پروفیسر عتیق احمد فاروقی
کہانی کی ابتدا 7 اکتوبر 2023 سے ہوتی ہے جب غزہ کی حماس نے اسرائیل پر غضبناک حملہ کرکے قریب بارہ سو یہودیوں کو ہلاک کیا اور دو سو پچاس کو یرغمال بنا کر غزہ لے آئی۔ لیکن جس انداز میں اسرائیلی حکام نے ردعمل ظاہر کیا، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ حماس نے جو بھی کیا، اسے ناجائز نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ 2006 سے اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کر رکھا تھا اور عملی طور پر وہاں کے شہریوں اور حکام کو قیدی بنا رکھا تھا۔ اسرائیلی حکومت کی اجازت کے بغیر نہ تو کوئی سامان غزہ میں داخل ہو سکتا تھا اور نہ ہی کوئی رسد غزہ سے باہر جا سکتی تھی۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ غزہ کی حیثیت ایک ریاست جیسی تھی، جہاں ایک منتخب حکومت تھی جو اپنے عوام پر قانونی طور پر حکمرانی کر رہی تھی۔ اس سے قبل بھی حماس اور اسرائیل کے بیچ جھڑپیں ہو چکی تھیں، لیکن وہ عارضی ہوتی تھیں، دونوں ایک دوسرے پر حملہ کرتے تھے، حماس کو زیادہ جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا تھا اور پھر وہ جھڑپیں ختم ہو جاتی تھیں۔
ان جھڑپوں کے نتیجے میں غزہ کے دس فیصد مکانات پہلے ہی منہدم ہو چکے تھے، جن کی تعمیر اس لیے نہیں ہو پا رہی تھی کیونکہ اسرائیل تعمیری سامان غزہ میں داخل نہیں ہونے دے رہا تھا۔ اسرائیل قیدیوں جیسا سلوک غزہ کے لوگوں کے ساتھ کر رہا تھا اور انہیں طرح طرح کی اذیتیں پہنچا رہا تھا۔ اگر تاریخی پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ جب سے اسرائیل وجود میں آیا ہے، وہ عرب ممالک اور خصوصاً فلسطینیوں کے لیے ایک مصیبت بنا ہوا ہے۔ اس علاقے میں امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیلیوں کو بسایا تھا جو درحقیقت فلسطینیوں کی زمین تھی اور یہودیوں کو اس لحاظ سے فلسطینیوں اور عربوں کا احسان مند ہونا چاہیے تھا، لیکن احسان تو دور، الٹا وہ ان کے ساتھ زیادتیاں کرنے لگے۔ 1967 اور 1973 میں عرب اسرائیل جنگیں ہوئیں، جن کے نتیجے میں مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی بھی اسرائیل کے قبضے میں آگئی۔
اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیل نے غزہ میں، وہاں کے محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق 60 ہزار، اسرائیل کے ایک غیرجانبدار اخبار ’’حارِتس‘‘ کے مطابق ایک لاکھ، اور بین الاقوامی میڈیا کے مطابق تین لاکھ بے گناہ شہریوں کو قتل کیا ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس نوعیت کی نسل کشی کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ جہاں تک ایران کا سوال ہے، جن حالات میں اسرائیل نے اس پر حملہ کیا وہ بالکل ناجائز تھے۔ کیونکہ اول تو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے خود ایک فتویٰ جاری کیا تھا، جس کے تحت ایران نے جوہری اسلحہ نہ بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ ان کا نظریہ تھا کہ عوامی تباہی کے اسلحے کا استعمال غیر اسلامی ہے۔ دوسرے، ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان ایک معاہدہ پہلے ہی ہو چکا تھا، جس کے تحت ایران نے اپنی جوہری تنصیبات کی نگرانی کی اجازت دے دی تھی اور یہ تنصیبات اس ایجنسی کی نگرانی میں آ گئی تھیں۔ اسی معاہدے کے تحت ایران نے این پی ٹی پر دستخط کر دیے تھے۔
اس معاہدے کو ٹرمپ نے توڑ دیا تھا، کیونکہ آئی اے ای اے نے امریکہ کے دباؤ میں آ کر یہ بیان دیا تھا کہ ایران خفیہ طور پر جوہری بم بنا چکا ہے، جس کی بعد میں نہ صرف اس ایجنسی نے تردید کی بلکہ امریکی خفیہ ایجنسی کی چیف نے بھی واضح کیا کہ ایران کے پاس جوہری بم نہیں ہے۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل تو عذر تلاش کر رہے تھے کہ کیسے ایران پر حملہ کیا جائے۔ ایران اور چند مغربی ممالک کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق پانچویں دور کی بات چیت چل رہی تھی اور امید تھی کہ چھٹے دور میں فریقین کے درمیان ایک باوقار معاہدہ ہو جائے گا۔ اسی بیچ اسرائیل نے F-35 لڑاکا طیارے سے، جو امریکہ کا دیا ہوا تھا، ایران پر زور دار حملہ کیا، جس میں پہلے دن اس کے چوٹی کے سائنسدان، ملٹری افسران، سیاست دان اور چند دیگر دانشور مارے گئے۔ دراصل اسرائیل کو امریکہ کا دیا ہوا یہ جہاز ابھی تک کسی دوسرے اتحادی کو نہیں دیا گیا تھا اور اس کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ جہاز رڈار پر نظر نہیں آتا۔ بہرحال، یہ حملہ غیرمتوقع اور غیر انسانی تھا۔ جب معاہدے کیلئے مذاکرات چل رہے ہوں تو کوئی مہذب ملک حملہ نہیں کرتا۔
اسرائیل میں جشن شروع ہو گیا، وہ سمجھ رہا تھا کہ ایران کے چوٹی کے لیڈران ختم ہو چکے ہیں، اب وہاں بغاوت ہو جائے گی اور امریکہ اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کر لے گا اور اسے وہاں بھی تیل و گیس پر ملکیت مل جائے گی۔ لیکن اتنے نقصانات کے باوجود، ایران کی فوجی طاقت محفوظ تھی اور وہاں کے عوام کا حوصلہ بلند تھا۔ وہاں کے سپریم لیڈر خامنہ ای کی طاقتور اور بااثر قیادت کی بدولت ایران نے راتوں رات ہر شعبے میں نئی قیادت تیار کر لی اور دوسرے ہی دن اپنے طاقتور میزائلوں اور ڈرونز سے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیا اور دس دن میں اسرائیل نے گھٹنے ٹیک دیے۔ وہ امریکہ سے براہ راست جنگ میں کودنے کیلئے گڑگڑایا۔ ایران نے تل ابیب اور تمام دوسرے علاقوں میں بموں کی بارش کر دی اور اسرائیل کی ایک تہائی زمین غزہ کی طرح ملبے میں تبدیل ہو گئی۔ تل ابیب کے علاوہ شمال میں حیفہ بندرگاہ، بن گورین ایئرپورٹ اور وسطی اسرائیل پر بھی ایران نے زوردار حملے کیے۔
امریکہ نے اسرائیلی لابی کے دباؤ کے پیش نظر ایران کے تین جوہری تنصیبات—فردو، نطنز اور اصفہان—پر اپنے سب سے طاقتور بنکر شکن بم سے حملہ کیا، جس سے ان تنصیبات کو نقصان تو پہنچا، لیکن پینٹاگون کی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق ایران کی جوہری تنصیبات کو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا۔ آئی اے ای اے سے مربوط جوہری ہتھیاروں کے ماہر کیلسی ڈیون پورٹ کے مطابق ایران نے اپنے افزودہ یورینیم کو دوسرے خفیہ مقامات پر منتقل کر دیا تھا۔ ایران نے اپنے عوام کو مطمئن کرنے کیلئے امریکی حملے کے جواب میں قطر کو بھروسے میں لے کر ’العدید‘ کے امریکی اڈے پر ہلکا حملہ کیا۔ اس حملے میں قریب 9 میزائل داغے گئے، جن میں سے 8 کو ہوا میں ہی مار گرایا گیا، اور ایک میزائل اس امریکی اڈے کے قریب گرا، لیکن اس سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔
ایسا کرکے ایران نے عقلمندی کا ثبوت دیا، کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اگر بڑے پیمانے پر خطرناک میزائلوں سے امریکی اڈے پر حملہ کیا گیا تو امریکہ اسی طرح کی فوجی کارروائی کرے گا جیسی اس نے عراق، افغانستان اور لیبیا میں کی تھی، جو کہ پوری طرح برباد ہو چکے ہیں۔ پھر بھی امریکہ اور اسرائیل دونوں اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں کہ ایران کے اندر برسوں جنگ لڑنے کی صلاحیت ہے اور وہاں کے عوام میں قربانی کا ایسا جذبہ ہے کہ وہ سر تو کٹا سکتے ہیں، مگر سر جھکا نہیں سکتے۔ یہ بات ایران نے عراق کے ساتھ 8 سال (1980-88) کی جنگ میں ثابت کر دی تھی۔ امید ہے کہ اسرائیل، جس کی معیشت تقریباً 90 فیصد برباد ہو چکی ہے، اب ایسی حماقت دوبارہ نہیں کرے گا۔ اس کی بربادی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں چالیس ہزار لوگوں نے معاوضہ کی درخواست دی ہے، پانچ لاکھ اسرائیلی ترکِ وطن کر چکے ہیں، پینتیس ہزار کمپنیاں بند ہو چکی ہیں اور صرف ایران سے جنگ میں اسرائیل کو پانچ کھرب ہندوستانی روپے کا خسارہ ہوا ہے، جس کی بھرپائی امریکہ اتنی آسانی سے نہیں کر سکتا۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ دراصل مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکہ اور اسرائیل کا منصوبہ کیا تھا اور وہ اس میں کہاں تک کامیاب ہوئے؟ اس سوال کا ایک لائن کا جواب یہ ہے کہ ان کا منصوبہ مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنا تھا اور اب وہ اس منصوبے میں پوری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ ایران اسرائیل کے خلاف جنگ میں صرف اسرائیل سے ہی نہیں لڑا، بلکہ اسے اسرائیل کے ساتھ ساتھ مغربی طاقتوں کا بھی مقابلہ کرنا پڑا۔ ایران کے جو راکٹ اور میزائل اسرائیل کی طرف چھوڑے گئے تھے، ان میں سے 70 فیصد مغربی ممالک—برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ—نے مار گرائے، لیکن باقی 30 فیصد جو اسرائیل پر گرے، انہوں نے وہاں تباہی مچا دی اور اس ملک کی تاریخ میں پہلی بار اسے جھکنا پڑا اور جنگ بندی کی اپیل کرنی پڑی۔ اب غزہ میں جنگ بندی کے مذاکرات قطر کی ثالثی میں چل رہے ہیں اور فریقین معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
حماس کے لوگ تمام بربادیوں، جانی و مالی نقصانات کے باوجود جس دلیری سے لڑ رہے ہیں، اسرائیل اس سے گھبرا گیا ہے اور وہ سمجھ چکا ہے کہ وہ حماس کو ختم نہیں کر سکتا۔ غزہ میں امریکہ کا منصوبہ تھا کہ وہاں کے شہریوں کو دوسرے ممالک میں منتقل کرکے ایک ’’ریزرو ٹ‘‘ بنایا جائے گا۔ اسرائیل پورے غزہ پر قبضے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ امریکہ سوچ رہا تھا کہ سارے خلیجی ممالک تو اس کے چنگل میں ہیں ہی، اور عراق و شام کو وہ پہلے ہی برباد کر چکا ہے، ایران میں بھی وہ رضا شاہ کے لڑکے کو بٹھا کر ایک کٹھ پتلی حکومت بنا لے گا۔ عملی طور پر مشرق وسطیٰ اس کے قبضے میں آ جائے گا، لیکن ایران-اسرائیل جنگ نے ان کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔ اس جنگ میں تمام خلیجی ممالک کے عوام نے آزادی کی ایک نئی روح پھونک دی ہے اور ان ممالک کے حکام کو شرمسار کر دیا ہے۔