سید خالد حسین (سنگا پور)
مولوی ایک اسلامی خطاب ہے جس کے لغوی معنی مولیٰ والا یا خدا والا ہیں۔ یہ عربی زبان کے لفظ مولیٰ سے ماخوذ ہے جو اصلاً کسی شئے کے مالک کو کہا جاتا ہے۔ چونکہ اسلام کا تصور یہ ہے کہ مالک حقیقی اللہ ہی ہے، اس لیے مولوی کے لفظی معنی اللہ سے متعلق یا اللہ والے کے ہیں۔ عام تاثر کے بر عکس اکثر مولوی دین کا اچھا خاصا علم رکھنے والے، پڑھے لکھے اور شرعی مسائل سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ بیک وقت بزرگ شخصیت، عالم دین، فقیہہ، فاضل، پابند شریعت، متشرع نیز مشرقی علوم اور زبانوں کے معلم اور مدرس ہوتے ہیں۔
مفتی رفیق احمد بالاکوٹی دارالعلوم الاسلامیہ کراچی کے رسالے بینات میں لکھتے ہیں کہ دراصل مولوی، ملا اور مولانا کے الفاظ بالعموم اسلامی پیشوائوں کے لیے احترام و تعظیم کی غرض سے بولے جاتے تھے اور اب بھی شرفا کے یہاں تعظیم کے لیے ہی مستعمل ہیں۔ کسی عالم دین کے لیے احتراماً ’’مولانا‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ افغانستان، آزاد ریاستوں نیز ترکی تک میں ’’دینی عالم‘‘ کو ازراہِ احترام یا علمی فراوانی کی وجہ سے ’’ملا‘‘ یا ’’منلا‘‘ کہا جاتا تھا۔ پاکستان میں لفظ ’’علامہ‘‘ اسی کے مترادف استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح خدا ترس ماہر علم کے لیے فارسی بولنے والے خطوں میں ’’مولوی‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا رہا ہے اور یہ لفظ وہیں سے پاکستان اور بھارت میں بھی وارد ہوکر عام استعمال میں آیا، جیسے مولوی معنوی ، مولوی عبدالحق، مولوی محمد باقر، مولوی نذیر احمد، مولانا شبلی نعمانی، مولانا محمد علی جوہر، ملا محمد یعقوب اور منلا خسرو وغیرہ وغیرہ۔ مولانا اشر ف علی تھانوی فرماتے ہیں: ’’مولوی اسی کو کہتے ہیں جو مولیٰ والا ہو، یعنی علم دین بھی رکھتا ہو اور متقی بھی ہو، خوفِ خدا وغیرہ جیسے اخلاقِ حمیدہ رکھتا ہو۔‘‘ نیز وہ لکھتے ہیں:’’مولوی میں نسبت ہے مولیٰ کی طرف، یعنی مولیٰ والا۔‘‘
علما بیزاری:
الغرض یہ الفاظ اصطلاحی اعتبار سے ازراہِ احترام دین کے ماہر و مستند علما کے لیے ایجاد ہوئے اور استعمال ہوتے تھے، لیکن فی زمانہ مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے والا دین بیزار طبقہ، جو دین کو براہِ راست مطعون کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا، وہ علمائے دین سے تقدس واحترام کی چادر کھینچ کر اپنی مذہب بیزاری کی تسکین چاہتا ہے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسے علما جو اپنے کردار و عمل کی بنا پر باطل کی آنکھوں کا کانٹا بنتے چلے آرہے ہوں ہمیشہ سے باطل پرستوں کے نشانہ پر رہے ہیں اور ان کے خلاف مختلف قسم کے پروپیگنڈے، الزامات اور بے توقیری کے القابات عام کیے جاتے ہیں تاکہ عوام متنفر ہوکر ان سے دور ہو جائیں اور علما سے دوری دین سے دوری کا باعث ثابت ہوتا ہے۔ اس طرح دین بیزار طبقہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی ڈھونڈتا چلا آرہا ہے۔