کرناٹک کی جیت سے جہاں بی جے پی کی پریشانی بڑھ گئی اوروہ انتخابی حکمت عملی بدلنے پر مجبور ہوگئی ۔ وہیں کانگریس کے حوصلے بلند ہیں۔کیوں نہ ہوں جب ہماچل پردیش کے بعد پارٹی کی مسلسل دوسری جیت ہے۔جیت کے اس سلسلہ کو برقرار رکھنے کیلئے کانگریس اب ان ریاستوں پر توجہ دے رہی ہے، جہاں لوک سبھا انتخابات سے قبل اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ان میں راجستھان ، چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش اورتلنگانہ شامل ہیں ۔پارٹی صدر ملکارجن کھرگے نے وہاںکے لیڈران کی ایک میٹنگ 24مئی کو طلب کی ہے ،تاکہ انتخابی تیاریوں اورحکمت عملی تبادلہ خیال کرکے مؤثر طریقے سے کام شروع کیا جاسکے۔ وہاں اسمبلی انتخابات لوک سبھا انتخابات کیلئے سیمی فائنل کی حیثیت رکھیں گے۔ ہار جیت کا پورا اثر پارلیمانی انتخابات پر پڑے گا۔ ان میں سے تلنگانہ کو چھوڑ کرباقی 3ریاستیں سابقہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے جیتی تھی اور حکومت بھی بنائی تھی، لیکن مدھیہ پردیش میں پارٹی میں تقسیم اور بغاوت کی وجہ سے حکومت برقرار نہیں رہ سکی اوربی جے پی نے ہار کر بھی جوڑ توڑ کے ذریعہ حکومت پر قبضہ کرلیا ، جبکہ تلنگانہ میں پارٹی مضبوط پوزیشن میں نہیں ہے ۔وہاں اسے زمین تیار کرنے کیلئے کافی محنت کرنی پڑے گی ۔پارٹی کو امید ہے کہ کرناٹک کی طرح ’بھارت جوڑو یاترا‘کافائدہ تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں بھی پہنچے گا۔ اس طرح کانگریس کے سامنے جہاں راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اپنی حکومت کو برقراررکھنے کا چیلنج ہوگا، وہیں مدھیہ پردیش میں پھر سے اقتدارکو حاصل کرنے اورتلنگانہ میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کا مشکل ہدف ہوگا ۔
حالیہ عرصے میں کانگریس کیلئے سب سے بڑامسئلہ پارٹی کواندرونی اختلافات ، لیڈران کی کھینچ تان ، پھوٹ اوربغاوت سے بچانا رہا ہے ۔جن کی وجہ سے گزشتہ چند برسوں میں کئی ریاستوں میں اس کے ہاتھوں سے حکومت نکل گئی ۔پارٹی کو متحد رکھنا پارٹی کو ہمیشہ بڑا چیلنج رہا ۔ کرناٹک میں جیت کے باوجود پارٹی جوڑ توڑ کی سیاست سے ڈری ہوئی تھی ۔اب بھی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ 6-7ریاستوں میں اپنے بل بوتے پر حکومت بنالینے یا ہم خیال جماعتوں کی مخلوط حکومت میں شمولیت سے قومی سطح پر کانگریس کا مسئلہ حل نہیں ہونے والا ہے ۔اس کیلئے ہم خیال جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔جیساکہ یوپی اے سرکار میں پارٹی نے کیا تھا ۔کرناٹک میں حلف برداری کی تقریب میں ہم خیال بی جے پی مخالف جماعتوں کو دعوت نامے بھیج کر اوراسٹیج پر اپوزیشن اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی بھرپور کوشش کی اورپیغام بھی گیا ۔لیکن پارٹی نے دہلی کے وزیراعلیٰ اروندکجریوال اورتلنگانہ کے وزیراعلیٰ کے چندرشیکھر رائوکو دعوت نامہ نہ بھیج کر اپنی پسند کا اپوزیشن محاذ بنانے کاایک طرح سے اشارہ دے دیا ،یہ چیز کئی ہم خیال جماعتوں کو کھٹک رہی ہے۔شاید دعوت نامے کے باوجود مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی اور اترپردیش کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو کی حلف برداری کی تقریب سے دوری کی وجہ یہی ہویا دونوں کانگریس کاعروج اپنے خطرہ سمجھ رہے ہوں۔حالانکہ ممتابنرجی نے گزشتہ دنوں کانگریس کے تعلق سے جس طرح کا بیان دیا تھا، وہ کافی اہم تھا، اسی طرح اکھلیش یادو نے ٹوئٹ کرکے کرناٹک کے وزیراعلیٰ اورنائب وزیراعلیٰ کو جس طرح مبارکباد دی ، ان سے بدلتے حالات میں کانگریس کے تئیں ان کے نرم گوشے کا اظہار ہوتا ہے،تاہم کانگریس کو پہل کرنے کی ضرورت ہے ۔کانگریس نے حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیلئے جن لیڈروں کو دعوت نامہ نہیں بھیجا، ان میں سے ایک کجریوال سے نتیش کمار نے ملاقات کی ، جسے کافی اہمیت دی جارہی ہے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اپوزیشن اتحا د کیلئے بہت کسرت ہوئی ، لیکن ابھی تک ملاقات سے آگے بات نہیں بڑھی ۔ نہ تواتحاد کا کوئی خدوخال سامنے آیا اورنہ مشترکہ پروگرام پر کوئی بات چیت ہوسکی ۔ دوسری طرف اوڈیشہ کے وزیراعلیٰ بیجوپٹنائک نے اتحاد سے صاف انکارکردیا ۔تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کے چندرشیکھر رائو اوردہلی کے وزیراعلیٰ کجریوا ل سے کانگریس خود دوری اختیار کررہی ہے ۔آندھراپردیش کے وزیراعلیٰ وائی ایس جگن موہن ریڈی سے کوئی رابطہ نہیں کررہا ہے اوروہاں کی اپوزیشن پارٹی تیلگودیشم کے لیڈر چندرابابونائیڈونے جس طرح 2ہزار کے نوٹ کو بند کرنے کی حمایت کی۔ وہ بھی اپوزیشن اتحاد سے دوری اوربی جے پی سے قربت کا اشارہ ہے۔ غرضیکہ اپنی پسند کے اپوزیشن اتحاد کی باتوں اورمشترکہ پروگرام وایجنڈے پر خاموشی سے وہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتا ، جس کا خواب دیکھا جارہاہے۔
[email protected]
اپوزیشن اتحاد کی کسرت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS