ نے کفار، مشرکین، منافقین، یہود و نصاریٰ سے بھرپور دلائل اور حکمت کے ساتھ مکالمہ کیا ہے۔ اس علم کی افادیت اور عظمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود رب کائنات نے اپنی مقدس کتاب کے ایک بڑے حصے کو مختلف مذاہب کے ساتھ گفت و شنید کے لیے مختص فرمایا، تاکہ حقائق کی وضاحت ہو، باطل کی تردید ہو اور ہدایت کا پیغام ہر دل تک پہنچے۔ سورہ بقرہ، جو قرا?ن مجید کی پہلی طویل سورہ ہے، اپنے بیشتر مضامین میں اہل کتاب اور دیگر باطل مذاہب سے مکالمے پر مشتمل ہے، جب کہ سورہ آل عمران اور مدنی سورتوں میں یہود، نصاریٰ اور منافقین کے ساتھ علمی و فکری تبادلۂ خیال کیا گیا ہے۔ مکی سورتیں مشرکین اور کفار کے ساتھ زوردار مکالمے اور مضبوط دلائل کی بنیاد پر دعوت الی الحق کا علم بلند کرتی ہیں۔ اس طرزِ مکالمہ سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ بین المذاہب گفتگو نہ صرف دینِ اسلام کی بنیادی حکمتِ عملی کا حصہ ہے بلکہ اس کی جڑیں وحی الٰہی کے اولین مخاطبات میں پیوست ہیں، اور یہی اسلوب دعوتِ دین کی ابدی روشنی فراہم کرتا ہے۔ ذیل میں قرآن کریم کی روشنی میں چند اصول بیان کئے گئے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔

حکمت و نرمی کا اسلوب: حکمت اور نرمی، اسلوبِ مکالمہ کی بنیاد ہیں، جن کے ذریعے نہ صرف خیالات کو موثر انداز میں پیش کیا جاتا ہے بلکہ دلوں کو مسخر کرنے کا ہنر بھی پیدا ہوتا ہے، کیونکہ نرمی کی چاشنی اور حکمت کی روشنی، گفتگو کو ایسی شیرینی عطا کرتی ہے جو نہ صرف سننے والے کے دل پر گہرے اثرات چھوڑتی ہے بلکہ مخالف کے دل میں قبولیت کی کیفیت بھی پیدا کر دیتی ہے، یہی وہ وصف ہے جو مکالمے کو تضاد سے ہم آہنگی، اختلاف سے اتفاق، اور نفرت سے محبت کی طرف لے جاتا ہے۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو ، اور (اگر بحث کی نوبت آئے تو) ان سے بحث بھی ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو‘‘۔ (النحل : 125)
تفسیر ابن کثیر میں حکمت سے مراد کتاب اللہ اور حدیث رسول ؐہے اللہ تعالیٰ رب العالمین اپنے رسول حضرت محمدؐ کو حکم فرماتا ہے کہ آپ اللہ کی مخلوق کو اس کی طرف بلائیں۔ حکمت سے مراد بقول امام ابن جریر کلام اللہ اور حدیث رسول اللہؐ ہے۔ اور اچھے وعظ سے مراد جس میں ڈر اور دھمکی بھی ہو کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ اور اللہ کے عذابوں سے بچاؤ طلب کریں۔ ہاں یہ بھی خیال رہے کہ اگر کسی سے مناظرے کی ضرورت پڑجائے تو وہ نرمی اور خوش لفظی سے ہو۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی اس آیت کے ضمن میں رقمطراز ہیں کہ ’’یعنی بہت اچھے ‘ عمدہ طریقہ سے ان سے مناظرہ کرو اور اس طرح بحث کرو کہ اس میں نفس کی تیزی اور شیطانی وسوسہ کا دخل نہ ہو ‘ چڑچڑا پن اور غلبہ نفسانی کی خواہش نہ ہو بلکہ محض لوجہ اللہ ہو اور اللہ کا بول بالا کرنا مقصود ہو‘‘۔ یعنی حکمت کا مطلب صرف علم و دلیل سے بات کرنا نہیں، بلکہ مخاطب کی ذہنی سطح، مزاج، اور عقائد کو مدنظر رکھتے ہوئے بات کرنا ہے۔ اگر ہم اس آیت کو روزمرہ زندگی میں اپنائیں تو ہر کسی کے ساتھ بات چیت کا انداز بدل جائے گا، کیونکہ ہم ایک مخصوص مقصد کے لیے نہیں بلکہ حق کی جانب رہنمائی کے لیے بات کریں گے۔

مشترکہ نکات پر اتفاق: بین المذاہب مکالمے کی اہمیت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب مختلف عقائد و مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کے افکار و نظریات کو سمجھنے اور مشترکہ نکات پر اتفاق کی بنیاد پر انسانی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کا عزم کریں، کیونکہ مذاہب کا اصل مقصد انسانی خدمت، اخلاقی اقدار کا فروغ، اور باہمی احترام و محبت کی فضا قائم کرنا ہے، جو تبھی ممکن ہے جب ہم اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اتحاد کی راہ اختیار کریں اور دلوں کے فاصلے مٹاکر امن و آشتی کا پیغام عام کریں۔ اس اصول کو قرآن کریم نے کچھ یوں واضح کیا ہے ، ارشاد باری ہے۔ ’’تو کہہ اے اہل کتاب آؤ ایک بات کی طرف جو برابر ہے ہم میں اور تم میں کہ بندگی نہ کریں مگر اللہ کی اور شریک نہ ٹھہراویں اس کا کسی کو اور نہ بناوے کوئی کسی کو رب سوائے اللہ کے پھر اگر وہ قبول نہ کریں تو کہہ دو گواہ رہو کہ ہم تو حکم کے تابع ہیں‘‘۔(آل عمران: 65) مفتی شفیع صاحب اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں ’ کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی جماعت کو دعوت دینے کا خواہش مند ہو جو عقائد و نظریات میں اس سے مختلف ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ مخالف العقیدہ جماعت کو صرف اسی چیز پر جمع ہونے کی دعوت دی جائے جس پر دونوں کا اتفاق ہوسکتا ہو، جیسے رسول اللہؐ نے جب روم کے بادشاہ ہرقل کو اسلام کی دعوت دی تو ایسے مسئلہ کی طرف دی جس پر دونوں کا اتفاق تھا، یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر‘۔ مکالمے کا آغاز اس نکتے سے کیا جائے جس پر دونوں فریق متفق ہوں، جیسے اللہ کی وحدانیت، عدل، اور انسانیت کی خدمت۔ یہ اصول اختلافات کو کم کرنے اور اتفاق کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

دلیل پر مبنی بات چیت : قرآن کریم مکالمے کے دوران شائستگی اور مثبت رویے کی ہدایت دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ اختلافی مسائل پر بات کرتے وقت بھی ایسا لہجہ اختیار کیا جائے جو مخاطب کو معقولیت کے ساتھ حقائق کو سمجھنے کا موقع دے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’اور (مسلمانو) اہل کتاب سے بحث نہ کرو، مگر ایسے طریقے سے جو بہترین ہو‘‘۔ (العنکبوت:46) یعنی بحث و مباحثہ کا طریقہ کار ہمیشہ معقول دلائل، شائستہ زبان اور افہام و تفہیم کی روح کے مطابق ہونا چاہیے تاکہ مخالف کے خیالات میں اصلاح کی گنجائش پیدا ہو سکے۔ مبلغ کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر سچائی کو اس کے اندر اتارے اور اس کو صحیح راستے پر گامزن کرے، نہ کہ صرف اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لیے بحث کرے۔ اس کو کسی پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے، جس کا مقصد صرف اپنے حریف کو نیچا دکھانا ہو، بلکہ اسے حکیم کی طرح اپنی حکمت سے کام لینا چاہیے، جیسے ایک حکیم مریض کا علاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ خیال رکھتا ہے کہ کہیں اس کی کسی بے احتیاطی سے مریض کی حالت مزید بگڑ نہ جائے۔ اس کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض کو شفا دے اور اسے اس کی بیماری سے نجات دلوائے۔

احترامِ رائے: قرآن مبین جبر و اکراہ کو منع کرتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہر فرد کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہو۔ اس اصول کے تحت مختلف مذاہب کے افراد کے درمیان مکالمے میں اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کا درس دیا گیا ہے۔ارشاد ربانی ہے’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔(البقرۃ: 256) اسلام کو قبول کرنے میں کسی قسم کی زبردستی نہیں ہے کیونکہ ہدایت اور گمراہی کے درمیان واضح فرق ہو چکا ہے۔ جب اسلام کی سچائی دلائل سے ثابت ہوچکی ہو تو اس میں کسی قسم کی اکراہ یا جبر کا کوئی سوال نہیں اٹھتا۔ جو شخص شیطان کے گمراہ کن راستے کو چھوڑ کر اللہ پر ایمان لاتا ہے، اس نے ایک مضبوط اور ناقابلِ ٹوٹ رشتہ پکڑ لیا ہے۔ یہ رشتہ اللہ کے ساتھ ہوتا ہے جو ہر بات کو سنتے ہیں اور دلوں کے احوال کو بخوبی جانتے ہیں۔یہاں ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ دین کے معاملے میں کسی پر جبر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ہر انسان کو اپنے ایمان کی ا?زادی حاصل ہے۔ اس اصول کے مطابق، ہمیں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے عقائد کا احترام کرنا چاہیے اور ان کی رائے کو دلی طور پر تسلیم کرنا چاہیے۔

نبی اکرمؐ کی زندگی میں قرآن کے مکالمہ بین المذاہب اصولوں کی کئی مثالیں ملتی ہیں، جنہوں نے معاشرتی تعلقات اور مختلف مذاہب کے ساتھ امن و احترام کے اصولوں کو فروغ دیا۔ آپ ؐ نے ہمیشہ قرآن کے اصولوں کو عملی طور پر اپنایا اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کی مثالیں پیش کیں۔نبی ؐ نے مکہ مکرمہ میں کفار مکہ کے ساتھ قرآن کے اصول کے مطابق مکالمہ کیا اور دعوت اسلام دی۔ آپ ؐ نے ہمیشہ قرآن کی ہدایات کے مطابق مکالمہ اور مذاکرات کے ذریعے اسلام کی حقانیت کی وضاحت کی۔

نبی اکرم ؐ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے قرآن کے اصول ’حکمت اور نرمی سے دعوت دینا‘ کو عملی طور پر اپنایا۔ آپ ؐ نے ان کے عقائد کا احترام کرتے ہوئے مشترکہ نکات پر بات کی اور دعوت اسلام دی، اس طرح عیسائیوں کے ساتھ حسن سلوک اور احترام کا دروازہ کھولا۔ صلح حدیبیہ میں نبی ؐ نے قرآن کے اصول ’’لا اکراہ فی الدین ‘‘ کو اپنایا، یعنی دین میں جبر نہیں۔ آپ ؐ نے دشمنوں کے ساتھ معاہدہ کیا، حالانکہ اس میں بعض شرائط مسلمانوں کے حق میں ناموافق تھیں، مگر حکمت کے تحت اس معاہدے کو قبول کیا۔مدینہ کی دستاویز میں نبی ؐ نے مختلف قبائل اور مذاہب کے درمیان حقوق و فرائض کا تعین کیا اور قرآن کے اصول کے مطابق باہمی احترام اور تعاون کی فضا قائم رکھی۔

موجودہ دور میں قرآنی اصولوں کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے کیونکہ دنیا میں مذہبی اور ثقافتی اختلافات بڑھ رہے ہیں۔ قرآن کے اصول جیسے’ حکمت اور اچھے طریقے سے دعوت دینا ‘ اور’’دین میں جبر نہیں ‘ نہ صرف مسلمانوں کے درمیان امن کے قیام کے لیے ضروری ہیں بلکہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے لیے بھی اہم ہیں۔ ان اصولوں کی پیروی عالمی امن، بھائی چارے اور انسانیت کی خدمت کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے، اور ہمیں ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرنے کی اہمیت سکھاتی ہے۔قرآن مجید نے مکالمہ بین المذاہب کے لیے جو اصول وضع کیے ہیں، وہ محض نظریاتی تعلیمات نہیں بلکہ عملی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ یہ اصول ہمیں سکھاتے ہیں کہ اختلافات کو حکمت، نرمی، اور انصاف کے ساتھ حل کیا جائے۔ نبی اکرم ؐ کی زندگی ان اصولوں کی عملی تعبیر ہے، جو ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم ان تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور دنیا کو ایک پرامن مقام بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

اسسٹنٹ پروفیسر ،فیکلٹی آف تھیولوجی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ
Email:[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS