از قلم: امام علی فلاحی
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکشن ۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد ۔
ماہ رمضان کی 17 تاریخ سن ہجری 2 اسلامی تاریخ میں ایک یادگار دن مانا جاتاہے کیونہ اسی دن یعنی کہ سترہ رمضان المبارک کو اسلام اور کفر کے درمیان پہلی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی تھی اور مٹھی بھر مسلمانوں کو کفار کے لشکر پر فتح عظیم حاصل ہوئی تھی۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم 12 رمضان المبارک کو اپنے تین سو تیرہ (313) جانبازو جا نثار ساتھیوں کو لے کر میدان بدر کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
جب آپ اپنے مختصر سے لشکر کو لے کر مدینہ طیبہ سے تھوڑی دور پہنچتے ہیں تو آپ جیش اسلام کا جائزہ لیتے ہیں اور جو اس کارواں میں کم سن اور نوعمر ہوتے ہیں انہیں انکے گھروں کی جانب روانہ فرما دیتے۔ اسکے بعد لشکر اسلام کی کل تعداد 313 بنتی ہے ، جس میں سے 60 مہاجرین اور 253 انصار ہوتے ہیں۔
چلتے چلتے یہ بے نظیر و بے مثال لشكر 16 رمضان المبارک بروز جمعرات میدان بدر پہنچ جاتا ہے۔
ادھر مکہ معظمہ سے بھی قریش مکہ بڑے سازوسامان کے ساتھ بدر کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔ ایک ہزار آدمیوں کا لشکر ہوتا ہے، رؤسائے قریش سب شریک جنگ ہوتے ہیں۔
چنانچہ 17 رمضان المبارک کو جب حضور میدان میں پہنچ کر اپنے جانثار و جانباز اور وفادار سپاہیوں کو اور ان کی قلیل تعداد اور بے سرو سمانی کو مخالفین کے بالمقابل دیکھتے ہیں تو اپنے ہاتھوں کو بارگاہ الہٰی میں پھیلا کر دعا گو ہوتے ہیں کہ: اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما، اے اللہ اگر آج یہ مٹھی بھر نفوس بلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔
(صحیح بخاری)
صف آرائی کے وقت حضور نبی کریم کے دست اقدس میں ایک تیر ہوتی ہے. اسی کے اشارے سے آپ مجاہدین کے صفیں قائم فرمارہے ہوتے ہیں پھر “مہاجرین” کا علم و پرچم حضرت مصعب بن عمیر کو، “خزرج” کے علمبردار حباب بن منذر کو اور “اوس” کے علمبردار سعد بن معاذ رضی اللہ عنھم اجمعین کو مقرر فرماتے ہیں۔
چنانچہ لشکر اسلام کی صف آرائی ہورہی ہوتی ہے اور مشرکین مکہ بھی مقابل میں صفیں باندھے کھڑے ہوتے ہیں، صف آرائی کا ایسا دل کش نظاره شاید کبھی زمین و آسمان نے نہیں دیکھا تھا کہ ایک طرف وہ مشرکین تھے جن کے سر اللہ وحده لا شریک کے سامنے تو نہیں جھکتے تھے مگر اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ بتوں کے سامنے خم ہوجاتے تھے، یہ وہ مشرکین تھے جو سر سے لے کر پاؤں تک تکبر و غرور سے لبریز تھے جبکہ دوسری طرف وہ مومنین کامل تھے، جن کے دل ایمان کے نور سے روشن تھے، یہ وہ مومنین تھے جو چٹانوں سے زیادہ مضبوط اور پہاڑوں سے زیادہ بلند عزائم رکھنے والے تھے، یہ وہ صاحبان ایمان تھے جن کے پاس صرف اور صرف دو گھوڑے، چھ زر ہیں اور آٹھ شمشیریں تھیں۔
ایک جانب سب نفس و شیطان کے بندے کھڑے تھے تو ایک طرف رحمان کے بندے صفیں باندھے کھڑے تھے۔
يعنى کہ ایک طرف بت پرست تھے تو دوسری طرف حق پرست تھے، ایک طرف کافر تھے تو دوسری طرف مومن تھے ایک طرف ظلمت تھی تو دوسری طرف نور تھا ایک طرف ظلم وجفا والے تھے تو دوسری طرف صدق و وفا والے تھے ایک طرف سازوسامان والے تھے تو دوسری طرف ایمان و ایقان والے تھے ایک طرف جہنمی تھے تو دوسری طرف جنتی تھے ایک طرف ابل شیطان تھے تو دوسری طرف ابل رحمان تھے ایک طرف انسانیت کے تخریب کار تھے تو دوسری طرف انسانیت کے معمار تھے.
بہر کیف! دستور عرب کے مطابق جب جنگ کی ابتداء ہوتی ہے تو مشرکین میں سے عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کے ساتھ میدانِ کارِزار میں اترتا ہے اور مبارزت طلب کرنے لگتا ہے تو لشکر اسلام میں سے حضرت امیر حمزہ، حضرت علی المرتضی اور حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہم، عتبہ، ولید اور شیبہ کے مقابلہ میں آتے ہیں پھر جنگ کی شروعات ہوتی ہے جسمیں حضرت امیر حمزہ عتبہ بن ربیعہ کو واصل جہنم کرتے ہیں، جب کہ حضرت علی حیدر کرار ولید بن عتبہ کو جہنم رسید کرتے ہیں اور حضرت عبیدہ شیبہ کے ہاتھوں زخمی ہو جاتے ہیں، یہ دیکھ کر شیر خدا حضرت علی المرتضی آگے بڑھ کر اپنی ضربِ حیدری کے ایک ہی وار سے شیبہ بن ربیعہ کو بھی جہنم رسید کر دیتے ہیں۔
تینوں مشرکین سرداروں کی لاشیں جب زمین پر پڑجاتی ہیں مشرکین مکہ میں ایک ہل چل سی مچ جاتی ہے۔
جب دست بہ دست عام لڑائی شروع ہوتی ہے تو لشکر اسلام کا ایک ایک سپاہی کفار کے بیسیوں سپاہیوں پر بھاری پڑ جاتا ہے جسکا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ تھوڑی ہی دیر میں اسلام کے سپاہی کفار کی کثرت کو کچل کر واصل جہنم کر کے فتح عظیم حاصل کرتے ہیں۔
پتہ یہ چلا کہ اگر دلوں میں کامل ایمان ہو، دین پر مرمٹنے کا جذبہ ہو اور اللہ پرتوکل ہو تو باطل کی بڑی سے بڑی طاقت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