اسلام کا سب سے پہلا مدرسہ

0

مفتی اصغر علی القاسمی
مدارس اسلامیہ کودنیا کی ہمہ اقسام تحریکوں وتنظیموں کے بیچ وہی حیثیت حاصل ہے جو سارے نظام فلکی میں کواکب وسیارات کے مقابل سورج کوحاصل ہے کہ ان تمام کی ساری رونق ،چمک دمک اور قوت کا اصل منبع و سرچشمہ یہی سورج ہے ۔آپ آزادی ہند کے بعد کی اصلاحی یا رفاہی کسی بھی تحریک کے بنیادی ڈھانچے او ر اس کے ابتدائی مراحل کا جائزہ لے لیجئے ،اس کا آخری سرا کہیں نہ کہیں انھیں مدارس سے مربوط نظر آئے گا۔اس کی زمام اور باگ انھیں مدارس کے فارغ التحصیل علماء کے ہاتھوں میں ہوگی یا اس تحریک کے مختلف ادوار میں اس کی ترقی وترویج اور تقویت کے یہی باعث نظر آئیں گے۔ آج بھی قرآن و حدیث پر گہری بصیرت ، علوم اسلامیہ پر کامل دسترس اور ان علوم کے تئیں وسیع نظر اور دوربیں نگاہ چاہتے ہیں تو وہ انھیں مدارس اور اسی نصاب تعلیم و تربیت کے زیر اثر حاصل ہوگی۔
مدراس اسلامیہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ مدینہ منور ہ آنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا جو کام کیا وہ مسجد نبوی کی تعمیر تھی ۔مسجد ہی کے ایک حصہ میں سائبان اور چبوترہ (صفہ) بھی بنایاگیاتھا۔یہ اولین اقامتی مدرسہ تھا۔ رات کو طلباء یہیں رہتے تھے ، وہاں ایسے اساتذہ مقرر کئے گئے لکھنے پڑھنے اور مسائل دینیہ کی تعلیم دیتے تھے ۔مثلاً حضرت سعید بن عاصؓ ،حضرت عبادہ بن صامتؓ وغیرہ جو خوش نویس تھے۔
اس مدرسہ میں شب باش طلباء 70اور 80 تک ہوجاتے تھے۔اس اقامتی درسگاہ میں لکھنے پڑھنے کے علاوہ جو تعلیم دی جاتی تھی وہ مسائل فقہ ،دینی مسائل اور قرآن مجید کی سورتیں زبانی یاد کرائی جاتی تھیں ۔تجوید اور دیگر اسلامی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے ۔اسی طرح عبادات اور معاشرت بھی سکھائی جاتی تھی۔جس کی نگرانی خود حضورؐ فرمایاکرتے تھے اور وہاں رہنے والوں کی غذا وغیرہ کا بندوبست کیاکرتے تھے۔یہ طلباء اپنی ضرورت کے اوقات میں طلب روزگار میں بھی مصروف ہوا کر تے تھے۔مقیم طلباء کے علاوہ مدینہ منورہ کے لوگ بھی شریک درس ہواکرتے تھے۔اس کے علاوہ دور دراز کے قبائل سے بھی شائقین علم آتے اور نصاب کی تکمیل کے بعد اپنے وطن واپس ہوجایاکرتے تھے ۔یہ لوگ عموماً صفہ میں ٹھہرا کرتے تھے ، اس لئے بعض اوقات طلباء کی تعداد میں کافی اضافہ ہوجاتا تھا۔بعض مؤرخین نے ،صفہ کے چارسو طلبا کا ذکرکیاہے ۔
