عبیداللّٰہ ناصر
جواہر لعل نہرو کی وضع کردہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی ہماری جنگ آزادی کے آدرشوں، اصولوں اور قومی مفاد کا حسین امتزاج رہی ہے۔ مہاتما گاندھی کی صداقت و عدم تشدد اور جواہر لعل نہرو کے عالمی نظریات پر مبنی ہماری خارجہ پالیسی نے نو آزاد غریب فوجی اور معاشی اعتبار سے کمزور ہندوستان کو علمی برادری میں ایک اہم مقام دلایا تھا۔ ہندوستان نے عالمی امن و استحکام کے ساتھ نوآبادیات کی چکی میں پستے افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ملکوں کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی اور ان ملکوں نے گاندھیائی طریقہ سے مزاحمت کرکے غلامی کا طوق اتار پھینکا۔یہ نوآزاد ممالک امریکہ یا سوویت یونین کی قیادت والے فوجی بلاکوں سے الگ رہ کر با ہمی ا شتراک اور تعاون سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوں، اپنے عوام کی ضروریات پوری کریں، ان کا معیار زندگی بلند کریں، اس کے لیے انہوں نے ناوابستہ تحریک کا آغاز کیا جو متحدہ اقوام کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا عالمی پلیٹ فارم بنا اور جواہر لعل نہرو اس کے متفقہ سربراہ تھے۔ سرد جنگ کے ماحول میں اس پلیٹ فارم نے دنیا کو ایٹمی اور تیسری جنگ عظیم سے بچائے رکھا۔نہرو کے تدبر اور اسٹیٹمین شپ سے کوریا اور کیوبا کے مسئلہ پر امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایٹمی جنگ رکی۔دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں جھیل چکی دنیا اب کسی دوسری جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی، دنیا کو اس تباہی سے بچانے کیلئے ہندوستان نے کلیدی کردار ادا کیا جس نے ہندوستان کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کو یوروپ اور عرب ملکوں میں ’’پروفیٹ آف ورلڈ پیس‘‘ (عالمی امن کے پیامبر) بنا دیا تھا۔دنیا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ ملکوں میں مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو کے مجسمے یا ان کے نام پر سڑکیں یوں ہی نہیں بنی ہیں، یہ ان دونوں عظیم ہستیوں کی انسانیت نواز سوچ و فکر کی دین ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کو سہی معنوں میں ’’وشو گرو‘‘بنا دیا تھا جس کا راگ آج مودی اور ان کے بھکت رات دن الاپتے رہتے ہیں۔
مراقش کے شہر رباط میں منعقدہ پہلی عالمی اسلامی کانفرنس میں پاکستان کی شرارت سے ہندوستان کو شرکت کا موقع نہیں ملا تھا حالانکہ اس وقت ہندوستان دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مسلم آبادی والا ملک تھا، یہ ہندوستان کے لیے ایک بڑا جھٹکا تھا کیونکہ ہندوستان میں مسلمانوں کو برابری کے شہری ہونے اور اس کے لیے آئینی گارنٹی موجود تھی نیز ہندوستان تو شرو ع سے ہی عربوں خاص کر فلسطین کے کاز کی حمایت کرتا رہا تھا، اس ناکامی پر جب صحافیوں نے اندرا گاندھی سے سوال کیا اور خاص کر یہ پوچھا کہ اسرائیل اور عرب ملکوں کے لیے ہندوستان کا موقف اب کیا ہوگا تو اندرا گاندھی کا صاف جواب تھا: ’’ہماری خارجہ پالیسی کوئی پنڈولم نہیں جو ادھر ادھر ہوتی رہے، یہ ہماری جنگ آزادی کے آدرشوں اور اصولوں پر مبنی ہے اور عالمی امن و استحکام نیز عالمی انصاف کے تقاضوں کو پوری کرنے والی ہے۔ فلسطین کا ز کی ہماری حمایت ہمارے آدرشوں اور اصولوں پر مبنی ہے اور ہم اس پر قائم رہیں گے۔‘‘ اس نا خوشگوار واقعہ کے بعد قریب قریب سبھی عرب ملکوں کے سربراہوں نے نئی دہلی آ کر ہندوستان سے یگانگت کا اظہار کیا، یہاں تک کہ عرب لیگ کے اجلاس میں ہندوستان کو شرکت کی دعوت تک دی گئی تھی۔فلسطین کے کاز کے لیے ہندوستان کی حمایت ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور حکومت تک قائم رہی، ویسے تو مودی جی نے بھی ہندوستان کی دیرینہ پالیسی کا کئی بار اعادہ کیا لیکن در حقیقت ان کی ہمدردیاں اسرائیل کے ساتھ ہی ہیں جو آر ایس ایس کی سوچ و فکر کے مطابق ہے اور حد تو یہ ہوگئی کہ غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کو اسلحہ تک فراہم کیا گیا۔ گوتم اور گاندھی کے اس ملک کا اسرائیلی بربریت کا ساجھے دار بننا شرمناک بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ ہندوستان کے فرقہ پرست اسرائیل نواز عناصر اس کا جواز یہ دیتے ہیں کہ اسرائیل نے کارگل جنگ کے دوران ہندوستان کو ضروری فوجی ساز و سامان فراہم کیا تھا، اس لیے ہندوستان کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہو۔مگر یہ عنا صر یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان نے پاکستان کے خلاف کسی جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا تھا بلکہ اپنا علاقہ پاکستان سے واپس لینے کے لیے فوجی کارروائی کی تھی جبکہ اسرائیل کھلے عام غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے اور اب 65-70 ہزار فلسطینیوں کو موت کی نیند سلا چکا ہے جن میں 20ہزار بچے شامل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مودی سبھی عرب ملکوں کا دورہ کر چکے ہیں، وہاں سے انہیں شہری اعزاز بھی ملے ہیں، عرب ملکوں کے سربراہان بھی ہندوستان تشریف لاچکے ہیں مگر مودی کے ہندوستان کا واضح جھکاؤ اسرائیل کی جانب ہے، یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
ویسے تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ خود عرب ملکوں نے فلسطین خاص کر غزہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے، اسی وجہ سے وہاں فلسطینیوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، مسلم ملکوں میں ایک اکیلا ایران پوری ایمانداری کے ساتھ نہ صرف فلسطین کی حمایت میں زبانی جمع خرچ کر رہا ہے بلکہ اب تو اسرائیل کو اس کی بربریت کا وہ سبق دیا ہے جو اس کو اپنے قیام سے لے کر آج تک نہیں ملا تھا۔ ایسے میں ہندوستان سے امید کرنا کہ وہ اسرائیل سے دشمنی مول لے کر فلسطین کی حمایت کرے گا بیوقوفی ہوگی لیکن ہندوستان کم سے کم فلسطینیوں کی نسل کشی کا حصہ دار نہ بنے یہ تو اس پر لازمی تھا۔ اسرائیل کھلے عام نہ صرف جارحیت کا ارتکاب کر رہا ہے بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، ہندوستان کا اس کے خلاف کھل کر موقف نہ لینا ہماری دیرینہ خارجہ پالیسی کے خلاف ہے، یوروپ تک کے کئی ملک اسرائیل سے قطع تعلق کر رہے ہے، اس کی نسل کشی کی کھل کر مذمت کر رہے ہیں مگر ہندوستان کی حکومت اندرون ملک فرقہ پرست عناصر کوخوش رکھنے کے لیے آواز اٹھانا تو درکنار اس نسل کشی میں ساجھے دار بنی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جب غزہ میں اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے ووٹنگ ہوئی تو امریکہ سمیت14ملکوں کے علاوہ سبھی نے اس کی حمایت میں ووٹ دیا، ہندوستان ووٹنگ سے غیر حاضر رہا جو ایک طرح سے اسرائیلی جارحیت کی حمایت ہی تھی۔ اسی طرح ایران پر اسرائیل کا حملہ بھی عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے مگر حکومت ہند اس وقت تک خاموش رہی جب تک مسز سونیا گاندھی نے اخبار میں چھپے اپنے ایک مضمون میں اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی، اس پر مودی جی نے ایران کو صبر و تحمل سے کام لینے کی تلقین کرکے ایک طرح سے ایران کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اسرائیلی جارحیت پر بھی خاموش ر ہے۔ ٹرمپ اپنے دوسرے دور اقتدار میں جیسے ہندوستان کی توہین کرتے رہنے کا عہد کیے ہوئے ہیں، ہندوستانیوں کو ہتھکڑیوں- بیڑیوں میں جکڑ کر ہندوستان واپس بھیجنا، اس قدر توہین آمیز حرکت ہے کہ اگر کوئی بھی دوسرا وزیراعظم ہوتا تو وہ نہ صرف اس پر سخت احتجاج کرتا بلکہ ٹرمپ سے صاف انداز میں کہہ دیتا کہ ہم اپنے شہریوں کو خود اپنا جہاز بھیج کر واپس بلا لیں گے اور اگر آپ نہیں مانے تو ہم اسی انداز میں امریکی شہریوں کو واپس بھیجیں گے۔مگر ہندوستان کی حکومت اس پر خاموش رہی اور اس کے اندھے حامی اس کو حق بجانب ٹھہرانے لگے۔اسی طرح آپریشن سندور کو روکنے کا دعویٰ ٹرمپ کم سے کم بیس بار کر چکے ہیں، حکومت ہند نے اس کی سرکاری سطح پر آج تک تردید نہیں کی ہے، یہ باہمی معاملوں میں غیر ملکی مداخلت کو قبول کرنا ہے جو پاکستان کی دیرینہ خواہش ہے تاکہ وہ کشمیر کے مسئلہ کو بین الاقوامی مسئلہ بنا سکے جو شملہ سمجھوتے کے بعد ممکن نہیں ہو سکا تھا۔یہ بھی ہماری خارجہ پالیسی کی بدترین ناکامی ہے۔
اصل میں مودی کی سیاست کا ایک ہی محور ہے، وہ ہے الیکشن جیتنا۔ انہوں نے ملکی پالیسی میں فرقہ پرستی کا زہر گھول کر اپنے اقتدار کو دائمی بنانے کی کوشش کی اور خارجہ پالیسی میں بھی یہی زہر گھول دیا ہے،جس کا منطقی انجام یہ سامنے آرہا ہے کہ ہندوستان دنیا میں الگ تھلگ پڑتا جا رہا ہے۔ ابھی آپریشن سندور کے بعد دنیا کا کوئی ملک ہندوستان کی حمایت میں کھڑا نہیں ہوا، مودی جی نے 16پارلیمانی وفود مختلف ملکوں میں بھیج کر ہندوستان کے موقف اور آپریشن سندور کی ضرورت واضح کروائی مگر اس کا کیا نتیجہ سامنے آیا، یہ واضح نہیں ہے، ہاں یہ ضرور ہوا کہ ابھی گزشتہ دنوں شنگھائی تعاون تنظیم کی میٹنگ میں بھی ہندوستان کو کسی ملک کی حمایت نہیں ملی جس کے نتیجہ میں ہندوستانی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے مشترکہ علانیہ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ راج ناتھ سنگھ کا فیصلہ بالکل درست تھا مگر یہ لمحہ فکریہ تو ہے ہی کہ شنگھائی تعاون کونسل کے 10مستقل اور آٹھ خصوصی مدعو ممالک میں سے ایک بھی ہندوستان کے ساتھ کیوں نہیں کھڑا ہوا؟ پڑوس ہو یا دور دراز کے ملک کوئی ہندوستان کا ساتھی کیوں نہیں ہے، یہ ہماری خارجہ پالیسی کی بدترین ناکامی ہے یا نہیں ؟ جو ملک کبھی150سے زائد ناوابستہ ملکوں کا متفقہ لیڈر تھا، وہ آج عالمی برادری میں کیوں الگ تھلگ پڑا ہے ؟
ایک اندازے کے مطابق اپنے غیر ملکی دوروں پر مودی اب تک تقریباً دس ارب روپے خرچ کر چکے ہیں، اس میں وہ خرچ سب سے ز یادہ ہے جو انہوں نے اس ملک میں بسے ہندوستانیوں کو جمع کر کے مودی مودی کے نعرے لگوائے تھے، اتنا پیسہ خرچ کرنے کا حاصل کیا ہوا جب وقت پر کوئی ملک آپ کی حمایت میں نہیں کھڑا ہوا۔ در اصل مودی کی سیاست میں ڈرامائیت کا جو عنصر ہے وہ ان کی ڈپلومیسی میں بھی جھلکتا ہے۔ مودی کی ان ڈرامائی حرکتوں کی وجہ سے جے شنکر جیسا کریئر ڈپلومیٹ بھی ایک بدترین ناکام وزیرخارجہ ثابت ہوا ہے، کبھی سردار سورن سنگھ خود اٹل جی اور دنیش سنگھ جیسی قدآور شخصیات جس وزارت کی سربراہ رہی ہیں، وہ آج دوسری پارٹیوں کے اہل لیڈروں کو غیر ملکوں میں ہندوستان کا موقف پیش کرنے کے لیے بھیجنے پر مجبور ہے۔ ملک کی خارجہ پالیسی میں ملکی مفاد کے ساتھ قومی وقار، قومی آدرش اور قومی تمناؤں کا بھی امتزاج ہونا چاہیے اور سب سے اہم بات جب ملک کے اندرونی حالات درست ہوں گے تو بیرونی حالات بھی درست رہیں گے۔ ملک میں جمہوریت اور اس کی لازمی شرائط جیسے پریس کی آزادی، آئینی اداروں کی خود مختاری، عوام کے سبھی طبقوں کے ساتھ حقیقی انصاف ہی ملک کی بیرونی عزت کا ضامن ہے۔