پروفیسر اخترالواسع
سیدنا ا مام حسین رضی اللہ عنہ تاریخ انسانی کی وہ عظیم ہستی ہیں جن کی عظمتیں خود عظمتوں کے لیے نشان منزل ہیں۔وہ ہر اعتبار سے عظیم ہیں کوئی بھی انسانی پیمانہ ان کی عظمتوں کے لیے تنگ دامانی کا شکوہ کناں ہوگا۔ اگر ان کے خاندان اور نام و نسب کو دیکھا جائے تو ان سے بہتر نام ونسب کسی کا نہیں ہوسکتا۔ وہ سرورِ دو عالم، خاتم الانبیا جناب رسول اکرمؐ کے نواسے، خاتون جنت جناب سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے جگر گوشے،شیر خدا،حیدر کرارسیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے نورِ نظر، پانچویں خلیفہ راشد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے برادر اصغر تھے۔ وہ ایسی ہستی تھے کہ عالی نسبی کو ان پر ناز تھا، وہ ایسے جواں مرد تھے کہ ان کی بہادری اور جواں مردی کے قصے ہر زمانے میں گائے جاتے ہیں اور اسی طرح گائے جاتے رہیں گے۔
حضرت امام حسینؓ کی زندگی بلاشبہ ایک مینارۂ نور تھی۔ ایک عظمت کی نشان تھی۔ یوں تو ان کی پوری زندگی ہی بے مثال ہے۔ ان کا بچپن آغوش رسالتؐ میں گزرا۔ ان کی جوانی جاں نثاران رسولِ اکرمؐ کی نگرانی میں بسر ہوئی اور حضرت علیؓ کے بیٹے تھے اس لیے پوری اسلامی دنیا کے شہزادے بھی تھے۔ وہ ایک طرف دین میں امام تھے، دوسری طرف دنیا میں بھی ان کی عظمتیں بلندیوں کو چھو رہی تھیں۔ ظاہری اسباب میں وہ دین و دنیا دونوں اعتبار سے مثالی اور آئیڈیل تھے۔
جنابِ حضرت امام حسینؓ صرف رسول اللہؐ کے نواسے اور چوتھے خلیفہ کے بیٹے ہونے کی وجہ ہی سے عظیم نہیں تھے بلکہ ان کی عظمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کو اپنی دینی ذمہ داریوں کا پورا احساس تھا۔ دراصل یہی احساس تھا جو کربلا کے جانکاہ حادثے کا سبب بنا۔ امام حسینؓ نے جب دیکھا کہ حکومتی ظلم و تشدد عام ہو رہا ہے، لوگوں کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔ اسلام نے جس انسانیت کا درس دیا تھا اس کو بھلایا جا رہا ہے۔ لوگ، خاص طور پر حکمراں طبقہ ظلم و بربریت کی اسی راہ پر گامزن ہے جس کو مٹانے کے لیے اسلام آیا تھا۔ عوامی حقوق اور جمہوری اقدار کی پامالی دیکھ کر ہی امام حسینؓ نے وہ سفر اختیار کیا تھا جس کا انجام کربلا میں ہوا لیکن تاریخ انسانی کے اندر عظمت و ایثار کی ایک مثال بن کر درخشاں باب بن گیا۔
حکومت وقت نے امام حسینؓ کے سفر کو اپنے لیے خطرہ بتایا۔ اپنی فوجی طاقت کے بَل بوتے پر اس کو کچلنے کی کوشش کی اور بزعم خویش کچل بھی دیا لیکن ؎
قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
تاریخ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مٹانے والے خود ہی ہمیشہ کے لیے مٹ گئے اور امام حسینؓ کا نام آج تاریخ کے صفحات میں سنہری حروف سے نقش ہے۔امام حسینؓ کا سفر کوفہ کوئی جنگی سفر نہیں تھا۔ امام حسینؓ کوئی جنگ کرنے کے لیے نہیں نکلے تھے اس لیے کہ انسان جب جنگ کرنے جاتا ہے تو اپنے اہل و عیال کو محفوظ مقام پر چھوڑ کر میدانِ جنگ میں جاتا ہے، اپنے چھوٹے بچوں کو اور بیماروں کو ساتھ لے کر میدانِ جنگ میں نہیں جاتا۔ اگر امام حسینؓ کا یہ سفر جنگ کے لیے ہوتا تو ساتھ میں اہلیہ نہ ہوتیں۔ بہن نہ ہوتیں، شیرخوار بچے نہ ہوتے اور بیمار زین العابدین بھی ساتھ نہ ہوتے۔
حقیقت یہ ہے کہ امام حسینؓ کا یہ سفر ایک پیغام امن کے لیے تھا۔ یہ سفر ایک دعوت کے لیے تھا کہ اسلام کی بنیادیں جن اصولوں پر استوار ہیں ان کو دوبارہ استوار کیا جائے۔ اگر انہوں نے جنگ یامقابلہ کے لیے سفر اختیار کیا ہوتا تو ساتھ اہل اور عیال نہ ہوتے بلکہ ان کے ساتھ فوج ہوتی اور اتنا تو یقینی ہے کہ امام حسینؓ کی ایک آواز پر ایک بڑے لشکر کا جمع ہوجانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ لیکن حضرت امامؓ کا مقصد خوں ریزی اور جنگ و جدال تھا ہی نہیں۔ وہ تو امن کاپیغام لے کر نکلے تھے اور اپنے سفرکا رخ کوفہ کی طرف اس لیے کیا تھا کہ کوفہ ان کے والد سیدنا حضرت علیؓ کا دارالحکومت رہ چکا تھا۔ وہاں لوگ حضرت حسینؓ کو بھی زیادہ اچھی طرح جانتے تھے اور امید تھی کہ حضرتؓ کے پیغام کو بھی زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے تھے۔
میدانِ کربلا میں امام حسینؓ کی گھیرابندی ہوگئی تب بھی انہوں نے جنگ و جدال کو پسند نہیں فرمایا جبکہ انہوں نے امن کے کئی فارمولے پیش کیے۔ جیسے حضرت امامؓ کا ایک فرمان تھا کہ مجھے واپس مکہ جانے دو، لیکن اس پر وہ لوگ تیار نہیں ہوئے، اس کے بعد انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ان کے لیے دمشق کا راستہ کھول دیں وہ خود یزید کے ساتھ بات کرکے اپنا مسئلہ حل کر لیں گے لیکن دشمن اس پر بھی تیار نہیں ہوئے، اس کے بعد حضرت امامؓ نے امن کا آخری فارمولہ پیش کیا کہ مجھے سرحد کی طرف نکل جانے دیں، بعض روایات میں آیا ہے کہ سرحد سے مراد ہندوستان کی سرحد تھی اور حضرت امامؓ ہندوستان میں آکر رہنا چاہتے تھے۔ یہ بات قیاس کے اعتبار سے معقول بھی ہے، اس لیے کہ صرف مشرقی سرحد یعنی ہندوستان ہی اس زمانے میں بنو امیہ کے زیرِاثر نہیں تھا باقی ہر جگہ انہی کا اثراور انہی کا غلبہ تھا۔
حضرت امام حسینؓ کے ہندوستان آنے کی خواہش کے سلسلے میں دورائے ہو سکتی ہیں لیکن اس بات میں بالکل بھی دو رائے نہیں ہیں کہ حضرت امامؓ نے اس پورے معاملے کوآخر وقت تک پرامن طور پر حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کی ہر ممکن کوشش یہی تھی کہ جنگ نہ ہو۔ وہ امن کے لیے نکلے تھے اس لیے چاہتے تھے کہ امن کی پاسداری کی جائے لیکن جب تمام راستے بند ہوگئے اور دشمنوں نے حضرت امامؓ کو مجبور کردیا کہ اب کوئی پرامن حل ہو ہی نہیں سکتا اور انہوں نے اہانت آمیز انداز پر حضرت امامؓ کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی تو پھر شجاعت حیدریؓ غیرت میں آئی اور حضرت امامؓ نے ہاتھ دینے کے مقابلے میں سر دینے کو ترجیح دی۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے کیا خوب کہا ہے:
سردادنداد دست دردست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ
(سر دے دیا لیکن یزید کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیا۔ حق یہ ہے کہ (زمینی خدا کا انکار کرکے) حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے لاالہ کی بنیادوں کو واضح کیا ہے۔)
امام حسینؓ کی شہادت دنیائے انسانیت کے لیے عظیم سانحہ ہے۔ جب یہ حادثہ پیش آیا اس وقت پوری ملت اسلامیہ اس عظیم حادثہ پر چیخ اٹھی، پورے اسلامی خطے میں بنوامیہ کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔ لوگوں نے حضرت امامؓ کے نام پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور رفتہ رفتہ عاشقان حضرت حسینؓ کی تعداداتنی بڑھ گئی کہ اس کے سامنے بنو امیہ کی عظیم الشان سلطنت خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی۔
آج اس عظیم قربانی کو کم و بیش چودہ صدیاں بیت چکی ہیں، لیکن یہ ایسی قربانی تھی کہ وقت کی دھول نے کربلا کے میدان کوکبھی دھندلا نہیں کیا بلکہ آج بھی اس سرزمین پر 72؍نفوس قدسیہ کے نشان قربانی زندہ ہیں اور جب تک دنیا میں ظلم و ستم ہے، اس وقت تک ظلم کے خلاف امن کی طاقت کے طور پر امام حسین ؓ اور ان کے 72 ساتھی یاد کیے جاتے رہیں گے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)
[email protected]