پارلیمانی جمہوریت کا وقار

0

پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس کارکردگی اورپروڈکٹیوٹی کے لحاظ سے جتنا مایوس کن رہا، اس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، حالانکہ مثبت بات یہ رہی کہ آئین کو اپنانے کی 75 ویں سالگرہ پر دونوں ایوانوں لوک سبھا اورراجیہ سبھا میں بحث ہوئی ، جس میں سیاست کے ساتھ ساتھ بہت سے اہم مسائل اٹھائے گئے ۔ پروڈکٹیوٹی کی بات کی جائے ، تو لوک سبھا میں تقریبا 65گھنٹے برباد ہوگئے ، ایوان بالا کا تو اوربھی برا حال رہا ، وہاں صرف 43گھنٹے ہی کارروائی چلی، جبکہ اسے 120گھنٹے تک چلانا تھا۔یہ معمولی بات نہیں ہے کہ 25نومبر سے شروع ہوئے سرمائی اجلاس میں لوک سبھا میں 20اورراجیہ سبھا میں 19سیشن ہوئے اور کام صرف 9دن کے برابر ہوئے ۔جتنے بل لسٹیڈ تھے ، ہنگامہ کی وجہ سے نہ تو سبھی پیش ہوسکے اورنہ منظور ہوسکے ۔پچھلے اجلاس میں سرکار نے وقف ترمیمی بل کو متعارف کرایا تھا ، تو اس بار ’ون نیشن ون الیکشن ‘ بل اور دونوں بل جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیئے گئے ۔کام سے زیادہ اجلا س میں احتجاج ، مظاہرے اورہنگامے ہوئے۔ہنگامے کی وجہ سے دونوں ایوانوں کی کارروائی ملتوی پہ ملتوی ہوتی رہی اورآخر میں ایک بہت ہی ناخوشگوار واقعہ دھکامکی کے ساتھ اختتام پذیر بھی ہوگئی، جس میں 2ممبران پارلیمنٹ زخمی ہوئے ۔اس واقعہ سے پورے ملک کا سرشرم سے جھک گیا، کیونکہ عام آدمی پارلیمنٹ کے پورے احاطے میں ارکان سے اس کا تصور تک نہیں کرسکتا۔اس واقعہ کی وجہ سے لوک سبھا اسپیکر کو ارکان کو وارننگ کے ساتھ پارلیمنٹ کے احاطے میں احتجاج ومظاہرے پر روک لگانی پڑی ۔اس بار 2پارلیمانی روایات بھی ٹوٹیں ، ایک تو اسپیکر نے اجلاس کے اختتام پر روایتی تقریر نہیں کی ، دوسرے اپوزیشن ارکان اسپیکر کی روایتی ٹی پارٹی میں شریک نہیں ہوئے ۔ اس طرح اجلاس سے ارکان تلخی کے ساتھ رخصت ہوئے، جو مستقبل کیلئے صحیح نہیں ہے ۔

سرمائی اجلاس کاپہلا ہفتہ کافی ہنگامہ خیز رہا ، دوسرے ہفتہ میں کوششوں کے بعد کچھ امید کی کرن نظر آئی تھی،لیکن لوک سبھا میںاڈانی اورسورس کے معاملے نے اور راجیہ سبھا میں چیئرمین جگدیپ دھن کھڑ کے خلاف تحریک عدم اعتماد نے پورا ماحول ہی خراب کردیا ۔رہی سہی کسر ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر معاملہ کے تنازع نے پوری کردی ۔اس طرح مسلسل شور شرابہ کا ماحول بنتارہا اورکارروائی متاثر ہوتی رہی۔ اس طرح کے شورو ہنگامے نہ توملک کیلئے صحیح ہیں اورنہ پارلیمانی جمہوریت کیلئے ، لیکن ادھر کئی برسوں سے ایسے ہی حالات دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ ہنگامہ بھی ایک طرح سے پارلیمانی روایت بنتی جارہی ہے کہ اس کے بغیر کسی اجلاس کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتاہے پارلیمنٹ میں کام کم اورہنگامہ زیادہ ہورہاہے ، حالانکہ اجلاس سے قبل روایتی کل جماعتی میٹنگ کرکے ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ، لیکن دیکھا یہ جاتاہے کہ حکومت اپنے ایجنڈے اورحساب سے چلتی ہے اوراپوزیشن اپنے ایجنڈے اور حساب سے ۔ اجلاس ٹھیک سے چلے ، وہ جذبہ اور نیت کم نظر آتی ہے ۔لوگ اس صورت حال کیلئے حکمراں اور اپوزیشن میں سے کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے ، وہ صرف تماشا دیکھتے رہتے ہیں ۔ہاں سرکار ، اپوزیشن اور سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو مورد الزام ضرور ٹھہراتی ہیں۔ جوابدہی کے فقدان کی وجہ سے ہر اجلاس میں ہنگامے ہورہے ہیں۔کوئی بھی معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھادیا جاتاہے اوراہم ایشوز اوربل پیچھے چلے جاتے ہیں۔بلوں پر ٹھیک سے بحث نہیں ہوپاتی اوروہ پاس ہوجاتے ہیں ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کوئی بھی نہ تو پارلیمنٹ کی خراب کارکردگی سے سبق حاصل کرتا ہے اورنہ پیچھے مڑکردیکھنے کے بعد آگے اصلاح کی کوشش کرتا ہے تاکہ کارروائی ٹھیک سے چل سکے ۔

پارلیمنٹ کے ایک ایک ایوان کے 60-70گھنٹے برباد ہونا بہت بڑی بات ہے۔یہ صرف گھنٹے برباد نہیں ہوتے، بلکہ اجلاس پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے بھی برباد ہوتے ہیں، کیونکہ ان پیسوں کا صحیح استعمال نہیں ہوپاتا ۔سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا ہم صرف ہنگامہ کرنے پر کروڑوں روپے برباد کررہے ہیں ؟ شوروہنگامہ تو لگارہتاہے ،پارلیمنٹ میں کام بھی ہونا چاہئے۔یہ تمام ارکان پارلیمنٹ کی انفرادی اوراجتماعی ذمہ داری ہونی چاہئے ، بلکہ جوابدہی بھی ہونی چاہئے ، ورنہ پارلیمانی جمہوریت خطرے میں پڑجائے گی ۔اس کا وقارمجروح نہیں ہوناچاہئے ۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS