ڈاکٹر ریحان اختر
اللہ رب العزت کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں جن میں سے سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ہماری دنیا وآخرت کی ہر قسم کی اصلاح وفلاح اور نجات کے لیے نبوت ورسالت کا ایک مقدس اور پاکیزہ سلسلہ شروع کیا جس کی آخری کڑی جناب محمدﷺ ہیں۔ اللہ رب العزت نے ہر نبی کو چند ساتھی دیے جنہیں حواری کے لفظ سے جانا جاتا ہے اور ہمارے نبیﷺ کے ساتھیوں کو صحابہ کے نام سے ۔ اسلام میں صحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی عظمتِ شان اور بلندیِ مقام سے کسی کو انکار نہیں ہے یہ وہی مقدس اور مقبول ہستیاں ہیں جن کو اللہ رب العالمین نے اپنے نبی کی صحبت کے لیے چنا، جن کی آنکھوں نے نبی کے رخ انور کا دیدار کیا،جنہوں نے مشکو نبوت سے بہ راہ راست استفادہ کیا، جن کی وساطت اورپیہم قربانیوں سے دین ہم تک پہنچا، قرآن وحدیث کا علم ہمیں حاصل ہوا اور ہم عرفان حق کی منزل تک رسائی میں کام یاب ہوئے۔لہذا جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہم سب کے لیے لازم و ضروری ہے بالکل اسی طرح آپ کے صحابہ و اہل بیت اطہار کی محبت رکھنا بھی واجب اور ضروری ہے۔ اہل بیت اطہار علیہم السلام ہی در اصل اسلام کے نقیب ومنادی، قرآن مجید کے امین وپاسبان اور احادیث مبارکہ کے شارح وترجمان ہیں ،جو اعلی اخلاق وکردار کے حامل اور ہمت وعزیمت،شجاعت وحمیت اور حق گوئی وبے باکی کے علم بردار ہیں، نیز اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے ہمہ وقت سرگرداں ،امت کی اصلاح وتربیت کے لیے مسلسل کوشاں اور دنیا وآخرت میں امت کی کامیابی وکامرانی کے خواہاں ہیں ۔
اہل بیت اطہار علیہم السلام کے فضائل احادیث و آثار اور اقوال صحاب کرام رضی اللہ عنہ میں کثرت سے بیان ہوئے ہیں ۔ احادیث وسیرت کی مشہور کتابوں میں ان کے فضائل ومناقب کے ابواب قائم کیے گئے ہیں اور بہت تفصیل کے ساتھ ان کے فضائل مذکور ہیں لہذا ضروری ہے کہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی سیرت وکردار کو اور ان کے اعمال وافعال کو اختیار کیا جائے، دینی معاملات میں ان کی اتباع وپیروی کی جائے ۔ آج کا جو موضوع ہے وہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کا مثالی عدل و انصاف ہے کہ کیسے اہل بیت علیہم السلام نے اپنے اپنے ادوار میں مثالی عدل و انصاف کے قیام اور اس کی تعلیم دی اور معاشرتی امن و سکون کو باقی رکھا ؟ پہلے عدل و انصاف کے معانی و مفاہیم اور اس کی اہمیت کو جاننا ضروری ہے ذیل میں اس کی کو بیان کیا گیا ہے ۔
عدل کا معنی: عدل مصدرہے، اس کا مادہ ع د ل ہے، جس میں برابری اور مساوات وانصاف کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔لسان العرب میں ہینہ مستقیم وھو ضد الجور، العدل من سما اللہِ ھو الذی لایمیل بہ الھوی، العدل الحکم بالحق”()
”یعنی ، عدل، اس کا معنی سیدھا ہے اوریہ جور کی ضد ہے۔ عدل لفظ اللہ کے ناموں میں سے ہے یعنی وہ خواہشات کی طرف مائل نہیں ہوتا، عدل حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کو کہتے ہیں ۔ امام جرجانی رحم اللہ علیہ کے نزدیک عدل کے معنی، العدل المر المتوسط بین الفراط والتفریط()یعنی عدل اِفراط و تفریط کے درمیان متوسط کام کو کہتے ہیں ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام عدل کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیںعدل کے معنی یہ ہیں کہ تم خدا کی طرف کسی ایسی چیز کو نسبت نہ دو کہ اگر وہی چیز تم سے سرزد ہوتی تو باعث ملامت ہوتی۔ شہید مرتضی مطہری عدل کے معنی یوں بیان فرماتے ہیں”عدل کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اپنا فیض اور رحمت نیز مصیبت اور نعمت ذاتی اور سابقہ استحقاق کے مطابق دیتا ہے اور نظامِ خلقت میں اللہ کے فیض اور رحمت اور مصیبت اور نعمت اور اجر اور سزا کے لحاظ سے خاص نظم برقرار ہے۔
اہل زبان کے یہاں عدل کی مختلف تعریفات اور مطالب بیان کئے گئے ہیں جس کے سبب کہا جا سکتا ہے کہ عدل کا مفہوم مختلف مناسبتوں سے مختلف ہوتا ہے مثلا جیسے عدل کا ایک مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور اپنے رب کے درمیان عدل کرے، یعنی اللہ کے حق کو اپنی خواہش پر مقدم رکھے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اپنی ذات کے ساتھ عدل کرے، یعنی اپنے نفس کو ایسی تمام باتوں اور چیزوں سے بچائے رکھے جن سے جسمانی و روحانی ہلاکت واذیت کا خطرہ ہو اور تیسرا مفہوم یہ ہے کہ اپنی ذات اور مخلوق کے درمیان عدل کرے یعنی تمام مخلوقات سے ہمدردی وخیرخواہی کا برتا کرے۔ لیکن آج کل ہمارے اذہان میں عدل کے جو معنی پیوست ہیں ان سے عدالتی کارروائی کو سمجھا جاتا ہے کہ اس سے مراد روز مرہ کے معاملات میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے جج یا قاضی عدل و انصاف کے ساتھ حقوق عامہ کا یوں تحفظ کرے کہ کسی ایک کی بھی حق تلفی نہ ہو۔
عدل کی اہمیت و افادیت: کسی بھی مذہب اور معاشرے کیلئے قیام عدل انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہے ، اسلام میں بھی عد ل و انصاف کو بڑا اہم مقام حاصل ہے۔ اس کے قوانین چاہے معاشیات سے متعلق ہوں یا حقوق سے اسلام ہر جگہ عدل و انصاف کا درس اور اس کے قیام پر زور دیتا ہے ۔ معاشرے کی امن و سکون و طمانیت اور معروفات کی بقا اور سماج سے منکرات کے سد باب اور خاتمہ کی لئے عدل و انصاف کا قیام نا گزیر ہے ۔ اگر معاشرہ عدل و انصاف سے عاری ہو تو وہ صالح معاشرہ نہیں ہو سکتا ،ہاں ظلم و جبر کی آماجگاہ ضرور بن سکتاہے ۔ عدل و انصاف ہی تمام نیکی و محاسن کی اساس ہے ۔عدل و انصاف ہی سے انسان زندگی کا لطف حاصل کرتا ہے ۔ورنہ اس کے بغیر معاشرہ وہشت و درندگی کا اڈا بن کر رہ جاتا ہے ۔ قیام عدل کی اہمیت کے پیش نظر ہی قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں متعدد مقامات پر عدل کی اہمیت کو بتلایا گیا ہے ۔ قرآن میں ہے ان اللہ یامر بالعدل والاحسان، یعنی ،اللہ تمہیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ نے مطلقا اور عام حکم عدل کے قیام کے لئے دیا ہے جو فرد کو بھی شامل ہے ،اور معاشرے کو بھی ۔یعنی ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے کسی خاص مقام اور کسی خاص جگہ کے لیے اور کسی خاص انسان کے لیے ہی یہ حکم نازل فرمایا ہے،بلکہ مقصود یہ ہے کہ انصاف زندگی کے ہر شعبے میں ہو،بادشاہ اپنی رعایا کے ساتھ انصاف کرے اور رعایا اپنے بادشاہ کے ساتھ، آقا غلام کے ساتھ غلام آقا کے ساتھ ، تمام افراد جو ایک دوسرے کے ماتحت ہیں آپس میں انصاف کے عمل کو لازم پکڑیں رہیں ۔ عدل و انصاف کے معاملے میں دیکھا گیا ہے کہ اعزا و اقارب کی تئیں نرمی کا برتا دیکھا جاتا ہے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ و اذا قلتم فاعدلوا و لو کا ن ذا قربی جب بولو انصاف کے ساتھ بولو اگر چہ عدل و انصاف کے لیے تمہیں اپنے عزیزو اقارب کے خلاف ہی بولنا پڑے ۔
اسلام میں عدل کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ نے بعثت انبیا کا مقصد قیام عدل کو قرار دیا ہے ارشاد باری تعالی ہے ۔(ترجمہ)تحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے۔ اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے۔ تا کہ لوگ عدل قائم کریں۔ اور ہم نے لوہا اتارا کہ جس میں شدید طاقت ہے اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں۔ تا کہ اللہ معلوم کر سکے کہ کون بِن دیکھے اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ اللہ یقینا بڑی طاقت والا؛ غالب آنے والا ہے۔ مفتی سعید احمد پالنپوری رحم اللہ علیہ اس آیت کے ضمن میں رقمطراز ہیں ‘ اللہ تعالی نے انسانیت کے آغاز ہی سے نبوت کا سلسلہ شروع کیا، پھر نوح علیہ السلام سے رسالت کا سلسلہ شروع فرمایا، یہ انبیا و رسل دین کے واضح دلائل کے ساتھ مبعوث کئے جاتے تھے، اور ان کے ساتھ آسمانی کتابیں بھی بھیجی جاتی تھیں، یہ سب ترغیب کے لئے تھا، تا کہ لوگ ایمان لائیں اور شریعت پر عمل کریں اور اللہ نے ترازو بھی اتاری، تاکہ لوگ معاملات میں انصاف کو بروئے کارلائیں اور ظلم وزیادتی سے بچیں، عبادات تو آسان ہیں بگر معاملات میں انصاف کی رعایت مشکل ہے، اس لئے کسوٹی بھیجی اور تر از واتاری یعنی احکامات بھیجے تا کہ لوگ صحیح معاملات کریں۔ اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اگر کبھی منصف کی کرسی پر بیٹھے ہو تو مقابل اگر تمہارے ماں باپ؛ اولاد اور اقربا بھی ہوں تو فیصلہ عدل و انصاف سے کرنا۔
امام علیؓ کانمونہ عدل: خلیفہ چہارم، حیدر کرار، شیر خدا، ابوتراب و ابوالحسن، پروردہ آغوش رسالت مآب حضرت علی المرتضی علوم ظاہری و باطنی کا منبع ہیں۔ آپ سابق الاسلام ہیں اور رشتہ میں حضور نبی کریمﷺ کے چچیرے بھائی اور داماد ہیں ۔ آپ کی جرات و بہادری بے مثل ہے اور آپ نے حضور ﷺ کے شانہ بشانہ غزوات میں شمولیت اختیار کی اور جرات و بہادری کی بے مثل داستانیں رقم کیں۔ سیدنا حضرت علی المرتضی میدانِ جنگ میں تلوار کے دھنی اور مسجد میں زاہدِ شب بیدار تھے، مفتی و قاضی اور علم و عرفان کے سمندر تھے، عزم و حوصلہ میں ضرب المثل، خطابت و ذہانت میں بے مثل، فضائل و فضیلتیں بے شمار، سخی و فیاض، دوسروں کا دکھ بٹانے والے، عابد و پرہیز گار، مجاہد و جانباز ایسے تھے کہ نہ دنیا کو ترک کیا نہ آخرت سے کنارہ کشی فرمائی، ان سب کے باوجود نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے۔آپ میں عجز وانکساری نمایاں تھی، اپنے عہد ِ خلافت میں بازاروں میں تشریف لے جاتے، وہاں جو لوگ راستہ بھول ہوئے ہوتے انہیں راستہ بتاتے، بوجھ اٹھانے والوں کی مدد کرتے، تقوی اور خشیت الہی آپ میں بہت زیادہ تھے۔.
حضرت امیرالمومنین امام ؓمیں بہت سے ایسے مخصوص فضائل وکمالات ہیں جنمیں کوئی بھی آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور انسانی تاریخ میں آپ کی جو قدر ومنزلت ہے اس میں کوئی بھی آپ کی برابری کا تصور بھی نہیں کرسکتا آپ پیغبر اسلام ﷺ کے بھائی ہیں اور آپ ہی کی ذات بابرکت نے سب سے پہلے نبی اکرم ﷺپر ایمان کا اعلان کیا ہے آپ ہی سب سے پہلے حضوراکرم کی تصدیق کرنے والے ہیں آپ تمام لوگوں میں خداوند عالم اور اس کے رسول کو سب سے زیادہ محبوب ہیں آپ اللہ کے رسول کے وصی ان کے وارث اور ان کے وزیر ہیں آپ شہرعلم کادروازہ اورحضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ہر مومن اور مومنہ کے ولی’سرپرست اور حاکم ہیں . حضرت سیدنا علی المرتضی علیہ السلام کا علمی مقام و مرتبہ، ان کی قرآن فہمی، حقیقت شناسی اور فقہی صلاحیت تمام اولین و آخرین میں ممتاز و منفرد تھی۔ قدرت نے انہیں عقل و خرد کی اس قدر ارفع و اعلی صلاحیتوں سے نوازا تھا کہ جو مسائل دوسرے حضرات کے نزدیک پیچیدہ اور لاینحل سمجھے جاتے تھے، انہی مسائل کو وہ آسانی سے حل کردیتے تھے۔ اکابر صحابہ کرام رضوان للہ علیہم اجمعین ایسے اوقات سے پناہ مانگتے تھے کہ جب کوئی مشکل مسئلہ پیش آجائے اور اس کے حل کے لیے حضرت علی علیہ السلام موجود نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مولی علی علیہ السلام کے سوا کسی شخص نے یہ دعوی نہیں کیا کہ ا س سے جو چاہو پوچھو وہ قرآن سے جواب دے گا ایسا دعوی صرف انہوں نے ہی کیا۔ حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔
سیدنا علیؓ نے ارشاد فرمایا: لوگو تم مجھ سے سوال کرو! بخدا تم قیامت تک جس چیز کے متعلق بھی سوال کرو گے میں تمہیں بتائوں گا اور تم مجھ سے قرآن مجید کی بابت سوال کرو، بخدا قرآن مجید کی کوئی ایسی آیت نہیں مگر میں جانتا ہوں کہ وہ رات میں اتری یا دن میں، میدانوں میں نازل ہوئی یا پہاڑوں میں؟۔ آپ کی علمی کمالات پر سب کا اتفاق تھا فقہی کمال کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ کی ذات قضا اور فصل مقدمات میں نمایاں تھی ، تاریخ اسلام میں ہے ‘ فقہی کمال کا ایک اور پہلو قضا یعنی فصل مقدمات ہے۔ اس میں جماعت صحابہ میں آپ کا کوئی مقابل نہ تھا۔ آنحضرت نے آپ کو اقضاہم علی (صحابہ میں سب سے بڑے قاضی علی ہیں) کی سند عطا فرمائی تھی اور قضا کی خدمت آپ کے سپرد فرماتے تھے چنانچہ اہل یمن کے قبول اسلام کے بعد آپ کو وہاں کا قاضی بنا کر بھیجا۔
امام علیؓ کی نظر میں عدل: حضرت امام علی علیہ السلام خود امام عادل ہیں اور عدالت کے معاملے میں اس قدر حساس ہیں کہ کبھی کسی موقع پر بھی عدالت سے پس و پیش برداشت نہیں کرتے۔آپ عدل و عدالت کا مجسم نمونہ تھے. اس لیے عدالت کے بارے میں آپ کا کلام اور آپ کے اقدامات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ علامہ سید رضی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی معرک الآرا تصنیف نہج البلاغہ میں امام علی کے عدل کے تعلق سے خیالات و نظریات کو اختصاص کے ساتھ بیان کیا ہے۔ معاشرے میں جب عدل و انصاف کا فقدان ہوتا ہے تو منکرات اور برائی کا دور دورہ ہوتا ہے انہیں کا قلعہ قمعہ کرنے کی خاطر عدل و انصاف کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے ۔
،عدل کو فریضہ الہی اور ظلم و ستم کے خاتمے کے تعلق سے بتاتے ہوئے ایک موقع پر امام علی فرماتے ہیں ‘ آگاہ ہو جا ، قسم ہے اس خدا کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور ذی روح کو پیدا کیا ، اگر حاضرین کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کی وجہ سے مجھ پر حجت قائم نہ ہو گئی ہوتی اور اللہ نے علما سے یہ عہد و پیمان نہ لیا ہوتا کہ وہ ظالم کے ظلم اور مظلوم کی مظلومیت پر خاموش نہ رہیں تو میں خلافت کی رسی کو اس کی گردن میں ڈال کر آج بھی ہنکا دیتا۔
( ) عام لوگ مسند حکومت پر قابض ہوکر عیش ،راحت و آرام کی طلب میں رہتے ہیں لیکن مولی علی اس کا مقصد عدل و انصاف کا قیام ، جور و ستم کا سد باب اور دنیا و آخرت کا سکون قرار دیتے ہیں فرماتے ہیں ‘ ایک مرتبہ ابن عباس ،حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت آپ علیہ السلام اپنا پھٹا پرانا جوتا سی رہے تھے ، آپ علیہ السلام نے ابن عباس سے پوچھا:اس جوتے کی کیا قیمت ہوگی؟انھوں نے کہا :کچھ نہیں! تو آپ علیہ السلام نے فرمایامیری نظر میں اس حکومت و ریاست کی قدر و قیمت اس جوتے سے بھی کمتر ہے مگر یہ کہ حکومت کے ذریعے میں عدالت کو نافذ کرسکوں ،حق کو قائم کر سکوں اور باطل کومٹا سکوں۔
امام علی اور عدالت کی تقسیم:امام علی نے عدالت کو تین حصوں پر منقسم کیا ہے – عدالتِ اجتماعی۔- سیاست میں عدالت۔ قضایا میں عدالت۔
عدالت اجتماعی: نہج البلاغہ میں امام علی علیہ السلام کے مختلف اقوال ملتے ہیں جن میں عدالت ِ اجتماعی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اس کے نفاذ پر زور دیا گیا ہے۔آپ نے خصوصی طور پر اپنی ظاہری خلافت کی زندگی میں عملی طور پر عدالت اجتماعی کے نفاذ کے لیے مختلف اقدامات کیے۔امام علی بہر صورت اپنی ذات با برکت کو عدل سے متصف رکھتے تھے چناچہ ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں ‘ خدا کی قسم! اگر مجھے سعدان کے کانٹوں پر جاگتے ہوئے رات گزارنی پڑے ،اور مجھے زنجیر وں میں جکڑ کر کھینچا جائے تو یہ میرے لیے اس سے بہتر ہے کہ میں خدا اور اس کے پیغمبرﷺسیاس حالت میں ملاقات کروں کہ میں نے خدا کے بندوں پر ظلم کیا ہو یا مالِ دنیا میں سے کوئی چیز غصب کی ہو اور میں اس نفس کی آسودگی کے لیے بھلا کسی پرکیونکر ظلم کر سکتا ہوں جو کہ فنا کی طرف پلٹنے والا ہے اور مدتوں مٹی کی تہوں میں پڑا رہے گا۔ امام علی کی عدل میں انسان کے ساتھ تمام مخلوقات شامل تھی اور آپ اس کی تاکید بھی کرتے تھے فرماتے ہیں ‘ اے لوگو! خدا کے بندوں اور اس کی بستیوں کے معاملے میں تقوی اختیار کرو کیونکہ تم سے حتی کہ زمین کے قطعات اور جانورو ں کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا ۔
سیاسی عدالت: سیاسی عدالت سے مراد عام طور پر یہ لیا جاتا ہے کہ ایک حاکم اور بادشاہ کے اپنی رعایا پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان کو عدل کے دائرے میں رہ کر ادا کیا جائے اور سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا جائے چناچہ امام علی کی زندگی اس کی بھر پور عکاسی و ترجمانی کرتی ہے اسی لیے آپ اس تعلق سے تاکید فرماتے تھے ، فرماتے ہیں اور سب سے بڑا حق کہ جسے اللہ سبحانہ نے واجب کیا ہے حکمران کا رعیت پراور رعیت کا حکمران پر ہے کہ جسے اللہ نے والی و رعیت میں سے ہر ایک کے لئیفریضہ بنا کر عائد کیا ہے او راسے ان میں رابطہ محبت قائم کرنے اور ان کے دین کو سرفرازی بخشنے کا ذریعہ قراردیا ہے ۔چنانچہ جب رعیت حاکم پر مسلط ہوجائے یا حاکم رعیت پر ظلم ڈھانے لگے تو اس موقعہ پر ہر بات میں اختلاف ہوگا ۔ظلم کے نشانات ابھر آئیں گے ۔دین میں مفسد ے بڑھ جائیں گے ،شریعت کی راہیں متروک ہو جائیں گی ،خواہشوں پر عمل درآمد ہو گا ،شریعت کے احکام ٹھکرا دیئے جائیں گے ،نفسانی بیماریاں بڑھ جا ئیں گی او ر بڑے سے بڑے حق کو ٹھکرا دینے اور بڑے سے بڑے باطل پر عمل پیرا ہو نے سے بھی کو ئی نہ گھبرائے گا ایسے موقعہ پر نیکو کا ر ذلیل، اور بد کردارباعزت ہوجاتے ہیں اور بندوں پر اللہ کی عقوبتیں بڑھ جاتی ہیں ۔
قضایا میں عدالت: آپ نے عدالتی معاملات کے ہر پہلو میں عدل وانصاف کو برقرار رکھا ، اس تعلق سے امام علی علیہ السلا م کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں تاریخ اسلام میں ایسے مختلف واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں امام علی علیہ السلام نے عدل و انصاف کا بول بالاکرتے ہوئے مبنی برحق فیصلے انجام دیے اور ایسے فیصلے انجام دیئے جو تاریخ میں آپ کی عدالت و قضاوت کی سنہری مثال ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق کے دور میں جب ایک عورت زنا سے حاملہ ہوگئی تھی تو اسے رجم کا فرمان سنا دیا گیا تو امام علی نے اس عورت کو چھوڑنے کا حکم دیا کہ جرم اس عورت کا ہے نہ کہ بچے کا تو اسیجانے کا حکم دیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ عمر بار بار کہا کرتے تھے لولا علی لھک عمر یعنی اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ۔ امام علی نے ابو بکر ، عمر و عثمان کے دور خلافت میں انتہائی اہم قضایا کے فیصلے صادر فرمائے اور تمام صحابہ کی درمیان آپ سے بڑا قاضی اس وقت کوئی نہیں تھا ۔
آپ کے ایوان عدالت میں بلا امتیاز مذہب و ملت خویش و بیگانہ امیر وغریب سب برابر تھے ۔ اگر خود آپ کسی مقدمہ میں فریق ہوتے تھے تو قاضی کے سامنے حاضر ہونا پڑتا تھا اور اگر ثبوت نہ ہوتا تو مقدمہ آپ کے خلاف فیصل ہوتا۔ ایک مرتبہ آپ کی زرہ گر پڑی اور ایک نصرانی کے ہاتھ لگی۔ حضرت علی نے اسے دیکھ کر پہچانا اور قاضی شریح کی عدالت میں دعوی کیا ۔ نصرانی کا دعوی تھا کہ وہ اس کی زرہ ہے۔ قاضی نے حضرت علی سے پوچھا کہ آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ قاضی شریح نے نصرانی کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس فیصلہ کا نصرانی پر اتنا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا اور کہا یہ تو انبیا کے جیسا انصاف ہے کہ امیر الممنین مجھے اپنی عدالت کے قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں اور قاضی امیر الممنین کے خلاف فیصلہ دیتا ہے۔
آپ کی عدالت کو غیر مسلموں نے بھی سراہا ہے چنانچہ ایک عیسائی محقق جارج جرداق نے آپ کی سوانح عمری ندائے عدالت انسانی نام سے پانچ جلدوں میں لکھی ہے وہ لکھتا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت میں کچھ مسائل تھے جن کو آرچ بشپ کی مدد سے حل کیا گیا تو انہوں نے امام علی کے متعلق فرمایا کہ ‘ ہم پر علی کا بہت بڑا احسان ہے کہ وہ جب اپنے مسلسل انکار اور عوام کے مسلسل مجبور کرنے پر خلیفہ بنے تو یہودیوں ۔ عیسائیوں زرتشتیوں کا وفد ان کی خدمت عالی میں اسی لئے حاضر ہوا تاکہ معلوم کرے کہ ایک مثالی اسلامی حکومت میں ان کی اور کیا حیثیت ہوگی ؟ حضرت علی نے انھیں یقین دلاتے ہوئے فرمایا۔ میں ضامن ہوں کہ تمھیں اپنی زندگی تورات، انجیل اوستا کی شریعتوں کے مطابق بسر کرنے کی اجازت ہوگی۔ اور علی نے جو فرمایا تھا اپنے دورہ خلافت میں اسے ایفا کیا تب ہی تو جب علی شہید ہوئے تو ان کی شہادت پر مسلمانوں سے زیادہ یہودیوں عیسائیوں اور زرتشتیوں نے گریہ وزاری کی ۔ جرداق علی کی سوانح حیات کو محفوظ رکھنا۔ علی کے اس احسان کا جو انھوں نے عیسائیوں پر کیا ایک ادنی سا بدلہ ہے۔ ان کے دور خلافت میں ہمیں انصاف ہماری کتابوں سے ملا اور ہم کو ہر طرح کی مذہبی آزادی تھی۔ آپ اپنی ذاتی زندگی , بحیثیت حاکم ، عہدوں کی تقسیم ،مالی وسائل کی تقسیم ،ہر مقام پر عدالت کو مقدم رکھتے تھے جس کی امثال و واقعات سے تاریخ کی کتب بھری پڑی ہیں ۔
حضرت فاطمہ زہرا
بیوی اور ماں کی حیثیت سے حضرت فاطمہ نے جو زندگی بسر کی وہ دنیا کی تما م عورتوں کے لئے نمونہ ہے۔ حضرت فاطمہ رسول اکرم ﷺ سے بہت مشابہت رکھتی تھیں،چال ڈھال اور نشست وبرخاست میں ہوبہو اپنے والد محمد مصطفیﷺکی تصویر تھیں۔ان کی زندگی میں خواتین اسلام کے لیے بڑا درس موجود ہے آج جبکہ امت کی بیٹیاں تہذیب کفر کی نقل میں اپنی ناموس وعزت سے بے خبر ہورہی ہیں انہیں سیرت فاطمہ کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ ایک آئیڈیل خاتون اسلام کی زندگی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال سکیں۔ایک مسلمان خاتون کے لیے سیرت فاطم الزہرا میں اس کی زندگی کے تمام مراحل بچپن، جوانی، شادی، شوہر، خادنہ داری، عبادت، پرورش اولاد، خدمت اور اعزا اقربا سے محبت غرض ہر مرحلہ حیات کے لیے قابل تقلید نمونہ موجود ہے۔ حضرت فاطم الزہرا سلام اللہ علیھا کی شخصیت پر بطور نمونہ عمل نگاہ ڈالنے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ خود رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے :سب سے پہلے جنت میں حضرت فاطمہ داخل ہونگی۔ ظاہر ہے کہ ہر وہ شخص جس کے دل میں جنت میں داخلے کی تمنا، آرزواور خواہش ہے وہ اس عظیم بی بی کے نقش قدم پر چلنے کی ہر ممکن سعی و کوشش کرے گا۔ حضرت فاطمہ جن حالات میں پیدا ہوئیں وہ حالات اسلام اور رسولِ اسلام کے لیے بہت سخت تھیجس کی وجہ سے بچپن میں ہی حضرت فاطمہ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان مشکلات میں آپ نے نہ صرف اپنے دکھوں پر صبر کیا بلکہ اپنے باپ کے دکھوں کا مداوا بن گئیں اور آپ نے اپنے افعال و اعمال سے صداقت و امانت ، صبر و شکر ، سخاوت ،ایثار و قربانی ، زہد عبادت کی وہ روشن مثال قائم کی کہ جو رہتی دنیا تک کی خواتین کے لیے نجات کا سامان ہیں ۔
امام حسن و حسین علیھما السلام
امام حسن و حسین علیہما السلام امام علی کے صاحبزادگان اور نواسہ رسول ہیں اپ کی شخصیت جامع کمالات تھی ، آپ کی تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ اور امام العادل کے زیر سایہ ہوئی تھی جسطرح امام علی عدالت و انصاف کی پیکر تھے اولاد بھی اپ کی نقش قدم پر چلی اگر آپ کی سیرت ، کمالات و فضل کا تذکرہ کیا جائے تو اس کے لیے لا محدود وقت در کار ہوگا لیکن مختصرا یہ ہے کہ امام حسن عدل و انصاف کے تئیں امام علی کے نقش قدم پر چلے چناچہ اس ڈر سے کہیںامت فتنہ و فساد کی زد میں نہ آجائے اور زمین پر عدل و انصاف کا نام تک باقی نہ رہے اسی ڈر سے حکومت سے خود کو دور کر کے امت کے لئے ایک درس دے گئے کہ عدل و انصاف اور امن کی بقا کی خاطر حکومت کو خیر آباد کہنا زیادہ مناسب ہے ۔ عدل و انصاف اور موجودہ حکومت کی بد عنوانی کے پیش نظر ہی آپ کے دوسرے بھائی امام حسین نے بھی جام شہادت نوش فرمایا لیکن عدل سے منھ نہ پھیرا آخر وقت تک اسی تگ و دوہ میں رہے امام حسین کی ایک صفت ظلم و ستم سے منع کر نا تھی اسی وجہ سے آپ کو (ابو الضیم ) کا لقب دیا گیا، آپ کا یہ لقب لوگوں میں سب سے زیادہ مشہورومعروف ہوا،آپ اس صفت کی سب سے اعلی مثال تھے یعنی آپ ہی نے انسانی کرامت کا نعرہ لگایا،اور انسانیت کو عزت و شرف کا طریقہ دیا۔
امام باقر
امام محمد باقر علیہ السلام اہلبیت کے پاکیزہ اور نورانی سلسلے کی ایک فرد ہیں۔ آپ کی ذات عالم اسلام کی وہ عظیم علمی ذات ہے جس نے قرآن کے حقائق پہلی بار اس واضح انداز میں بیان کئے اور علوم کی پرتوں کو کھولا اس لئے آپ کا لقب ”باقر العلوم ”قرار پایا۔ اپنے اپنی زندگی کا مقصد حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنیمیں صرف کی اور عدل کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھا چنانچہ الکافی میں امام باقر عدل سے متعلق فرماتے ہیں ‘ قال مِیر الممِنِین فِی لام لہ لا ِنہ من ینصِفِ الناس مِن نفسِہِ لم یزِدہ اللہ ِلا عِزا
“امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ امیر الومنین علیہ السلام نے فرمایا جو اپنے نفس سے دوسروں کے درمیان انصاف کرتا ہے خدا س کی عزت کو زیادہ کرتا ہے۔
امام جعفر
امام جعفر صادق اھل بیت سے ایک بڑے فقیہ کی حیثیت سے مشہور ہیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد میں تھے ، آپ کا نام جعفر، کنیت ابو عبد اللہ اور لقب صادق تھا، آپ امام محمد باقر کے صاحب زادے تھے، جو کہ حضرت حسین ابن کے پوتے ہیں، تو گویا امام جعفر صادق حضرت حسین ابن علی کے پڑپوتے ہوئے ، آپنے بھی اپنے اقوال و ارشادات میں عدل سے متعلق انتہائی اہم اشارات بیان فرمائے ہیں ،آپ فرماتے ہیں۔ لا خبِرم بِشدِ ما فرض اللہ عل خلقِہِ فذر ثلاث شیا ولہا ِنصاف الناسِ مِن نفسِ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نیفرمایا: “کیا میں تمھیں بتاں کہ خدا کاسب سے بڑا فرض اس کی مخلوق پر کیا ہے پھر تین چیزوں کا ذکر کیا جن میں سب سے پہلی بات یہ تھی کہ وہ اپنے نفس کے مقابل لوگوں کے درمیان انصاف کرے۔ دوسرے مقام پر ارشاد ہے قال: اتقوا اللہ و اعدِلوا فِنم تعِیبون عل قوم لا یعدِلون۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے اللہ سے ڈرو اور اپنے گھر والوں کے درمیان عدل کرو ،کیونکہ تم ان لوگوں کی حکومت کو نا پسند کرتے ہو جو عدل نہیں کرتے۔ قال: العدل حل مِن الشہدِ و لین مِن الزبدِ و طیب رِیحا مِن المِسِ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ:عدل شہد سیزیادہ شیرین ہے مکھن سے زیادہ نرم اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہے۔ ( الکافی کتاب الایمان و الکفر)
امام موسی کاظم
حضرت امام موسی کا ظم کے دورِ امامت کا شمار ائمہ معصومین کی زندگی کے ایک اہم ترین دورمیں ہوتاہے اس دور میں عباسی حکمرانوں منصور و ہارون اور مہدی و ہادی نے حکومت کی اور بزور شمشیر حکومت کے غلط رویوں پر آواز بلند کرنے والوں کو خاموش کرایا گیا اس دور میں امام موسی کاظم نے عدل و انصاف کی فضا کو قائم رکھنے کی غرض سے مسلسل جہاد کیا اور اسی پاداش میں نظر بند بھی کئے گئے لیکن حق اور انصاف کی آواز کو ہمیشہ بلند رکھا ۔
الغرض : اہل بیت اطہار کی زندگی کا مطالعہ اور عدل و انصاف کی خاطر ان کی جانب سے کی گئی سعی و کوشش امت کو یہ پیغام دیتی ہے کہ معاشرہ ، قوم اور ملک کی ترقی کا راز عدل و انصاف کی بقا اور بحالی میں مضمر ہے اس کے بغیر ملک و معاشرے تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں اور ملک میں افراد تفری کا بازار گرم ہوتا ہے ۔ آج کے ظلم و ستم کے دور میں ہم سب کو اہل بیت اطہار علیہم السلام کی سیرت اور ان کے کلام میں عدالت کے بارے میں بیان کیے گئے کلمات پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے کہ کیسے انہوں نے مسلم و غیر مسلم حتی کہ جانوروں کے حقوق کے تعلق سے عدالت کی روشن مثال قائم کی ہیں تاکہ ہم عدل و عدالت کا صحیح مفہوم سمجھ کر اس کے نفاذ کی کوششیں کر سکیں اور معاشرتی امن و سکون اور ترقی کی طرف گامزن ہو سکے ۔
مراجع
ابن منظور، ابوالفضل جمال الدین محمد بن مکرم،لسان العرب ،دارِ صادر،بیروت، 1418ھ ص 430
صدیقی، محمد عبدالحفیظ، برصغیر پاک وہند میں اسلامی نظامِ عدل ،ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد، سن ندارد ، ص 9
النوری، شیخ اسماعیل بن احمد الطبرسی، کفای الموحدین فی عقائد الدین، ایران: کارخانہ کربلائی تہران، ج1 ، ص 442
مطہری، شہید مرتضی، مجموعہ آثار شہید مطہری، ایران: قم، انتشارات صدرا، 1422ھ، چاپ ششم، ج3 ص99
(5) Charles Smith, Twentieth Century Encyclopaedia,4/173
مفتی سعید احمد پالنپوری ، تفسیر ہدایت القرآن ۔ جلد 8 مکتبہ حجاز دیوبند ۔ ص 190
صحیح البخاری،کتاب الاذان،باب من جلس فی المسجدینتظرالصلووفضل المساجد
،ابن عساکر ، تاریخ دمشق، دار الفکر ، بیروت ، ج: 42، ص 398,397
معین الدین ندوی ، تاریخ اسلام ، مکتبہ اسلامیہ ، پاکستان ،سن ندسرد ، ج 1ص 305
مفتی ، جعفر حسین، نہج البلاغہ ، (اردو ترجمہ ) معراج کمپنی لاہور،2003، خطبہ 3
نہج البلاغہ خطبہ 33
نہج البلاغہ خطبہ 221
نہج البلاغہ خطبہ 135
نہج البلاغہ, خطبہ 214
علامہ مسعود قادری ، حضرت علی کے فیصلے ، اکبر بک سیلر ، لاہور سن ندارد ،ص 192
تاریخ اسلام ،ص 305,304
محمد وصی خان ، حضرت علی کے فیصلے اور موجودہ تعزیرات اسلام ، ص 35,34
ابو جعفر محمد بن یعقوب ، الکافی، کتاب الایمان والکفر