پروفیسر عتیق احمدفاروقی
مہاراشٹرا اورجھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کے ساتھ ساتھ دولوک سبھا اور48اسمبلیحلقوں کے ضمنی انتخاب کیلئے تاریخوں کااعلان چند دنوں قبل کردیاگیاہے۔ یہ انتخابات کافی اہم ہیں کیونکہ ہریانہ کی تقریباًہاری ہوئی جنگ جیت کر بی جے پی نے حزب اختلاف کے سارے حساب چوپٹ کردئے ہیں۔ کانگریس اگرہریانہ سے جیت گئی ہوتی تو ممکن ہے کہ مہاراشٹرا وجھارکھنڈ کے انتخابات میں وہ اتحاد میں زیادہ دم خم دکھاپاتی ، لیکن اب سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس پر اتحادی پارٹیوں کا دباؤ بڑھ گیاہے۔ ایسے میںمستقبل کے انتخابات میں فتح کی خوراک ہی اب اسے نئی توانائی بخشنے کاکام کرسکتی ہے۔ مگر این ڈی اے اتحاد کے لحاظ سے یہ انتخاب پورے ملک میں بیانیہ بدلنے کا ایک ذریعہ ہوگا۔ ہریانہ کی جیت نے بی جے پی کو لوک سبھا چناؤ کے جھٹکے سے ابھرنے میں مدد کی ہے۔ اب اگرمہاراشٹرا وجھارکھنڈ کو بھی این ڈی اے اپنے نام کرلے گیا تو بی جے پی کا یہ دعویٰ دوبارہ مضبوط ہوجائے گاکہ لوگوں کااعتماد بھگوا جھنڈے پر قائم ہے۔
بہر حال قومی سیاست میں مہاراشٹرا کی اہمیت کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ یہ ملک کا وہ صوبہ ہے جہاں سے یوپی کے بعد سب سے زیادہ 48ایم پی لوک سبھا میں پہنچتے ہیں۔ یوپی سے 80ارکان چنے جاتے ہیں۔ مہاراشٹرا ملک کا اقتصادی دارالحکومت ہے جس کے سبب اس کو کافی اہمیت دی جاتی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں مخالف ’انڈیا ‘بلاک کے کھاتے میں یہاں کی تیس نشستیں گئی تھیں، جس کا ایک بڑاسبب مہااگھاڑی حکومت کا گرنا مانا گیا۔ تب کہاگیاتھاکہ این سی پی اورشیوسینا میں تقسیم کے خلاف عام لوگوں نے ’انڈیا ‘ اتحادکے حق میں ووٹ دیاہے۔ مگر اس دفعہ بھی کیا ہمدردی کا یہ کارڈ ویسے ہی کام کرے گا،اِس سلسلے میں ابھی واضح طور پر نہیں کہاجاسکتا؟ایسا اس لئے بھی ہے کہ اکثر لوگوں کا مانناہے کہ عوام ایک ہی ایشو پر چناؤ میں ووٹ نہیں ڈالتے ۔ وقت کے ساتھ مدعے بدلتے رہتے ہیں ۔ دراصل مہایُتی ومہااگھاڑی ‘دونوں اتحاد کیلئے اس بار وہاں برابری کا مقابلہ ہے جس میں بازی کس اتحاد کے ہاتھ لگے گی اس کا پتہ 23نومبر کو چلے گا۔ یہاں ایشو لگاتار بدل رہے ہیں اور20نومبر کو چناؤ کے دن تک کون کون سے ایشو ہاوی رہیں گے ، اس کی پیش گوئی مشکل ہے۔ اگست میں لگ رہاتھا کہ بدلاپور واقعہ کا چناؤ پر کافی اثر پڑے گا۔ اس وقت نابالغ بچیوں کے ساتھ مبینہ چھیڑ چھاڑ کے خلاف جیسے پورا مہاراشٹرا سڑکوں پر اترآیاتھا۔ پھر شیواجی کی مورتی گرنے کے بعد اچانک ماحول بدل گیااورمراٹھا وقار پر بحث ہونے لگی۔ اب سابق وزیراورمشہور لیڈر بابا صدیقی کے قتل کا مسئلہ سرخیوں میں ہے۔ لوگوں میں یہ بات زیر بحث ہے کہ کیا مہاراشٹرا دوبارہ 90کی دہائی میں لوٹ رہاہے ،جب گینگ وار کا بول بالاہواکرتاتھا؟ ظاہر ہے نظم ونسق کو لے کر یہاں تشویش بڑھ گئی ہے۔
