عباس دھالیوال
ایک وقت تھا کہ صحافت کی قدر و منزلت ہوا کرتی تھی، رائے عامہ بنانے میں میڈیا ایک فعال کردار ادا کیا کرتا تھا۔ اگر تین دہائی قبل کی بات کریں تو ان دنوں گنتی کے چند نیوز چینلس ہوا کرتے تھے، آج کل کی طرح نیوز چینلوں اور پورٹلس کی بھرمار نہیں تھی لیکن بات خبروں کے معیار کی کریں تو اس وقت نیوز چینلوں کے اینکر یا نیوز ریڈرس کا ایک وقار و معیار ہوا کرتا تھا ۔ ان کی طرف سے پیش کی جانے والی خبریں حقیقت پہ مبنی ہوا کرتی تھیں، وہ عوام کو سرکاری پالیسیوں میں پائی جانے والی خامیوں سے آگاہ کیا کرتے تھے اور لوگوں کے حقیقی مسائل کو سرکار تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ خیال کیے جاتے تھے یعنی نیوز چینل عوام اور سرکار کے درمیان ایک پل کا کام کیا کرتے تھے۔ جہاں نیوز چینلس سرکار کی فلاحی اسکیموں سے عوام کو فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتے تھے وہیں وہ عوام کو درپیش مشکلات کے بارے میں سرکار کو بتاتے تھے۔یوں بھی جمہوری نظام میں رائے عامہ بنانے میں ہمیشہ سے ہی میڈیا کی اہمیت رہی ہے۔ جمہوری ممالک میں صحافت کی قدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ صحافت کو جمہوری نظام کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے۔
آج جس دور میں ہم جی رہے ہیں، اس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ انٹرنیٹ سے چلنے والی مختلف ویب سائٹوں، یو ٹیوب چینلوں، واٹس ایپ اور فیس بک وغیرہ لوگوں تک معلومات پہنچانے کے اہم ذرائع بن چکے ہیں۔ ان ویب سائٹوں پر بہت سارا مواد اور ویڈیوز ڈالی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ڈالے جانے والے یہ سبھی نیوز آئٹمس ناظرین کے ذہن و دل پر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے سوشل میڈیا نے معاشرے میں بہت فعال کردار نبھاتے ہوئے ملک کی سیاست کو متاثر کیا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ہم نے محسوس کیا ہے کہ جہاں دیش کا مین اسٹریم میڈیا کسی خبر کو دینے سے ہچکچاتا ہے وہیں سوشل میڈیا پر کچھ فعال نیوز پورٹل حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر نشر ہونے والا بہت سارا مواد ایسا بھی ہوتا ہے جو فرضی اور فیک ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر نیوز چینلوں کا مقصد ملک کے لوگوں میں تفرقہ اور نفرت پھیلانا ہوتا ہے۔
خبروں کی کوریج کے تضاد کی بات کریں تو اس سلسلے میں ہم گزشتہ ہفتے کے ان دو واقعات کا ذکر کرنا چاہیں گے جو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی سرخیوں میں رہے۔ ایک تو لکھیم پور سانحہ ہے اور دوسرا شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان کا مقابلہ۔ آرین کو ایک ریو پارٹی میں مبینہ طور پر تفریحی مقاصد کے لیے منشیات کا استعمال کرنے پر گرفتار کیا گیا۔لکھیم پور واقعے میں مرکزی حکومت میں وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشر کے بیٹے آشیش مشر ملزم ہیں۔ ان دونوں واقعات کی مین اسٹریم میڈیا میں جس طرح کوریج ہوئی، اس پر ملک کے فعال لوگوں کے مختلف نظریات سامنے آ رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ میڈیا نے آرین خان کے کیس پر جتنی زیادہ توجہ دی، اس سے پریس کے ایجنڈے پر سوال اٹھنا لازم ہے۔ مختلف نیوز چینلوں نے آرین کے معاملے کی بھرپور کوریج کی۔ انہیں پولیس کی تحویل میں عمارتوں کے اندر اور باہر آتے جاتے دکھایا۔ ان کی ’گرفتاری کا پروانہ‘ ٹی وی اسکرینس پر دکھایا گیا۔ آرین کی گرفتاری کو ایک اینکر نے ’ریو پارٹی کا بے نقاب ہونا‘ قرار دیا جبکہ ایک اور اینکر نے مطالبہ کیا کہ ’بالی ووڈ اور منشیات کے درمیان تعلق‘ اب ختم ہونا چاہیے۔ ٹی وی چینلوں پر آئے مہمانوں نے آرین خان کے بارے میں غیر مصدقہ دعوے کیے جبکہ شاہ رخ خان اور ان کی اہلیہ گوری خان پر بری تربیت کے لیے تنقید کی گئی۔ سوشل میڈیا پر آرین خان کا نام بھی ٹرینڈ کرتا رہا۔ کچھ بڑے اور مشہور اخبارات نے لکھیم پور والی خبر کو اس طرح پیش نہیں کیا جیسے اسے پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ اخبارات کی سرخیوں پر لوگ مشتعل ہوگئے اور احتجاج کے طور پر انہوں نے اخبار کی کاپیاں نذر آتش کیں۔ اس سلسلے میں تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ مذکورہ دونوں خبروں کے حوالے سے صحافی جان تھامس کا کہنا تھا کہ منشیات کی مبینہ برآمدگی کو ’بے انتہا‘ کوریج ملی۔ انہوں نے کہا کہ ’اسٹار کے بیٹے کی خبر کی کوریج، چاہے ٹی وی پر ہو یا پرنٹ میڈیا پر، صارفین کی متوقع دلچسپی پر اثر انداز ہوتی ہے۔‘ جبکہ کسانوں کی موت والی خبروںپر انہوں نے کہا کہ ’دوسری طرف سیاست داں کے بیٹے کو اپنے والد کی طرح پورے ملک میں کوئی نہیں جانتا۔ مودی حکومت کے ایک چھوٹے سے وزیر کو کون جانتا ہے۔‘
ایک نیوز رپورٹ میں وکرم سنگھ کہتے ہیں کہ آرین خان کے معاملے کی کوریج بالی ووڈ کو بدنام کرنے کے ایک ’خفیہ ایجنڈے‘ کا حصہ تھی۔ وکرم سنگھ نے کہا، ’ریا کے خلاف الزامات میں کوئی ثبوت نہیں تھے لیکن اس سے ان کی شبیہ خراب ہوئی۔ آرین کی گرفتاری کے دستاویزات کے مطابق منشیات کی مقدار بہت کم تھی لیکن ان کے خاندان کی ساکھ تار تار ہو رہی ہے۔۔۔۔یہ قابل ضمانت جرم تھا تو این سی بی نے ان کا ریمانڈ کیوں لیا؟ اس کے علاوہ انہیں ملزم کی شناخت بھی ظاہر نہیں کرنی چاہیے تھی اور میڈیا کو آرین کی گرفتاری کے بعد ان کی نقل و حرکت کو ٹریک کرنا اور اس بارے میں رپورٹ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تھی۔‘
دریں اثنا مذکورہ ضمن میں گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران جو تاثرات رکھے تھے، وہ باعث تشویش ہیں اور ملک کے عوام و خواص کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ نے ریگولیٹری میکانزم کے فقدان میں ویب سائٹوں اور یوٹیوب چینلوں کے ذریعے ’فیک نیوز‘ کی اشاعت اور نشر یات پر بھاری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مانا تھا کہ تبلیغی جماعت معاملے میں میڈیا کے ایک طبقے نے خبروں کو فرقہ وارانہ رنگ دیاتھا جس سے ملک کی شبیہ خراب ہوتی ہے۔ ویسے گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ملک کی صحافت جس تنزلی کے ریکارڈ قائم کرتی جا رہی ہے، اس کی تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ملے۔ کچھ نیوز چینلوں کا تو حال یہ ہے کہ ان پر خبریں کم اور انٹرٹینمنٹ کے پروگرام زیادہ آتے ہیں جبکہ کچھ دوسرے نیوز چینلس حقائق کی جگہ اوہام پرستی کو بڑھاوا دینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ وہیں کچھ چینلس ایسے بھی دکھائی دیتے ہیں جن کا مقصد ہی دو فرقے کے لوگوں میں نفرت کو پھیلانا ہوتا ہے۔ اگر ہمیں ملک کو صحیح معنوں میں ترقی کے راستے پر گامزن کرنا ہے تو پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں شفافیت لانا بے حد ضروری ہے۔
[email protected]