علما بیزاری کے ضمن میں دین بیزاری کا یہ تخم چونکہ برطانوی سامراج کا بویا ہوا ہے اس لیے انگریز سامراج کے کمیشن پر پلنے والی اس کی روحانی ذریت انگریز مخالف علما کو دہشت گرد قرار دے کر بدنام کرنا چاہتی ہے اور انہیں انگریز کا ایجنٹ بھی قرار دیتی ہے۔ پاکستان کے معروف دانشور، کالم نگار اور مصنف اوریا مقبول جان کے مطابق کچھ صدیوں قبل انگریز کی ہندوستان میں آمد سے پہلے ’’مولوی‘‘ لفظ معاشرے میں اس قدر عزت و توقیر کا حامل تھا کہ بڑے بڑے علماء و فضلاء اپنے نام کے ساتھ مولوی کا اضافہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔ لیکن شیرشاہ سوری کے بنائے ہوئے پیمائش زمین کے خوبصورت نظام کی بنیاد پر جب انگریز نے برصغیر ہند و پاک میں زمینوں کے ریکارڈ مرتب کرنا شروع کیے تو ان کے دماغ میں ایک طبقے سے شدید نفرت رچی بسی تھی اور وہ تھا اس سر زمین کا مولوی۔
انگریز کی اس طبقے سے نفرت کی بنیاد 1857کی جنگ آزادی میں پڑی جس کے سرخیل یہی مسجدوں کے مولوی تھے۔ 1803 میں دہلی کی جامع مسجد سے جہاد کے اعلان نے برصغیر کے مسلمانوں کو اس آخری معرکے کے لیے تیار کیا لیکن یہ تو گزشتہ پچاس سالوں کی وہ جدوجہد تھی جو مسجدوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر دین پڑھانے والے ان مسلمان علماء نے کی تھی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت ایسا واقعہ تھا جس نے انگریز کو برصغیر میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ ٹیپو سلطان کی موت کی خبر انگریز کے لئے اس قدر خوش کن تھی کہ آج بھی اسپین میں ایڈمبرا کے قلعہ میں موجود ٹیپو کی نوادرات کے ساتھ یہ تحریر درج ہے کہ اس کی موت پر پورے انگلستان میں جشن منایا گیا۔ اس کے بعد انگریز نے ساری توجہ مدرسوں کو بند کرنے، ان کو مسمار کرنے اور وہاں پر ہونے والے تدریسی کام پر پابندی لگانے پر مبذول کر دی۔
شاہ ولی اللہ کا خانوادہ برصغیر کا سب سے معتبر دینی خاندان سمجھا جاتا تھا۔اسی خاندان کے ایک سپوت، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، نے 1803میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتویٰ دیا اور برصغیر کو دارالحرب قرار دیا۔ یہی فتویٰ تھا جس کی بنیاد پر 1831 میں سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کی تحریک مسجدوں کی چٹائیوں سے اٹھی۔ سانحہ بالا کوٹ کے بعد یہ تحریک ختم نہ ہوئی بلکہ اس کی قیادت مولانا نصیرالدین دہلوی نے سنبھالی۔ 1840 میں ان کی وفات کے بعد مولانا ولایت علی عظیم آبادی اور ان کے بھائی عنایت علی عظیم آبادی نے اس کو زندہ رکھا۔ 1857کی جنگ آزادی میں یہی وہ جماعت تھی جس نے اپنے شاگردوں کی صورت میں ایک مزاحمتی فوج تیار کی۔ مولانا احمد شاہ مدراسی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا فضل حق خیرآبادی اور دیگر علماء کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے مولانا فضل حق خیرآبادی کی قیادت میں جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ 1857کی جنگ آزادی کی قیادت مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی کر رہے تھے۔ اس جنگ میں ہزاروں علماء کو پھانسیاں دی گئیں، توپ کے ساتھ باندھ کر اڑا دیا گیا اور کالا پانی بھیجا گیا لیکن ان کی تحریک زندہ جاوید رہی۔ 1864میں انبالہ سازش کیس میں مولانا جعفر تھانیسری، مولانا یحییٰ اور مولانا محمد شفیع کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ شوق شہادت کا یہ عالم کہ تینوں سجدہ شکر ادا کرتے رہے۔ انگریز ڈپٹی کمشنر نے ان سے کہا ’’ہم تم کو تمہاری مرغوب سزا شہادت نہیں دیں گے بلکہ تمہیں تمام زندگی کالا پانی میں کاٹنا ہو گی۔اس کے بعد یہ مشعل مستقل روشن رہتی ہے۔ 1863ء پٹنہ سازش، 1870مالوہ سازش، 1871انبالہ سازش، 1870 راج محل سازش اور ایسی بے شمار بغاوتیں برصغیر کے اس مولوی کے سینے کا تمغہ ہیں جو بوریہ نشین تھا۔
تضحیک کا نشانہ:انگریز جب ریونیو ریکارڈ مرتب کرنے لگا تو اس نے برصغیر اور خصوصاً پنجاب میں آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک باعزت کاشتکار اور دوسرے غیر کاشتکار۔ کاشتکاروں میں وہ اعلیٰ نسل نواب، چودھری، سردار، وڈیرے اور خان شامل تھے جنہوں نے انگریز سے وفاداری کے صلے میں زمینیں، جاگیریں اور جائیدادیں حاصل کی تھیں۔ جبکہ غیر کاشتکاروں میں محنت مزدوری سے رزق کمانے والے لوہار، ترکھان، جولاہے، موچی وغیرہ تھے۔ ان لوگوں کو عرف عام میں کمی یعنی کمترین کہہ کر پکارا جانے لگا۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں کمی کمین ایک عام لفظ ہے جو ہر متکبر زمیندار کے منہ پر ہوتا ہے۔ ریونیو ریکارڈ میں ایک ’’فہرست کمیاں‘‘ مرتب کی گئی جس میں لوہار، ترکھان، جولاہے اور موچی کے ساتھ مسلمانوں کی قیادت کے دینی طبقے مولوی کو بھی شامل کر دیا گیا اور پھر گاؤں میں جو تضحیک کمی کمینوں کے حصے میں آئی مولوی کو بھی اسی تضحیک کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس کے باوجود اس طبقے نے مسجد کی چٹائی سے دین کی مشعل تھامے رکھی۔
ہزاروں دیہاتوں میں یہ واحد پڑھا لکھا فرد ہوا کرتا تھا لیکن بڑے زمیندار جو جاہل اور ان پڑھ تھے یہ ان کی تذلیل سہتا، جوتیوں میں بٹھایا جاتا اور کٹائی پر مزدوری میں لگایا جاتا۔ مگر کمال ہے اس مرد باصفا کا کہ صبح فجر پر مسجد پہنچتا، چبوترے پر کھڑے ہو کر اذان دیتا، لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا، بچوں کے کان میں اذان دیتا، نکاح پڑھاتا اور اس ظالم چودھری کے مرنے پر اس کے لیے قرآن بھی پڑھتا اور دعا کے لیے ہاتھ بھی اٹھاتا۔ شہروں میں بھی مولوی کو مسجد کی ڈیوٹی تک محدود کر دیا گیا۔
آج معاشرے سے اس کا تعلق صرف تین مواقع پر ہوتا ہے: پیدائش کے وقت کان میں اذان دینے، شادی کے وقت نکاح خوانی، اور موت پر مرنے والے کا جنازہ اور دعائے مغفرت کرنے کے لیے۔ ملک بھر کی چھوٹی چھوٹی لاکھوں مساجد میں یہ مولوی ایک مزدور سے بھی کم تنخواہ پر امت کا سب سے اہم فریضہ یعنی اللہ کی جانب بلانا ادا کر رہے ہیں، بچوں کو قرآن بھی پڑھا رہے ہیں اور پنج گانہ نماز کی امامت بھی کر رہے ہیں۔ کبھی ایک سیکنڈ کے لیے بھی کسی مسجد میں نماز میں تاخیر اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ مولوی اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال پر ہیں۔ اس معاشرے نے جو فرض عین انہیں سونپا وہ انھوں نے معاشرے کے ہر شعبے سے زیادہ حسن و خوبی اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا۔
اس سب کے بدلے میں انگریز کے اس تخلیق کردہ معاشرے نے مولوی کو کیا دیا۔ وہ قرآن جس کی تعلیم کو اللہ نے سب سے بہتر تعلیم قرار دیا اور رسول اکرم ؐ نے ان معلموں اور طالب علموں کو افضل ترین قرار دیا ، مگر آج اس کا طالب جو اس راستے پر نکلتا ہے وہ شام کو لوگوں کے دروازوں پر دستک دے کر کھانا اکٹھا کرتا ہے اور پھر جو روکھی سوکھی مل جائے اسے نوشِ جاں کرتا ہے۔ عالیشان کوٹھیوں میں رہنے والے اپنے بچوں کو انگریزی، فزکس، کیمسٹری کے لیے ہزاروں روپے ماہانہ دے کر بہترین استاد کا بندوبست کرتے ہیں۔ لیکن قرآن پڑھانے کے لیے انہیں ایسا مولوی چاہیے جو دو وقت روٹی لے کر اور زیادہ سے زیادہ عید پر ایک جوڑا لے کر خوش ہو جائے۔ جنھیں اپنے سگے ماں باپ کو موت کے بعد نہلانا نہیں آتا، اپنے باپ یا ماں کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے مغفرت کی دعا کے دو حرف پڑھنے نہیں آتے وہ مولوی کا تمسخر اڑاتے ہیں اور اسے تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔
وہ اگر سرکار کی کسی مسجد میں ملازم ہوا تو اس کی عزت و توقیر بھی پاؤں تلے روند دی جاتی ہے تو کبھی اوقاف کے افسر ان کو ہاتھ باندھ کر کھڑا دیتے ہیں تو دوسری جانب کسی انگریز فوجی یونٹ کے کرنل نے بلا کر کہا ’’او مولوی تمہیں سمجھ میں نہیں آتی یہ تم کیا قرآن کے الٹے سیدھے معانی نکالتے رہتے ہو۔ انسان کے بچے بن جاؤ ورنہ کوارٹر گارڈ بھی بند کر دوں گا‘‘۔ تمسخر، تضحیک، ذلت، لطیفے بازی سب اس مولوی کا مقدر تھی، اور اب بھی ہے۔ اب تو اگر کوئی اس حلیے کا شخص کسی چیک پوسٹ پر آ جائے تو دہشت گردی کے شبہ میں تلاشی کے عذاب سے بھی گزرتا ہے لیکن یہ اللہ کا بندہ اس معاشرے کی تمام تر ذلت و رسوائی کے باوجود پانچ وقت اللہ کی بڑائی اور سید الانبیاء کی رسالت کا اعلان کرتا رہا اور موجودہ دور کی پر آشوبی میں دین کی اگر کوئی علامت ہے تو اس بوسیدہ سی مسجد کے چھوٹے سے کوارٹر میں رہنے والا مولوی۔اسلام صرف مولوی کا نہیں، ہم سب کا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز صرف مولوی سے نہیں پوچھے گا کہ تم نے دین کا علم حاصل کرنے اور پھیلانے میں اپنی ذمہ داری نبھائی یا نہیں۔ یہ سوال ہر مسلمان سے ہو گا، اس مسلمان سے بھی جو اپنے آپ کو مسلمان کہلواتا ہے لیکن مسلمان بنتا نہیں اور اس سے بھی جو مسجد میں چندہ دے کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ دین کا فرض ادا ہو گیا۔ گزشتہ دو سو سال سے انگریز نے مولوی کے تعلق سے جو رویہ اختیار کیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں مولوی تمسخر کا نشانہ بن گیا ہے اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مولوی کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلایا جائے اور اس کی عزت و توقیر کو بحال کیا جائے۔ مولوی کا احترام اور تعظیم ہم سب پر واجب ہے اور اس کی فلاح و بہبود اور باعزت روزگار کی ذمہ داری میری، آپ کی اور امت کے ہر فرد کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ بوجھ اور نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین