پروفیسر اسلم جمشید پوری
آج ہندوستان میں کھودنے کا عمل جاری ہے اور یہ پتہ لگایا جا رہا ہے کہ کس مسجد اور درگاہ کے نیچے کون سا مندر ہے یا کس کا جنم استھان۔ 1992 میں جب بابری مسجد انہدام کا معاملہ وقوع پذیر ہوا تو اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت نے صبر کر لیا تھا کہ اس ملک کے سیکولر کردار کو کچھ لوگوں نے متزلزل کر دیا ہے۔یہ لوگ ملک کی آبادی میں مٹھی بھر کی تعداد میں تھے۔ابھی اس ملک میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو بابری مسجد کے انہدام کو اس سیکولر ملک کے لیے خطرے کی علامت مانتے ہیں۔دراصل مسلمانوں سے نفرت کا جو بیج1992 کے بعد بویا گیا، اس نے آہستہ آہستہ اکثریتوں کے ذہن و دل کی زمین میں جو کونپلیں کھلائیں،وہ 20-25سال میں ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گئیں۔
ہندو-مسلم جو ایک زمانے سے اس ملک میں شیر و شکر ہو کر رہتے آئے تھے۔دونوں کی زبان، لباس، عبادت کے طریقے بہت کچھ الگ تھا مگر دونوں ایک دوسرے میں ضم ہوکر رہتے تھے۔ہندوستان کی ہم آہنگی اورقو می یکجہتی دنیا بھر میں مشہور تھی،بلکہ دنیا میں ہندوستان کی تکثیریت میں اتحاد کی مثال دی جاتی تھی۔کثرت میں وحدت کہیں پائی جاتی تھی تو وہ ہندوستان تھا۔آج ہندوستان کو کیا ہوگیا ہے؟ اسے کس کی نظر لگ گئی ہے؟ اب کوئی اس کی یکجہتی کی مثال کیوں نہیں دیتا؟ اس کے اتحاد کو کیا ہو گیا ہے؟ یہ پارہ پارہ کیوں ہو رہا ہے؟ ہندو مسلمانوں میں دوری کیوں محسوس ہونے لگی ہے؟ آج مسلمان خود کو تنہا کیوں محسوس کر رہا ہے؟ کیا ہمارے پرکھوں نے اس ملک کا آئین سیکولر رکھ کر کوئی غلطی کی تھی؟ کیاان مجاہدین آزادی کا یہی خواب تھا ؟ یہ جدید ہندوستان کس سمت جا رہا ہے ؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ ماحول کس نے بنایا ہے؟ آئیں ان سوالات کا جواب تلاش کریں۔
آج پورے ملک میں خوف و دہشت کا ماحول ہے۔ اقلیتوں کے ایک مخصوص طبقے کی مذہبی شناخت اور آزادی محصور ہوتی جارہی ہے۔داڑھی، ٹوپی،مسجد، مدرسے، درگاہیں، عیدگاہیں، قبرستان، لائوڈاسپیکر، اذان، تبلیغ، اوقاف ملک کی اکثریت کی نظر میں کیوں مشکوک ہوتی جارہی ہیں۔ ملک پر گزشتہ ایک دہائی سے ایک مخصوص سیاسی جماعت کی حکمرانی ہے۔ملک کا سیاسی اور سماجی ماحول ایک دن میں نہیں بدلا ہے،بلکہ ایک جماعت کے ذریعہ کئی دہائیوں سے اسے خراب کرنے کی عملی کوشش جاری ہے۔یہ سب سیاست کے لیے اور سیاست کے ذریعہ ہورہا ہے،اس کے ذریعہ ایک قوم کو خوش کیا جارہا ہے۔اس کے لیے خواہ ملک کا وقار دائو پر لگے یا ملک کے آئین کا کچھ بھی ہو،اس کی پروا انہیں نہیں ہے۔ سیاست نے آج بہت خطرناک صورت اختیار کر لی ہے۔ایک پارٹی کی تعریف کرنا ہی حب الوطنی ہو گئی ہے اور اس کی مخالفت یا برائی حب الوطنی کے منافی ہوگئی ہے۔دراصل انگریزوں کی پا لیسی ’’ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ‘‘ کو ایک سیاسی پارٹی نے اپنا لیا ہے۔ اس ملک میں جس قدر ہندو مسلمان کی نفرت میں اضافہ ہوگا، اس کو اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ملک کا امن وامان ختم ہو تو ہوجائے۔ہندوستان کی دنیا میںبدنامی ہو تو کوئی بات نہیں۔ کوئی بے گھر ہوتا ہو تو انہیں کوئی فرق نہیں۔خاص کر جب کسی ریاست میں یا قومی انتخاب کا مو قع ہو تب اس ریاست یا پورے ملک میں ایسی ہی فضا بنائی جاتی ہے تا کہ انہیں اس کا فائدہ ملے۔ کبھی تین طلاق کے مسئلے کو ہوا دی جاتی ہے۔