حضورؐ خود بھی شخصی طور پر ترعلیم دیا کرتے تھے ،جس میں جلیل القدر صحابہ ؓ شریک ہوتے تھے ، نیز آپ مسجد نبوی کے حلقہ ہائے درس کا اکثر معائنہ بھی فرمایاکرتے تھے ۔ترمذی شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ آپؐ نے قضاء وقدر (تقدیر) کے مسئلہ میں بحث ومباحثہ ہوتے دیکھا تو آپ نے اس موضوع پر بحث ومباحثے سے منع فرمادیااور ارشاد فرمایا کہ بہت سی گذشتہ امتیں اسی مسئلہ میں الجھ کر گمراہ ہوئی ہیں ۔غرض اسلام کا سب سے پہلا مدرسہ مسجد نبوی کا وہ صفہ ہے ، اور اس کے پہلے ناظم تعلیمات آپ کی ذات گرامی تھی۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی واحد درسگاہ نہیں تھی ، بلکہ یہاں کم از کم نو مسجدیں عہد نبوی میں بن چکی تھیں اور ہر مسجد اپنے محلے اور آس پاس کے لوگوں کے لئے درسگاہ تھی۔خاص کر بچے بھی وہاں پڑھنے کے لئے آیا کرتے تھے ۔بعض احادیث میں حضورؐکے تمام احکامات ان لوگوں کے بارے میں محفوظ ہیں جو اپنے محلے کی مسجدوں میں تعلیم پاتے تھے ۔نیز آپ نے یہ حکم بھی صادر فرمایا تھا کہ لوگ اپنے پڑوسیوں سے بھی تعلیم حاصل کریں۔ 2ہجری میں ایک اور اقامتی درسگاہ’دارالقراء‘ کا بھی پتہ چلتاہے ۔جو مخزون بن نوفل کے مکان میں قائم تھی ۔حضورؐ نے تعلیم کی تو سیع واشاعت کے لئے ہر ممکن ذرائع استعمال فرمائے ۔چنانچہ بدر میں ستر کے قریب اہل مکہ گرفتار ہوئے ،تو آپ نے ان لوگوں کی رہائی کے لئے جو مالدار نہ تھے ، یہ فدیہ مقرر فرمایا کہ مدینہ کے دس دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں۔ اس کے علاوہ جب قبائل کے وفود آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ اپنے کسی تربت یافتہ معلم کو ان کے ساتھ کردیاکرتے تھے تاکہ وہ اس علاقے میں جاکر دینیات کی تعلیم کا بندوبست کریں۔وہ معلم اپنا کام مکمل کرنے کے بعد مدینہ منورہ واپس آجایاکرتے تھے۔
تعمیر حیات بحوالہ تحفۃ الطلباء والعلماء
دنیا کی فیکٹریوں اور کارخانوں میں سامان بنتے ہیں ، مگر مدارس اسلامیہ وہ فیکٹریاں اور کارخانے ہیں جہاں انسان بنتے ہیں، یہاں طلبا کو سماج و معاشرے میں جینے کا کامیاب طریقہ سکھایاجاتاہے۔ یہاں انھیں انسانیت کا درس دیاجاتاہے ، اخوت وبھائی چارہ کی تلقین کی جاتی ہے۔ان کے رشتہ داروں کے حقوق ان کو بتائے جاتے ہیں ۔احکام الٰہی اور شریعت کے اصول و قوانین انھیں سکھایا جا تا ہے ۔
مدارس کے فارغ التحصیل کو طعنہ نہ دیں
دنیااس بات کی معترف ہے کہ نہایت کم تنخواہ اور کم سے کم اسباب تعیش میں مکمل آسودگی کے ساتھ اگر کوئی مخلوق جیتی ہے تو وہ یہی مدارس اسلایہ کے بوریہ نشیں لوگ ہیں۔آج تک انھیں اپنی تنخواہ میں اضافہ کے لئے کبھی سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے نہیں دکھا گیا،نہ کبھی اپنی ڈیوٹی کوروک کر دھرنے پر بیٹھتے ہوئے دیکھا گیا۔نہ آج تک کسی مولوی نے اپنی قلیل تنخواہ کی وجہ سے خودکشی کی ہے ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS