عطیہ ربِّی بنتِ فرحان حسین
اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو زمین میں خلیفہ بنا کر بھیجا ہے۔ عقلِ سلیم دے کر اشرف المخلوقات کا درجہ بخشا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان ترقی کے مراحل طئے کرتا گیا ہر دور میں نئی ایجادات اور انقلابات اس کے قدم چومتے چلے گئے۔انسان نے چاند تک رسائی حاصل کر لی بس اتنا ہی نہیں بلکہ انسان نے جدید تکنیک کو بروئے کار لاکر کائنات کے رازوں کو منکشف کیا ۔ بے شک انسانوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے اور جن کاموں کو آج سے سو برس پہلے جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا تھا انہیں سہل و آسان بنا دیا۔ مادہ پرستی اور ہر چیز کو اپنے اختیار اور قابو میں کرنے کی خواہش نے اس کے آنکھوں پر ہوس کا پردہ ڈال دیا۔دنیا کمانے کی دھن نے اسے اپنی آخرت سے بے فکر کردیا۔ زندگی اور موت کا کھیل سمجھنے سے آج بھی قاصر ہے۔
زندگی ! یہ زندگی کیا ہے ؟؟
زندگی کہتے ہیں پیدائش سے موت تک کے سفر کو ، لیکن اس ’پ‘ سے ’م‘ تک کے درمیان جو چیز ہے وہ ہے ہمارے رب کے منصوبے،اس کے احکامات اور اس پر ہماری اپنی ترجیحات۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ سامانِ ضرورت کے ساتھ زندگی گزار کر جنت کے حقدار بنیں یا بصورتِ دیگر نفسِ امارہ کی خواہشات اور اس دنیا کی رنگینیوں و دل فریبیوں میں کھو کر جہنم کے حقدار بنیں۔۔
فرعون کو اس کا دعوائےخدائی سمندر میں غرق ہونے سے نہیں بچا سکا ، جس قارون کے خزانے کی صرف کنجیاں 10 پہلوانوں کی ٹولی اٹھاتی تھی وہ اپنے آپ کو ملک الموت سے نہیں بچا پایا ، مغرور شداد نے زمین پر اپنی جنت تو بنالی مگر موت کے شکنجے میں پھنس گیا ، نمرود کی موت کا سبب اللہ نے معمولی سے مچھر کو بنایا ، جن وارثین کو ابولہب اپنا سو برس کا سامان سمجھ رہا تھا اسی سامان نے اس کی بدبودار لاش سے منہ موڑ لیا ، ہمارے پیارے نبیﷺ کی امت کا فرعون ابوجہل دو بچوں کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہوا ، سکندر نیپولین کی موت کا نقشہ شاعر رضا علی نے کچھ یوں کھینچا ہے ،
مہیا گرچہ سب اسباب ملکی اور مالی تھے
سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے
یہ منکرینِ حق جنہیں پل بھر کی خبر نہ تھی مگر سامان سو برس کا رکھا کرتے تھے ۔ ان کی اموات آنے والے نسلوں کے لئے نمونۂ عبرت بنیں۔’کاش کہ موت میرا کام ہی تمام کر دیتی ٭ میرے مال نے مجھے کچھ نفع نہ دیا‘
اس ناپائیدار زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے۔ خلیل جبران کا کہنا ہے کہ ، ” میں نے بار بار اس بات پر غور کیا کہ موت کیا ہے ؟ اس کا زندگی سے کیا رشتہ ہے ؟ ایک دفعہ میں نے ایک سمندری جہاز دیکھا جب وہ ساحل سے دور ہوتا ہوا نظروں سے اوجھل ہوگیا تب وہاں پر موجود لوگ کہنے لگے ، چلا گیا ۔ میں نے سوچا اسی طرح دور ایک بندرگاہ ہوگی اور وہاں پر لوگ کہنے لگیں گے ’ آگیا ‘ اور شاید اسی کا نام موت ہے۔ ایک پرانی زندگی کا خاتمہ اور ایک نئی زندگی کا آغاز۔۔” بقولِ شاعر ،
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
دنیا کی زندگی تو چند روزہ و فانی زندگی ہے۔ اس کے بر خلاف آخرت ابدی زندگی ہے۔ آج ہم ہائی اسٹیٹس ، بینک بیلنس ، سوشل و کلچرل لائف کو اپنی پہچان بناتے ہوئے حرام و حلال کی تمیز کو بھلا بیٹھے۔ سینت سینت کر مال جمع کرنے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مگن ہیں۔
تو پھر ۔۔۔کیا ہم نے اپنے رب سے ملاقات کی تیاری کر لی ؟ کیا ہمیں اپنے نامۂ اعمال کے داہنے ہاتھ میں ملنے کا یقین ہے ؟ کیا ہم جنت الفردوس کی خواہش اپنے دل میں رکھتے ہیں ؟نہیں ! ہرگز نہیں۔۔۔ ہم اس دوراہے پر کھڑے ہیں کہ کب موت کا بے رحم پنجہ سختی کے ساتھ آ دبوچے۔ جو ایک اٹل حقیقت ہے جس کی لپیٹ میں کسی بھی عمر کو رعایت نہیں بخشی جاتی۔ یہ چلتی سانسیں اس زندگی کی ضامن ہیں۔ ہم اس آیتِ کریمہ کو بھلا بیٹھے کہ ، پھر اس روز تمہیں ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔بقولِ عامر عثمانی ،
اپنی قبر میں تنہا آج تک گیا ہے کون
دفترِ عمل عامرؔ ساتھ ساتھ جاتا ہے