ابونصر فاروق
جب نبی ؐ کی ولادت ہوئی تواُن کا نام والدہ نے محمد اوردادا نے احمد رکھا ۔ بچپن سے ہی آپؐ کی حیات پاک کرشمہ دکھانے والی ثابت ہوئی۔حلیمہ سعدیہ کی لاغر کمزور اونٹنی آپ کو سوار کرتے ہی قافلے کے تمام اونٹوں سے زیادہ تیز دوڑنے لگی۔ دائی حلیمہ کاگھر فاقہ کشی جھیل رہا تھا۔ نبی مکرمؐ کے قدم مبارک جب وہاں پہنچے تو دیکھتے ہی دیکھتے خوش حالی اُس گھر کی زینت بن گئی۔ جب نبیؐ والدہ کے پاس واپس آئے اور جوان ہوئے تو خانہ کعبہ کی نئی تعمیر ہو رہی تھی۔ دیوار میں حجر اسود کو لگا نا تھا۔ اس بات پر جھگڑا ہو گیا کہ یہ کام کون کرے گا۔ ہر قبیلے کا سردار اپنی فضیلت ثابت کرنے کے لئے یہ کام کرنا چاہتاتھا۔ فیصلے کی ایک ہی صورت تھی کہ تلواریں نیام سے باہر نکل آئیں اورجو تلوار کا دھنی ہو وہی یہ کام کرے۔ لیکن ایک بزرگ عرب نے مشورہ دیا کہ کل سب سے پہلے جو فرد خانہ کعبہ میں آئے گا وہی یہ کام کرے گا۔ بزرگ عرب کا یہ مشورہ قبول کر لیا گیا اور تلواریں واپس نیام میں چلی گئیں۔ خون خرابے کی نوبت نہیں آئی۔ دوسرے دن جب لوگ خانہ کعبہ پہنچے تو دیکھا کہ حضرت محمد ؐ پہلے سے ہی وہاں موجود ہیں۔ نبیؐ کی شخصیت اتنی پیاری اور مقبول تھی کہ کسی کو آپ کی ذات پر اعتراض نہیں ہوا۔ نبی ؐ نے اپنی چادر مبارک بچھائی اُس پر حجراسود کورکھا اور ہرقبیلے کے سردار سے کہا کہ چادر کو سب مل کر اٹھاؤ۔ پھر دیوار تک لے جانے کے بعد نبیؐ نے اپنے دست مبارک سے پتھر کو دیوار میں نصب کر دیا۔ جوانی میں ہی قوم نے دیکھ لیا کہ یہ ہستی قوم کی سردار بنے گی۔ اس فرد کے اندر قیادت اور سیادت کی اعلیٰ صلاحیت ہے۔
بقول صارمؔ…
میں چلا ہوں تم بھی آؤ کارواں بن جائے گا
پھول جب کھلنے لگیں گے گلستاں بن جائے گا
لیکن قوم کے یہی دلارے اور پیارے جب نبی بنے اور قوم کوایک اللہ کی بندگی کرنے، دنیا کے مقابلے میں آخرت کو سنوارنے، برائی کو چھوڑ کر نیکی کے راستے پر چلنے اور نبی کی پیروی کرنے کی بات کہی توپوری قوم دشمن بن گئی اور سب سے پہلے گھر سے مخالفت شروع ہوئی کہ اپناہی چچا اور چچی دشمن بن گئے۔ پھر قوم نے ایسی پیاری شخصیت کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا وہ تاریخ کا سب سے گھناؤنا باب ہے۔ آخر کار جان لینے کا پروگرام بنایا لیکن اللہ کو اپنے نبی ؐسے بڑا کام لینا تھا۔ اللہ نے اُن کو مکمل حفاظت کے ساتھ مکہ سے مدینہ پہنچا دیا۔باطل پرستوں نے یہاں بھی چین سے نہیں رہنے دیا اور مسلسل جنگ کرتے رہے، لیکن جس کا حامی ہو خدا اُس کو مٹا سکتا ہے کون ؟ دشمنوں کی ہرچال ناکام ہو گئی اور دین حق کا جھنڈا پورے عرب پر لہرانے لگا۔ اور پھر تیس سال تک ایک بے مثال جمہوری حکومت، خلافت کے نام سے دنیا کی تاریخ میں ایک نیا باب لکھ گئی۔ اس کے بعد خلافت کا تو خاتمہ ہو گیا اور اُس کی جگہ بادشاہت آ گئی لیکن یہ بادشاہت بھی پوری دنیا پر ایک ہزار سال تک حکومت کرتی رہی۔اور اس دور میں اہل اسلام نے دنیا کو وہ علم و ہنر دیا جس کو عیسائی قوم نے دنیا پر غالب آنے کے بعد ترقی دی اور بے ایمانی سے اس کا سہرا اپنے سر باندھ لیا۔ دنیا آج اُس کو سائنس کے نام سے جانتی ہے۔دین حق کی مخالفت اُس وقت بھی ہو رہی تھی اور آج کے انتہائی ترقی یافتہ دور میں بھی ویسے ہی جہالت کے ساتھ ہو رہی ہے جب کہ دور جدید کا دعویٰ ہے کہ یہ علم و ہنر اور عقل و دانش کی انتہائی اونچی چوٹی پر پہنچ چکا ہے۔ بظاہر دنیا کی تین بڑی قومیں مسلمانوں کی دشمنی پر کمر بستہ ہیں۔ ایک یہودی، دوسری عیسائی اورتیسری بت پرست۔ بہت کم لوگ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ ان تینوں کو مسلمانوں سے نہیں اسلام سے دشمنی ہے۔ یہودیوں نے فلسطین میں اسلام کے نام لینے والوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی عیسائی قوموں نے دنیا بھر کو اور خاص کر مسلم ممالک کو اپنا غلام بنا رکھا ہے اور بت پرستوں نے مسلم دشمنی کو اپنا سیاسی منشور قرار دے دیا ہے۔ مسلمانوں میں بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ان تینوں کو دشمنی مسلمانوں سے نہیں ہے ،بلکہ دین اسلام سے ہے۔ یہودی فلسطینیوں کو اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ انیسویں صدی تک برطانیہ پوری دنیا کو غلام بنائے ہوئے تھا۔ آج امریکہ کی ساری دنیا اور خاص کر عرب ملکوں پر بلا شرکت غیرے حکومت ہے۔ اور وطن عزیز میں آزادی کے بعد سے کلمہ گو ملت دوسرے درجے کی شہری بنا دی گئی ہے۔ ان تینوں قوموں کے سرمایہ دار اور اونچے طبقے کے لوگوں نے اپنی ہی قوم کے پسماندہ افراد کو جانوروں کی طرح اپنا غلام بنا کے رکھا ہے۔ جانوروں کی طرح اُن کو جینے، کھانے پینے اور اپنی نسل بڑھانے کی آزادی تودی ہے مگر وہ ترقی کر کے اپنے آقاؤں کے مقابلے میں آ جائیں، یہ اُن کو گوارا نہیں ہے۔ در اصل اسلام جب حاکم بنا تو اُس نے اُن کے ظالمانہ اور ناانصافی والے نظام کو برباد کر دیا تھا۔ اسلام نے اونچے اور نیچے کا فرق مٹا کر انسان کی ذاتی قابلیت اور شرافت کو اونچائی کا معیار بنا دیا تھا۔ اسلامی سماج میں جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا تھا وہ سب سے اونچا انسان تھا۔ پیدائش اور ذات برادری کی بنیاد پر اونچ نیچ کے معیار کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ اُن قوموں میں جب کوئی معمولی آدمی گناہ کرتا تھا تو اُس کو سزا دی جاتی تھی لیکن جب اونچی ذات کا کوئی آدمی نیچی ذات والوں پرظلم و ستم کرتا تھا تو اُس کو سزا نہیںدی جاتی تھی۔گویا ایسا کرنا اُس کا پیدائشی حق تھا۔ نبی ؐ کے دور میں مدینہ کے ایک سردار کی بیٹی جس کا نام فاطمہ تھا، چوری کے الزام میں گرفتار ہوئی۔اُس کو اسلامی قانون کے مطابق ہاتھ کاٹنے کی سزا دی جانے والی تھی۔اُس کے قبیلے والوں نے نبیؐ تک سفارش پہنچائی کہ اُسے معاف کر دیا جائے ورنہ قبیلے کی بے عزتی ہوگی۔نبیؐ اس پر شدت سے ناراض ہوئے اورفرمایا کہ اگر فاطمہ بنت محمدؐ سے بھی یہ قصور ہوتا تو اُس کو بھی یہی سزا دی جاتی۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں ، رسول اللہؐ نے فرمایا :مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اُس کی مزدوری دے دو۔‘‘(ابن ماجہ)ایک صحابی ذکر کرتے ہیں کہ میں نے ابو ذر غفاری ؓ کو دیکھا کہ اُن کے بدن پر بھی ایک جوڑا تھا اوراُن کے غلام کے بدن پر بھی اُسی قسم کا ایک جوڑا تھا۔ہم نے اس کا سبب پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ میر ی ایک صاحب(حضرت بلالؓ)سے کچھ گالی گلوج ہو گئی تھی۔اُنہوںنے نبیؐ سے میری شکایت کی۔نبیؐ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے اُن کی ماں کی طرف سے عار دلائی ہے ؟ پھر نبی ؐ نے فرمایا: تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں، اگر چہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے۔ اس لئے جس کا بھی کوئی بھائی اُس کے قبضے میں ہو اُسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور اُن پر اُن کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ لیکن اگر اُن کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالو تو پھر اُن کی خود مدد بھی کر دیا کرو۔(بخاری)