یہاں ’ بہن اسکیم‘بھی چناوی مدعہ بن سکتاہے اس اسکیم کے تحت خواتین کو ماہانہ پندرہ سورروپے دینے کی بات کہی گئی ہے۔ گزشتہ دنوںایک ناتھ شندے حکومت نے دیوالی بونس دینے کابھی اعلان کیاہے۔ ماناجارہاہے کہ جس طرح سے مدھیہ پردیش میں ’لاڈلی لکشمی اسکیم ‘چناوی ہوا بدلنے میں کامیاب ثابت ہوئی، اُسی طرح کا اثر اس اسکیم کا بھی پڑسکتاہے۔ ویسے مہاراشٹرا کی طرح جھارکھنڈمیں بھی یہ واضح طور پر نہیں کہاجاسکتاکہ کون سامدعہ عوام کو متاثر کرے گا؟حالانکہ ہیمنت سورین حکومت کی بھی نظر بطور ووٹ بینک خواتین پر ہے اوراس نے دسمبر سے ’میا سمان یوجنا‘ کی رقم بڑھاکر پچیس سوروپئے کرنے کا اعلان کیاہے۔ پہلے اس اسکیم کے تحت 18سے 60سال تک کی خواتین کو ایک ہزار روپئے ماہانہ دئے جارہے تھے۔ اس اسکیم کے جواب میں بی جے پی نے بھی ’گوگودی دی اسکیم ‘ لانے کا وعدہ کیاتھا، جس میں خواتین کو اکیس سو روپئے ماہانہ امدادی رقم دینے کا اعلان کیاگیاتھا۔ ظاہر ہے کہ خواتین کو اپنی طرف لبھانے کی کوشش حزب اقتدار اورحزب اختلاف دونوں کررہے ہیں۔ زور اِسی بات پر ہے کہ نصف آبادی کو نقد رقم دی جائے ،ماناجارہاہے کہ دہلی ہریانہ یا پھربہارمیں حکومت کو خواتین بہبودی اسکیم کا اگرفائدہ ملاتو جھارکھنڈ میں بھی فائدہ ہوسکتاہے۔
بہرحال یہاں کچھ اورمدعے بھی فضامیں گونج رہے ہیں، خصوصاً بدعنوانی کا مدعہ ۔ وزیرہیمنت سورین کا جیل کے سفر کو مخالف پارٹیاں انتخابات میں خوب اُچھال سکتی ہیں۔ چمپائی سورین کی بغاوت کو بھی بھنانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ یہاں قبائلی بنام غیرقبائلی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ماناجارہاہے کہ اس کا اُسی طرح اثر ہوسکتاہے جس طرح ہریانہ میں جاٹ بنام غیرجاٹ کا ہواتھا۔ ہریانہ میں جاٹ ووٹ بینک پر ووٹ دینے کے سبب ہی شاید دلت چھٹک کر بی جے پی کے ساتھ چلے گئے۔ ویسے جھارکھنڈ میں بی جے پی کے سامنے نشستوں کی تقسیم ایک بڑا چیلنج ثابت ہوسکتاہے جسے ’جھارکھنڈ مکتی مورچہ‘انتخابات میں ہوا دے گی۔ جھارکھنڈمیں اقتدار مخالف احساس بھی دکھ رہاہے ۔ شاید اس سے پارپانے کی کوشش جھارکھنڈمکتی مورچہ نے شروع بھی کردی ہے اوروزیراعلیٰ ہیمنت سورین کی اہلیہ کلپنا سورین میدان میں سرگرم ہوگئی ہیں۔ جن جن علاقوں میں وہ جارہی ہیں، وہاں ان کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ نیا چہرہ ہونے کے سبب لوگوں کا اُن پر بھروسہ بڑھ رہاہے۔ وہ نیا بیانیہ وضع کرنے میں کامیاب ہوتی دِ کھ رہی ہے۔ مگر انتخابات تک یہ اثر کتنا قائم رہے گا، ابھی نہیں کہاجاسکتا۔یہاں 13اور20نومبر کو پولنگ ہو گی جبکہ نتیجوں کا اعلان مہاراشٹرا کے ساتھ 23نومبر کو ہوگا۔
مجموعی طور پر اِن دونوں ریاستوں کے نتیجے مرکز کی سیاست کو بہت زیادہ متاثر کرسکتے ہیں۔ این ڈی اے اور’انڈیا‘بلاک دونوں ان کے نتیجوں کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش پہلے ہی شروع کرچکے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دونوں ریاستوں کی حکومتیں اپنے آخری کابینہ جلسے میں عوام کو لبھانے کی کوشش کرتی دِکھیں۔ واضح رہے کہ ان اسمبلی انتخابات میں حاوی تومقامی مدعے ہی رہیں گی، لیکن ان کے نتائج کا اثر ملک گیر ہوگا۔
[email protected]