ابونصر فاروق
ظلم کرنے والا ظالم کہلاتا ہے۔آج کی دنیا کا ہر انسان جانے انجانے میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی پرظلم ضرور کر رہا ہے۔ ظلم کا مطلب ہے کسی کو اُس کا حق نہ دینا۔ کسی کو اُس کے حق سے محروم کر دینا۔یا کسی کو اُس کے حق سے کم دینا۔ یا اپنے حق سے زیادہ لے لینا۔کسی کو ذلیل اور رسوا کرنا۔ کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا۔ کسی پر تہمت لگانا اور اُس کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا۔کسی کی مجبوری اور بے بسی کا ناجائز فائدہ اٹھانا۔کسی پر احسان کر کے اُس پر احسان جتانا۔ کسی سے نفرت کرنا۔ کسی کے لئے دل میں کینہ اور حسد رکھنا۔کسی کی ٹوہ میں لگے رہنا اور اُس کی جاسوسی کرتے رہنا۔ کسی کے عیب کو دیکھ کر اُس کو لوگوں میں مشہور کر دینا۔ قرآن میں سینکڑوں جگہ ظلم اور ظالم کا بیان آیا ہے۔ قرآن کافر اور مشرک کو بھی ظالم کہتا ہے۔ قرآن میں کافر وہ ہے جو اللہ کو نہ جانتاہے نہ پہچانتاہے، اللہ کی عظمت اور قدرت کو نہیں مانتا، اُس کے رحم و کرم پر بھروسہ نہیں کرتا۔ اللہ کے وعدوں کا اعتبار نہیں کرتا۔ اللہ کی مکمل بندگی کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ قبر کے عذاب اور حشر کے سوال وجواب پر یقین نہیں رکھتا۔ جنت اور جہنم کی حقیقت کو نہیں جانتا۔ مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کئے جانے کا یقین نہیں کرتاہے۔ دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے اور اسی کو حاصل کرنے اور اسی میں مست مگن رہنے کو زندگی کی کامیابی سمجھتا ہے۔ مشرک اُس کو کہتے ہیں جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ تو ہے لیکن وہ دنیا کا انتظام تنہا نہیں چلا رہا ہے۔ اُس کے علاوہ بھی ایسی طاقتیں ہیں جو دنیا کا کاروبار چلانے میں اللہ کی مدد کر رہی ہیں اور انسانوں کی تقدیر بنانے بگاڑنے میں اُن کا بھی دخل ہے۔ ایسی ہستیاں اتنی طاقت ور ہیں کہ اُن کی سفارش کے بغیر اللہ اپنے بندوں کی فریاد سنتا ہی نہیں اور اگر یہ ہستیاں کسی کی مدد یا دشمنی پر اڑ جائیں تو اللہ کو بھی اُن کے آگے جھکنا پڑتا ہے اور اُن کی باتیں ماننی ہوتی ہیں۔
اس لئے اللہ کے ساتھ اُن کو بھی خوش اور راضی رکھنا ضروری ہے۔غیر مسلم سارے کے سارے ایسے ہی لوگ ہیں۔ لیکن آج کے مسلمانوں کی نناوے فیصد آبادی بھی اسی بیماری کا شکار ہے،کیونکہ وہ اسلام کی اصلی اور سچی تعلیمات سے انجان اور غافل ہے۔نہ ان مسلمانوں کو یہ باتیں کوئی بتانے والا ہے اور نہ مسلمان ان باتوں کو جاننا، سمجھنا اوران پر عمل کرنا ضرری سمجھتے ہیں اور مسلمان ہوتے ہوئے بھی اللہ اور رسول ؐ کی نگاہ میں مسلمان نہیں کافر و مشرک ہیں۔
ایسے تمام لوگوں کے لئے قرآن میں اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے اس کو سمجھنے کے لئے ان آیتوں پر غور و فکر کیجئے:
(۱)اگر تم نے اس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے،اُن (ظالموں)کی خواہشات کی پیروی کی، تو یقینا تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا۔(البقرہ:۱۴۵)
نبی ؐ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ آپ کے پاس سچا اور اصلی علم قرآنی آیات کے حوالے سے آ چکا ہے۔ اب اگر آپ نے یا آپ کے ساتھیوں اور ماننے والوں نے اپنی قوم کے گمراہ خیالات اورخواہشات کی پیروی کی تو اللہ آپ لوگوں کو ظالم قرار دے گا اور آپ لوگوں کا بھی وہی انجام ہوگا جو ظالموں کا حشر کے دن ہوگا۔
(۲)جان لو کہ)ظالموں سے اللہ ہرگز محبت نہیں کرتا۔(آل عمران:۵۷)یہاں بتایا جا رہا ہے کہ جیسے ہی کوئی فرد ظالم ہوتا ہے وہ اللہ کی محبت اور رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔اور جو آدمی اللہ کی محبت اور رحمت سے محروم ہو گیاتو اُسے شیطان اچک لیتا ہے اور اُس آدمی کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ و برباد کر دیتا ہے۔
(۳)کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا اُنہیں ہدایت بخشے جنہوں نے ایمان کی نعمت پالینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا، حالانکہ وہ خوداس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسول حق پر ہیں اور اُن کے پاس روشن نشانیاں بھی آ چکی ہیں ۔ اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیاکرتا۔(آل عمران:۸۶)
کاش قرآن کی ان آیتوں کو پڑھ کر لوگ دنیا اور آخرت کی حقیقت کو سمجھیں، ظلم اور زیادتی کی راہ چھوڑ کر نیکی کے راستے پر چلنے کا ارادہ کریں، اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور نیکی کرنے کی توفیق کی دعائیں کریں۔ پکا ارادہ کریں کہ اب شیطان کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔ دل کے شوق پور ے کرنے میں زندگی کے بچے ہوئے لمحوں کو برباد نہیں کریں گے، تو یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دے گا۔ اب جو نیک عمل وہ کریں گے اُن کا اجر اتنا زیادہ دے گا کہ پچھلے گناہ بھی کم پڑ جائیں گے اور اُن توبہ کرنے اور سدھر جانے والوں کی نیکیاں اُنہیں جنت الفردوس کا حق دار بنا دیں گی۔