مساجد اور مدارس میں اذان کی آواز پر پابندی لگائی جاتی ہے۔حجاب پر تکرار ہوتی ہے۔ذبیحہ اور غیر ذبیحہ کی بحث چھیڑی جاتی ہے۔کسی اور جانور کے گوشت کو ممنوع جانور کا بتا یا جاتا ہے۔ٹھیلے،خوانچے اورکھانے پینے کے چھوٹے ہوٹلس پر نام لکھنے کا فرمان جاری ہوتا ہے۔خود ہی جج بن کر نام نہاد ملزم کے گھر اور دکان پر بلڈوزر چلایا جاتا ہے۔مسلمانوں کو کسی واقعہ یا معاملے میں زبر دستی ملوث کرکے ان کی گرفتاری کی جاتی ہے اور تاوان( نقصان کی بھر پائی)وصولا جا تاہے۔ دوسری طرف ہاشم پورہ اور ملیانہ، بابری مسجد انہدام،گجرات فساد کے مجرمین کو رہا کر دیا جاتا ہے۔
ایسے میںایک قوم کے خلاف ماحول بنا یا جاتا ہے تاکہ اس کا بر عکس اثر ہو۔دوسری طرف پولرائزریشن ہواور انہیں یکطرفہ ووٹ ملے۔اس کے لیے کچھ بھی کرنا ہو تو کر سکتے ہیں۔خواہ مسلمانوں یا کسی اور قوم کے ووٹ کم کرنے ہوں یا ووٹ ڈالنے سے ایک قوم کے لوگوں کو روکنا پڑے۔ووٹرس میں پولیس کا خوف طاری کرنا ہو۔ووٹنگ کو سست رفتار کرنا اور لیٹ کرنا،ایک مخصوص جماعت کا حربہ ہے۔ساتھ ہی وہ کچھ بھی بولیں سب معاف۔مجھے اکبر الٰہ آبادی کا ایک شعر یاد آرہا ہے:
ہم آہ بھی کرتے ہیںتو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہو تا
ایک مخصوص سیاسی جماعت کے کئی اہم رہنمائوں نے ہندو قوم کو ایک کرنے کے لیے ’’ بٹیں گے تو کٹیں گے‘‘ جیسا نعرہ دیا جو انتخابی فضا میں خوب مشہور ہوا۔ایسا ہی کوئی نعرہ اگر کسی مسلم رہنما نے دیا ہوتا تو وہ سلاخوں کے پیچھے ہو تا اور اس کی ضمانت بھی نہیں ہوتی،اسے ملک کا غدار ثابت کر دیا جاتا،مگر بی جے پی کے جن لیڈروں نے یہ نعرہ دیا تھا، اس کا کچھ نہیں بگڑا،بلکہ اس کی مقبو لیت میں اضافہ ہوا۔الیکشن کمیشن آف انڈیا بھی خاموش رہا۔ایک ہی ملک میںدو معیار چہ معنی دارد؟
اب ایک نیا شگوفہ کھلاہے،نہیں کھلایا گیا ہے۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد یہ مانا جا رہا تھا کہ ملک کی اکثریت کی عقیدت رام جی کی جائے پیدائش لینے کے بعد سکون سے بیٹھ جائے گی۔مگر ایسا نہیں ہوا۔بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ پر ملک کی اکثریتی آبادی نے اپنا دعویٰ ٹھوک دیا۔ایک پارٹی کو اس کا فائدہ ملتا رہا۔وقت گزرتا رہا اور ملک میں نفرت کا زہر پھیلتا رہا۔2014کے بعد تو ان واقعات نے یکے بعد دیگرے ہندوستان کی ہر مشہور مسجد پرمندر ہو نے کا دعویٰ کردیا۔ سنبھل کی جامع مسجد، بدایوں کی مسجد،جونپور کی تاریخی اٹالہ مسجد،دہلی کی جامع مسجد،مدھیہ پردیش کی کمال مولیٰ مسجد،اجمیر کی مسجد،عالم گیر مسجد پر مندر ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔حد تو یہ ہوگئی کہ دلّی کا لال قلعہ،آگرہ کا تاج محل اور اجمیر کی درگاہ ِ چشتیہ پر بھی احمقانہ دعوے کیے جا رہے ہیں۔ان کے نیچے مندر ہونے کا گمان ہے۔ایک غیر مسلم خاتون نے ایک میڈیا والے کو یہ جواب دیا کہ یہ سب سیاست ہے۔جب مسجدوں کی کھدائی کا حکم ہو اور ان کے نیچے اگر مندر کے باقیات ملتے ہیں تو ہندوستان کے بہت سے منادر کی کھدائی ہوگی تو بودھ مذہب کے باقیات ملیں گے۔ابھی ابھی یہ خبر آئی ہے کہ سادھوی پراچی نے ایک پروگرام میں میڈیا کے ذریعہ سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ دیوبند کی بھی کھدائی ہو،اگر دیو بند کی کھدائی ہوتی ہے تو وہاں بھی مندر اور مندروں کے باقیات نکلیں گے۔
اس تعلق سے جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں ایک اپیل داخل کر کے یہ مطالبہ کیا ہے کہ 1991 کے تحفظ مذاہب قانون کو نافذ کرتے ہوئے اسے یقینی بنایا جائے۔ سپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ،جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل ایک سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو 12دسمبر میں جمعیۃ علماء ہند کی درخواست پر فیصلہ لے گی۔گیان واپی مسجد اور سنبھل کی جامع مسجد کے مسلم فریقین نے بھی سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔سب پر 12دسمبر میں عدالت عظمیٰ میں سماعت ہو گی۔ادھر جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر نے ایک پریس کانفرنس کر کے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ ملک کی عدالتیں بے بنیاد درخواستوں کو مسترد کریں اور ملک میں قومی ہم آہنگی کو بنائے رکھیں۔
یہ معاملہ ضد اور ہٹ دھرمی کا نہیں ہے بلکہ ملک کی قومی ہم آہنگی اور یکجہتی برقرار رکھنے کا ہے۔اس ملک کا کوئی بھی نقصان ہم سب کا نقصان ہے۔کسی ملک کی شبیہ بننے میں برسوں لگتے ہیں لیکن ایک جھٹکے اور ایک معاملے میں بدل جاتی ہے۔کل تک بنگلہ دیش ہمارا دوست تھا،لیکن اب وہاں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم،مندروں کو توڑنے کے واقعات نے اس کی شبیہ کو نقصان پہنچا یا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہندوستان کی سیکولر امیج کو کوئی نقصان پہنچے۔شاہی عیدگاہ متھرا میں ابھی وشو ہندو پریشد کی ایک ریلی نکلی تھی۔اس موقع پر وہاں ایک متنازع ہورڈنگ لگائی گئی تھی۔ ہورڈنگ پر لکھا تھا ’’ ایودھیا تو جھانکی ہے،متھرا کاشی باقی ہے ‘‘۔ایک اور واقعہ ہوا کہ آگرہ کی اکھل بھارت ہندو مہا سبھا کی صدر میرا راٹھور، گوپال لڈو کو ہمراہ لیے عیدگاہ میں کرشن جنم بھومی پر جل ابھیشیک کرنے جارہی تھیں۔پولیس نے اسے روک دیا۔یہ معاملات ملک کی فضا کو بگاڑ سکتے ہیں۔ فرقہ پرستی کا زہر گھول سکتے ہیں۔کسی سر پھرے نے اس کا فائدہ اٹھا لیا تو؟ جنونی اور سرپھرے شخص کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔اس کا واضح مقصد صرف آگ بھڑکانا ہو تا ہے۔
ہمیں اپنے ملک کو ایسے عناصر سے پاک کرنا ہوگا، جو اس کی شبیہ بگاڑنا چاہتے ہیں،جو اس ملک کو دنیا کی نظروں میں گرانا چاہتے ہیں۔ہندو-مسلم میں 5 فیصد لوگ ایسے ہوں گے جنہیں پھلتا پھولتا یہ ملک اچھا نہ لگتا ہو۔جو ہر وقت ملک کا ماحول خراب کرنے کے لیے کوشاںرہتے ہیں۔ابھی بھی ملک کی آبادی کی اکثریت یعنی 95 فیصد لوگ امن کے خوگر ہیں۔ وہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں بھی امن و امان چاہتے ہیں۔ان کی نظر میں کل بھی ہندوستان امن کا پیغامبر تھا اور آج کے اس دور میں بھی ہندوستان دنیا میں امن چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں کسی ملک پر بغیر کسی ٹھوس وجہ کے حملہ کرنا نہیں ہے۔
لیکن اگر ہمیں کوئی آنکھ دکھاتا ہے تو اس کا جواب دیا جاتا ہے۔ اللہ کرے ملک کی یہ شبیہ ہمیشہ قائم رہے۔کوئی اندرونی یا بیرونی طاقت ہمیں منتشر نہ کر پائے اور ہماری قومی یکجہتی میں اضافہ ہو۔اور ہم مل کر اپنے ہر دشمن پاکستان ہو خواہ چین کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔فتح ہمارے قدم چومے۔یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم خاص کر ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی،بودھ سب میں اتحاد ہو گا۔