عیسائیوں کے درمیان تثلیث کا عقیدہ!

0

ریاض فردوسی
اے اہلِ کتاب!اپنے دین میں حدسے نہ گزرواوراللہ تعالیٰ پرحق کے علاوہ کچھ نہ کہو، یقینامسیح عیسیٰ ابنِ مریم اللہ تعالیٰ کا رسول اوراس کاکلمہ ہے جواس نے مریم کی طرف القا کیااوراس کی طرف سے ایک روح ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ،اورمت کہوکہ تین ہیں،تم بازآجاؤ،یہی تمہارے لیے بہتر ہے، یقینااللہ تعالیٰ صرف ایک ہی معبودہے،وہ پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو،اُسی کا ہے جوبھی آسمانوں میں ہے اورجوبھی زمین میں ہے اوراللہ تعالیٰ ہی وکیل کافی ہے(سورہ الانساء۔ آیت۔ 171)
عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعظیم میں حد سے گزر گئے، اور انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہنا شروع کردیا اور یہ عقیدہ اپنا لیا کہ اللہ تین ہے یا تین میں سے ایک ہیں،باپ بیٹا اور روح القدس۔اس آیت میں تعظیم و تکریم میں حد سے تجاوز کرنے کو منع کیا گیا ہے، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وہ معتدل بات بتائی گئی ہے جو حقیقت کے عین مطابق ہے، یعنی وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے، اور اللہ نے ان کو اپنے کلمہ ’’کُن‘‘ سے باپ کے واسطے کے بغیر پیدا کیا تھا، اور ان کی روح براہ راست حضرت مریم علیہا السلام کے بطن میں بھیج دی تھی۔
عیسائی کس طرح گمراہ ہوئے؟
اصل میں لفظ ’’کلمہ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ مریم کی طرف کلمہ بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے حضرت مریم علیہا السلام کے رحم پر یہ فرمان نازل کیا کہ کسی مرد کے نطفہ سے سیراب ہوئے بغیر حمل کا استقرار قبول کر لے۔ عیسائیوں کو ابتدائً مسیح علیہ السلام کی پیدائش بے پدر کا یہی راز بتایا گیا تھا۔ مگر انہوں نے یونانی فلسفہ سے گمراہ ہو کر پہلے لفظ کلمہ کو ’’کلام‘‘ یا ’’نطق‘‘ (LOGOS۔یہ یونانی لفظ ہے۔یونانی زبان میں اس کے معنی (Word)لفظ کے ہیں،ابتداء میں کلام تھا۔ کلام اللہ کے ساتھ تھا اور کلام اللہ تھا۔بائیبل کے مطابق یہی ابتداء میں اللہ کے ساتھ تھا۔سب کچھ کلام کے وسیلے سے پیدا ہوا) کا ہم معنی سمجھ لیا،پھر اس کلام و نطق سے اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت کلام مراد لے لی۔پھر یہ قیاس قائم کیا کہ اللہ کی اس ذاتی صفت نے مریم علیہا السلام کے بطن میں داخل ہو کر وہ جسمانی صورت اختیار کی جو مسیح کی شکل میں ظاہر ہوئی۔
اس طرح عیسائیوں میں مسیح علیہ السلام کی الوہیت کا فاسد عقیدہ پیدا ہوا اور اس غلط تصور نے جڑ پکڑ لی کہ خدا نے خود اپنے آپ کو یا اپنی ازلی صفات میں سے نطق و کلام کی صفت کو مسیح کی شکل میں ظاہر کیا ہے۔یہاں خود مسیح کو خدا کی طرف سے ایک روحکہا گیا ہے، اور سورہ بقرہ میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ ہم نے پاک روح سے مسیح کی مدد کی۔ دونوں عبارتوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مسیح علیہ السلام کو وہ پاکیزہ روح عطا کی تھی جو بدی سے ناآشنا تھی۔ سراسر حقانیت اور راست بازی تھی، اور ازسر تا پا فضیلت اخلاق تھی۔ یہی تعریف سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی عیسائیوں کو بتائی گئی تھی۔ مگر انہوں نے اس میں بھی غلو کیا، رُوْحٌ مِّنَ اللہِ کو عین روح اللہ قرار دے لیا،اور روح القدس (Holy Ghost) کا مطلب یہ لیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اپنی روح مقدس تھی، جو مسیح کے اندر حلول کر گئی تھی۔ اس طرح اللہ اور مسیح کے ساتھ ایک تیسرا خدا روح القدس کو بنا ڈالا گیا۔ یہ عیسائیوں کا دوسرا زبردست غلو تھا، جس کی وجہ سے وہ گمراہی میں مبتلا ہوئے۔لطف یہ ہے کہ آج بھی انجیل متی میں یہ فقرہ موجود ہے کہــ ’’فرشتے نے اسے (یعنی یوسف نجار کو) خواب میں دکھائی دے کر کہا کہ اے یوسف ابن داؤد! اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر،کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے(باب 1،آیت 20)
حقیقت یہ ہے کہ عیسائی بیک وقت توحید کو بھی مانتے ہیں اور تثلیث کو بھی۔ مسیح علیہ السلام کے صریح اقوال جو اناجیل میں ملتے ہیں، ان کی بنا پر کوئی عیسائی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ خدا بس ایک ہی خدا ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ہے۔ ان کے لیے یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ توحید اصل دین ہے۔ مگر وہ جو ایک غلط فہمی ابتداء میں ان کو پیش آ گئی تھی کہ کلام اللہ نے مسیح کی شکل میں ظہور کیا اور روح اللہ نے اس میں حلول کیا، اس کی وجہ سے انہوں نے مسیح اور روح القدس کی الوہیت کو بھی خداوند عالم کی الوہیت کے ساتھ ماننا خواہ مخواہ اپنے اوپر لازم کر لیا۔ اس زبردستی کے التزام سے ان کے لیے یہ مسئلہ ایک ناقابل حل چیستان بن گیا کہ عقیدہ توحید کے باوجود عقیدہ تثلیث کو، اور عقیدہ تثلیث کے باوجود عقیدہ توحید کو کس طرح نباہیں۔ تقریباً 18 سو برس سے مسیح علماء اسی خود پیدا کردہ مشکل کو حل کرنے میں سر کھپا رہے ہیں۔ بیسیوں فرقے اسی کی مختلف تعبیرات پر بنے ہیں۔ اسی پر ایک گروہ نے دوسرے کی تکفیر کی ہے۔ اسی کے جھگڑوں میں کلیسا پر کلیسا الگ ہوتے چلے گئے۔ اسی پر ان کے سارے علم کلام کا زور صرف ہوا ہے۔ حالانکہ یہ مشکل نہ خدا نے پیدا کی تھی، نہ اس کے بھیجے ہوئے مسیح نے، اور نہ اس مشکل کا کوئی حل ممکن ہے کہ خدا تین بھی مانے جائیں اور پھر وحدانیت بھی برقرار رہے۔ اس مشکل کو صرف ان کے غلو نے پیدا کیا ہے اور اس کا بس یہی ایک حل ہے کہ وہ غلو سے باز آ جائیں، مسیح اور روح القدس کی الوہیت کا تخیل چھوڑ دیں، صرف اللہ کو الٰہ واحد تسلیم کر لیں، اور مسیح کو صرف اس کا پیغمبر قرار دیں، نہ کہ کسی طور پر شریک فی الالوہیت۔ بائیبل کے عہد جدید کی روایات اگر صحیح بھی ہوں تو ان سے (خصوصاً پہلی تین انجیلوں سے) زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے خدا اور بندوں کے تعلق کو باپ اور اولاد کے تعلق سے تشبیہ دی تھی اور ’’باپ‘‘ کا لفظ خدا کے لیے وہ محض مجاز اور استعارہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہ تنہا مسیح ہی کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ قدیم ترین زمانہ سے بنی اسرائیل خدا کے لیے باپ کا لفظ بولتے چلے آ رہے تھے اور اس کی بکثرت مثالیں بائیبل کے پرانے عہد نامہ میں موجود ہیں۔ مسیح نے یہ لفظ اپنی قوم کے محاورے کے مطابق ہی استعمال کیا تھا اور وہ خدا کو صرف اپنا باپ ہی نہیں بلکہ سب انسانوں کا باپ کہتے تھے۔ لیکن عیسائیوں نے یہاں پھر غلو سے کام لیا اور مسیح کو خدا کا اکلوتا بیٹا قرار دیا۔ ان کا عجیب و غریب نظریہ اس باب میں یہ ہے کہ چونکہ مسیح خدا کا مظہر ہے، اور اس کے کلمے اور اس کی روح کا جسدی ظہور ہے، اس لیے وہ خدا کا اکلوتا بیٹا ہے، اور خدا نے اپنے اکلوتے کو زمین پر اس لیے بھیجا کہ انسانوں کے گناہ اپنے سر لے کر صلیب پر چڑھ جائے اور اپنے خون سے انسان کے گناہ کا کفارہ ادا کرے۔ حالانکہ اس کا کوئی ثبوت خود مسیح علیہ السلام کے کسی قول سے وہ نہیں دے سکتے۔ یہ عقیدہ ان کے اپنے تخیلات کا آفریدہ ہے اور اس غلو کا نتیجہ ہے جس میں وہ اپنے پیغمبر کی عظیم الشان شخصیت سے متاثر ہو کر مبتلا ہو گئے۔اللہ تعالیٰ نے یہاں کفارہ کے عقیدے کی تردید نہیں کی ہے، کیونکہ عیسائیوں کے ہاں یہ کوئی مستقل عقیدہ نہیں ہے بلکہ مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دینے کا شاخسانہ اور اس سوال کی ایک صوفیانہ و فلسفیانہ توجیہ ہے کہ جب مسیح خدا کا اکلوتا تھا تو وہ صلیب پر کرچڑھ یہودیوں کے عقیدے کے مطابق لعنت کی موت کیوں مرا(توبہ استغفراللہ،یہاں صرف یہودیوں کے الفاظ کا ذکر ہے) لہٰذا اس عقیدے کی تردید آپ سے آپ ہو جاتی ہے،اگر مسیح کے ابن اللہ ہونے کی تردید کر دی جائے اور اس غلط فہمی کو دور کر دیا جائے کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر چڑھائے گئے تھے۔
تثلیث کو سمجھے؟
تثلیث Trinity:
خدا بیک وقت ایک اکائی جوہر بھی ہے اور اسی آن اپنی ذات یا وجود میں تین مختلف اقانیم بھی رکھتا ہے، بہت سادہ الفاظ میں یہ ایک تین میں اورتین ایک میں کاعقیدہ ہے۔
One in three and three in one روایتاً نصاری کے عقیدے کے مطابق ایک تین اقانیم مندرجہ ذیل ہے:خدا-باپ۔ خدا-بیٹا۔ خدا-روح القدس (معاذاللہ صدبار معاذ اللہ)
نصاریٰ کے عقیدہ کے مطابق جو خدا اپنے آپ کو صرف توحید کی شکل میں ظاہر کرتا رہا (کائنات کی ابتداء سے لیکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا میں پیدا ہونے سے قبل تک) اسی خدا نے اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام کے پیدائش کے بعد تین شکلوں (باپ، بیٹا، روح القدس) میں ظاہر کیا۔نصاریٰ کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ یہ تینوں اقانیم الٰہی عنصر سے بھرپور ہیں (All three are Divene) اور یہ کہ تینوں کا جوہر ایک ہے (All three are of the same substnse) اوراس کے باوجود کہ یہ تینوں برابری کے ساتھ عبادت کے مستحق ہیں (Three worship equally) تینوں الگ الگ خدا، یا دیوتا نہیں بلکہ ایک ہی ہیں۔
اب ہم سب سے پہلے یہودیت اور عیسائیت یعنی اہل کتاب کے یہاں متفق علیہ مقدس کتاب (اہل اسلام کے نزدیک محرف) بائبل میں ہی سب سے پہلے اس عقیدے کو تلاش کرنا چاہتے ہیں بائبل کے بڑے اور پہلے حصہ یعنی عہدنامہ قدیم میں کتاب تخلیق (Genesis) سے لے کر کتاب ملاکی (Malachi) تک ایک جگہ بھی عقیدہ تثلیث کا کوئی نام ونشان تک نہیں ملتا اور ویسے بھی یہود اپنے آپ کو ہمیشہ سے توحید کا علم بردار کہتے چلے آئے ہیں اور کیونکہ نصاریٰ یا کم سے کم عیسائیت کے اول دور کے نصاریٰ اور حواریین نسلاً یہود سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے یہ بات عقلاً اور قیاساً بھی صحیح معلوم ہوتی ہے کہ وہ لوگ بھی توحید ہی کے پرستار رہے ہونگے، اناجیل اربعہ کے مطالعے سے یہ حقیقت اور بھی واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے رفع الی السماء سے قبل کسی بھی ایک مقام پر توحید کے بجائے تثلیث کا اظہار کرتے ہوئے نظر نہیں آتے؛ بلکہ ہمیشہ توحید ہی کا اظہار کرتے ہیں اور اسی کی طرف بنی اسرائیل کو بلاتے ہیں۔ مثلاً انجیل متیّٰ باب 12 آیت 29-30 میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ اس طرح محفوظ ہیں:’’خدا تعالیٰ کے احکام میں سب سے پہلا حکم یہ ہے کہ اے بنی اسرائیل سنو! خدا وند ہمارا خدا صرف ایک ہی خدا ہے اور تم اپنے خداوند سے اپنے پورے دل اور اپنی پوری روح اور اپنی پوری جان اور دماغ سے پیار کرنا۔‘‘ اسی طرح انجیل یوحنا باب 14 آیت 44 میں عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ اس طرح محفوظ ہیں: ’’عیسیٰ علیہ السلام نے زور سے چلاکر کہا کہ وہ شخص جو مجھ میں یقین رکھتا ہے وہ مجھ میں یقین نہیں رکھتا؛ بلکہ اس ذات میں یقین رکھتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔میں اپنی طرف سے کچھ نہیں بولتا ہوں بلکہ اپنے آسمانی باپ (یعنی خدا کی طرف سے) بولتا ہوں جس نے مجھے بھیجا ہے۔‘‘ اسی انجیل یوحنا کے باب14 آیت 29 میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’باپ (خدا) میرے مقابلے میں بڑا ہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS