85ویں اجلاس کی سیاسی قرار داد میں اپوزیشن اتحاد کی گونج

0

شاہد زبیری
جس وقت یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں کانگریس کے چھتیس گڑھ کے رائے پور میں جا ری کانگریس کے سہ روزہ 85ویں اجلاس کے آخری دن کی کارروائی اختتام کے قریب تھی ملکا ارجن کھڑگے اور راہل گاندھی خطاب کر نے والے تھے ۔آخری دن جو تجاویز پیش کی گئیں، ان میں زراعت،نوجوانوں کیلئے روزگار،خواتین کے امپاورمنٹ ، سماجی فلاح و بہبود اور تعلیم سے متعلق ہیں ۔
اجلاس کے دوسرے دن پیش کی جانے والی قرار دادوں میں ایک اہم قرارداد سیاسی قرار داد تھی ۔اس اہم قرارداد کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یکساں نظریات والی پارٹیوں سے اتحاد کی بات کہی گئی ہے اور کسی بھی تیسرے چوتھے سیاسی اتحاد سے ہونے والے خطرہ سے خبردار کیا گیا اور کہا گیا کہ اگر ایسا کوئی تیسرا سیاسی اتحادسامنے آتا ہے تو اس سے این ڈی اے دوسرے لفظوں میں بی جے پی کو فائدہ پہنچے گا۔قرار داد میںیکساں نظریات رکھنے والی پارٹیوں کے اتحاد پر زور دیا گیا اور اس کیلئے کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھڑگے نے ہر قربانی دینے کی بات بھی کہی ہے۔اپنے خطاب میں نہ صرف ملکارجن کھڑگے بلکہ سونیا گاندھی بھی جن تیوروں کیساتھ آر ایس ایس اور بی جے پی پر گرجی اور برسی ہیں اس سے یہ اندازہ لگا نا مشکل نہیں کہ بی جے پی کیخلاف ہونے والا سیاسی اتحاد کا ایجنڈہ کیا رہے گا اور ایسا لگتا ہے کہ سیاسی محاذ یو پی اے کی طرز پر ہی تشکیل پائے گا ۔یہ بھی اتفاق ہے کہ پورنیہ میں ہونے والے عظیم اتحاد کے اجلاس میںلالو یادو کا خطاب بھی کچھ اسی طرح کا تھا وہ بھی آر ایس ایس اور بی جے پی پر برسے۔ اس اجلاس میں تیجسوی یادو نے دو ٹوک کہا کہ کانگریس آگے بڑھے قیادت کرے ہم ساتھ ہیں ۔تیجسوی کے بیان اور کانگریس کی سیاسی قرارداد سے امید بندھی ہے کہ بی جے پی کیخلاف تشکیل پانے والا محاذ اور بننے والا اتحاد ایک مضبوط اتحاد ثابت ہو گا جو اقتدار کی تبدیلی کا باعث ہو سکتا ہے۔
رائے پور کے سہ روزہ اجلاس کی کارروائی سے لگتا ہے کہ ایک نئی کانگریس ابھر رہی ہے جس میں اعتماد بھی ہے اور فسطائی طا قتوں سے لڑنے کا حوصلہ بھی اور جوش بھی جو دلتوں اور اقلیتوں کے ایشوز پر اب بلا جھجک آواز بلند کر نے سے بھی پیچھے نہیں ہٹے گی ۔سونیا گاندھی کی تقریر سے اس کے شارے مل رہے ہیںانہوں نے مودی حکومت میں دلتوں اور اقلیتوںکو نشانہ پر لئے جا نے کا ذکر بہت صاف طریقے سے کیا ہے اور دلتوںو اقلیتوں کو پارٹی میں بھرپور نمائندگی دینے کی بات بھی اس اجلاس میں کہی گئی ہے اور سماجی انصاف کی گونج بھی سنا ئی دی ہے ۔
کانگریس کو یہ احساس ہو چلا ہے کہ ملک کا آج جو سیاسی ماحول ہے اس میں ’اکیلا چلو‘ کی پا لیسی کامیاب نہیں ہو سکتی ۔نتیش کمار اور تیجسوی یادو کے علاوہ بہار میں کمیونسٹ پارٹیوں کو بھی کا نگریس کیساتھ اتحاد میں شامل ہونے کی حامی بھر چکی ہیں۔یوپی میں اگر کانگریس ،سماجوادی پارٹی اور لوکدل میں اتحاد ہوتا ہے تو نتائج بہتر نکلیں گے جیسا یو پی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ضمنی انتخابات میں ہو چکا ہے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے بعد بھی بی جے پی نہ اسمبلی کی سیٹ جیت پائی اور نہ پارلیمنٹ کی ۔ بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد میں شامل ہو نے کے امکانات نہیںکے برا بر ہیں، لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ مقابلہ اب کانگریس کے یو پی اے اتحاد اور بی جے پی کے این ڈی اے اتحاد کے مابین ہو گا ۔ تیسرے اتحاد کے امکانات سے انکار ممکن نہیں اگر ایسا کوئی اتحاد وجود میں آتا ہے تو یقینا بی جے پی کی راہ ہموار کرے گا اس خد شہ کا اظہار کانگریس کے اجلاس میں بھی کیا گیا ہے۔اس اتحاد کیلئے پہلے ممتا بنرجی کوشش کرچکی ہیں، لیکن ناکام رہیں ،پھر چندر شیکھر رائو نے ایسی ہی کوشش کی لیکن دال نہیں گلی اب خبر ہے کہ اروند کجریوال نے بھی ممبئی پہنچ کر شیو سینا کے قائد ادھو ٹھا کرے سے ملاقات کی ہے۔ سیاسی حلقوں میں کجریوال کی اس تازہ کو شش کواہم مانا جا رہا ہے۔ گجرات اور اترا کھنڈ اسمبلی کے انتخابات میں کجریوال پر بی جے پی کو کامیاب کرانے کے الزامات ہیں اگر یو پی بہار میں میں کانگریس، راشٹریہ جنتا دل اور جنتا دل یو نائیٹڈ و دیگر جماعتیں اور یو پی میں کانگریس ،لوکدل ایک ساتھ آتے ہیں یقینا اس کا پیغام دوسری ریاستوں تک جا ئے گا ۔کانگریس کو بی ایس پی کی ما یاوتی، بنگال میںممتا بنر جی اور تلنگانہ میںچندر شیکھر رائو کو بھی اتحاد میں شامل ہو نے کی دعوت دینی چا ہئے تمل ناڈو میں اسٹالن کانگریس کیساتھ کھڑے دکھا ئی دیتے ہیںاوڈیشہ کے نوین پٹنائک کو بھی اتحاد میں شامل ہوتے ہیںتو ایک مضبوط اتحاد کی تشکیل ہو سکتی ہے اس کیلئے کم از کم پرو گرام کے تحت غیر بی جے پی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کر نا ضروری ہے ۔ ملک کے موجودہ حالات کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ ملک میں اس وقت ایک طرف ہندوتوکے نام پر جہاں سماج کو تقسیم کیا جا رہا ہے سماجی انصاف کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے کانگریس بھی اس کی تائید کر چکی ہے ہندوتو کا مقابلہ سماجی انصاف کے نظریہ سے ہی کیا جا سکتا ہے اس نظریہ کو لے کر ملک میں سیاسی صف بندی ہو رہی ہے ،ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبہ نے اسی کی کوکھ سے جنم لیا ہے ۔یو پی میں یو گی سرکار اس مطالبہ کو یکسر مسترد کر چکی ہے مودی سرکار بھی ذات پر مبنی مردم شماری کے حق میں نظر نہیں آتی اس میں اس کو اپنے لئے خسارہ نظر آتا ہے۔بی جے پی اسی لئے ہندوتو کے نظریہ کی وکا لت کرتی ہے اور سماجی انصاف کے نظریہ سے اس کو پرہیز ہے۔
اس مضمون کی اختتامی سطریں قلمبند کی جا رہی تھیں تو راہل گاندھی کی تقریر مکمل ہو چکی تھی راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں بھارت جوڑو یاترا کے ذکر کیساتھ ہندوتو پر کاری ضرب لگا ئی گئی ہے اور چین کی مضبوط معیشت کے حوالہ سے وزیر خارجہ جے شنکر کا نام لئے بغیر تنقید کی اور کہا کہ ساور کر کے نظریہ پر یقین رکھنے والے طاقت کے آگے سر جھکا لیتے ہیں اور کمزور پر چڑھ دوڑتے ہیں انہوں نے اس کو بزدلی سے تعبیر کیا۔ راہل گاندھی مودی اور اڈانی کا ذکر کرنا بھی نہیں بھولے اور ان تمام الزامات کو دہرایا جو وہ پارلیمنٹ میں مودی اور اڈانی کی دوستی کو لے کر لگاتے رہے ہیں ۔اپنی تقریر میں راہل گا ندھی نے بی جے پی کو ’ ستّا گرہی ‘پارٹی بتا یا اور کہا کہ گاندھی جی ستّیہ سچ کی خاطر لڑنے کیلئے ’ستّیہ گرہ ‘کرتے تھے اور بی جے پی ستّا کیلئے لڑ رہی ہے ۔ ملکارجن نے اپنی تقریر میں جہاں راہل گاندھی کی تقریر کی بھر پور تائید کی انہوں نے ذات پر مبنی مردم شماری کے سوال کو بھی اٹھا یا اورکہا کہ کانگریس نے سروے کرا یا تھا جو سرکار بدلنے سے مکمل نہیں ہو پا یا خاص بات یہ کہ ملکارجن نے منو واد اور منو سمرتی کے نفاذ اور آئین میں تبدیلی کی بات پر بی جے پی کو آڑے ہاتھو ںلیا ہے۔ ان دونوں لیڈروں کی تقاریر سے کانگریس کو ایک نئی توانائی ملے گی اور کانگریس کا نیا روپ سامنے آئے گا ایسی امید کی جانی چاہئے۔
کل ملا کر اگر دیکھا جا ئے توحالات 1975جیسے نظر آرہے ہیں لیکن کردار بدلے ہو ئے ہیںاس وقت کانگریس اقتدار میں تھی اور بی جے پی کسی شمار میں نہیں تھی جے پرکاش نارائن کی قیادت میں تمام اپوزیشن متحد تھا اور ماہ جون میں جیسے ہی جے پی نے دہلی کوچ کا نعرہ دیا ملک میں ایمرجنسی لگا دی گئی آج کانگریس کو مرکزیت حاصل ہے اور اپوزیشن پارٹیاں اگر اس کے جھنڈے تلے متحد ہوجاتی ہیں اور کوئی مضبوط سیاسی اتحاد بن جا تا ہے تو بی جے پی کو اقتدار سے ہاتھ دھو نا پڑسکتا ہے، اگر ایسا نہیں ہوتااور اپوزیشن جماعتیں متحد نہیں ہوتیں تو بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کئے جا نے کا پھر جلد ایسا کوئی موقع اپوزیشن کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ یہ نوشتہ دیوار ہے، جو چاہے پڑھ سکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS