دنیا کی ترقی اور بقا کا دارومدار مضبوط معیشت پرمنحصر : مولانا محمد نعمان رضا علیمی

0

مولانا محمد نعمان رضا علیمی

دنیا کی ترقی اور بقا کا دارومدار مضبوط اور منصفانہ معیشت پر ہے۔ معیشت کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی اور ترقی کی بنیاد ہوتی ہے، جو نہ صرف کسی قوم کی طاقت اور خوشحالی کی عکاسی کرتی ہے بلکہ اس کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ آج کے دور میں معیشت کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے، کیونکہ زندگی کے ہر پہلو، چاہے وہ تعلیم ہو، صحت ہو یا روزگار، معیشت کے اردگرد گھومتا ہے۔ ایک تاریخی مثال سے کہا جا سکتا ہے کہ جب کسی ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے، تو وہ دنیا کے نقشے پر طاقتور حیثیت حاصل کرتا ہے، جیسے چین اور امریکہ کی مثال۔معیشت کی یہ کشتی ہر طبقے کو اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے، چاہے وہ غریب ہو، متوسط ہو یا رئیس۔ غریب طبقہ اپنی بنیادی ضروریات کے لئے تگ و دو کرتا ہے، متوسط طبقہ معاشی دباؤ میں زندگی کی گاڑی کھینچتا ہے، اور رئیس طبقہ اپنی دولت کے سہارے معاشرے میں اثر و رسوخ قائم رکھتا ہے۔

آج کے عالمی حالات، مہنگائی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، اور معاشرتی ناہمواری نے ہر طبقے کو مختلف انداز میں متاثر کیا ہے۔ ایسے میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ان تینوں طبقات کی حالت، ان کے مسائل اور ان کے حل پر سنجیدہ گفتگو کی جائے۔ اس مضمون میں ہم ان پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے تاکہ معیشت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھتے ہوئے ایک متوازن اور منصفانہ نظام کی تشکیل ممکن ہو سکے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر قوموں کی ترقی اور خوشحالی کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔غریب طبقہ کسی بھی معیشت کا سب سے حساس اور کمزور پہلو ہوتا ہے۔ یہ طبقہ اپنی روزمرہ زندگی کی ضروریات پوری کرنے میں بھی شدید مشکلات کا شکار ہے۔ تعلیم، صحت، اور روزگار جیسے بنیادی حقوق ان کے لیے ناقابل حصول خواب بن چکے ہیں۔ عالمی بینک کی 2024کی رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں تقریباً 10 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ غربت ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ہندوستان میں غربت کی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔ نیشنل اسٹیٹسٹکس آفس (NSO) کے اعداد و شمار کے مطابق، بھارت میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد تقریباً 22کروڑ ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے ان لوگوں کی حالت مزید خراب کر دی ہے۔ دیہی علاقوں میں بنیادی سہولیات، جیسے صاف پانی، صحت کے مراکز، اور مناسب تعلیم کا فقدان غربت کی وجوہات میں شامل ہیں۔

یہ حالات صرف حکومتی پالیسیوں کی ناکامی کو نہیں بلکہ سماج میں موجود غیر منصفانہ وسائل کی تقسیم کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ غربت صرف ایک عددی مسئلہ نہیں بلکہ یہ انسانی زندگی کے وقار اور حقوق کے ساتھ جڑا ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے دیہی اور شہری علاقوں میں غربت کے اثرات کو مختلف انداز سے ظاہر کیا ہے۔ دیہی علاقوں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان غربت کے مسائل کو مزید بڑھا رہا ہے، جس کے سبب غریب طبقہ شدید مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔

متوسط طبقہ کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہلاتا ہے، کیونکہ یہ طبقہ سماجی اور اقتصادی نظام کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، تنخواہوں میں جمود، اور روزمرہ اخراجات میں اضافے نے اس طبقے کی زندگی کو سخت دباؤ میں ڈال دیا ہے۔بھارت میں متوسط طبقے کی حالت خاصی متاثر کن ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، ملک کی تقریباً 30فیصد آبادی متوسط طبقے پر مشتمل ہے، لیکن یہ طبقہ نہ تو حکومتی مراعات کے دائرے میں آتا ہے اور نہ ہی رئیس طبقے جیسی آسائشیں رکھتا ہے۔ یہ طبقہ اپنی محدود آمدنی میں بچوں کی تعلیم، صحت کے اخراجات، اور روزمرہ ضروریات پوری کرنے کی جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ دیگر مسائل کے ساتھ، گھریلو قرضوں کا بوجھ بھی متوسط طبقے پر شدید اثر ڈال رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2024 تک بھارت میں گھریلو قرضوں کا تناسب 35فیصد تک بڑھ چکا تھا، جو متوسط طبقے کی مالی مشکلات کا عکاس ہے۔ یہ طبقہ اپنے خوابوں اور ضروریات کے درمیان ایک نازک توازن قائم کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اس صورتحال میں اگر متوسط طبقہ اپنے روزمرہ اخراجات میں کمی لانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے لئے بہت سی سماجی سہولتوں کی کمی بھی ہوتی ہے۔رئیس طبقہ کسی بھی معیشت میں وسائل کا سب سے بڑا حصہ اپنے قبضے میں رکھتا ہے اور اس کی زندگی بظاہر آسائش اور آرام سے بھری ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ یہ طبقہ نہ صرف ملکی معیشت پر اثرانداز ہوتا ہے بلکہ اس کی سرگرمیاں عالمی اقتصادی نظام میں بھی گہرے اثرات ڈالتی ہیں۔ عالمی ادارہ آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا کے ۱ ؍فیصد رئیس طبقے کے پاس دنیا کی مجموعی دولت کا ۴۵؍ فیصد حصہ موجود ہے۔بھارت میں بھی رئیس طبقہ ملکی معیشت کے اہم شعبوں میں غالب ہے۔ فوربس کی 2024کی رپورٹ کے مطابق، بھارت میں ارب پتی افراد کی تعداد 169تک پہنچ چکی ہے، جن کی مجموعی دولت 675ارب ڈالر سے زائد ہے۔ یہ طبقہ اپنی سرمایہ کاری، صنعتوں اور کارپوریٹ نیٹ ورکس کے ذریعہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر معیشت کو کنٹرول کرتا ہے۔ تاہم اس دولت کی غیر منصفانہ تقسیم معاشرتی ناہمواری کو جنم دیتی ہے، جہاں ایک طرف یہ طبقہ اپنی دولت کو مزید بڑھانے میں مصروف ہے، وہیں دوسری طرف غریب اور متوسط طبقات بنیادی ضروریات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔رئیس طبقے کی مالی سرگرمیاں اکثر معیشت میں مثبت اثر ڈال سکتی ہیں، لیکن ان کا زیادہ تر فائدہ انہی کے دائرے میں محدود رہتا ہے۔ ایسی صورتحال میں معیشت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ یہ طبقہ اپنی دولت کو سماجی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں لگانے کے لئے کردار ادا کرے۔

معیشت کسی بھی قوم کی ترقی، استحکام اور خوشحالی کی اساس ہے، لیکن اس کا حقیقی مقصد تب ہی پورا ہوتا ہے جب وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو اور تمام طبقات کو برابری کے مواقع فراہم ہوں۔ آج کا دور غربت، متوسط طبقے کے معاشی دباؤ، اور رئیس طبقے کی غیر متوازن دولت کے مسائل سے عبارت ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ حکومتیں ایسی پالیسیاں مرتب کریں جو سماجی انصاف کو فروغ دیں اور وسائل کی تقسیم کو مساوی بنائیں۔ یہ وقت صرف اقتصادی ترقی کے اعداد و شمار کو بڑھانے کا نہیں، بلکہ انسانی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کا ہے۔ غرباکے لیے بنیادی ضروریات کی فراہمی، متوسط طبقے کے مالی بوجھ کو کم کرنا اور رئیس طبقے کو سماجی بہبود میں شامل کرنا معیشت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لئے ناگزیر ہے۔ جب تک معیشت کی کشتی تمام طبقات کو ساتھ لے کر نہ چلے، ترقی کے خواب ادھورے رہیں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ایک خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرے کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS