ریاستی سیکولرازم کا زوال

0

مغربی بنگال میں حالیہ دنوں کے سیاسی واقعات نے ایک بار پھر اس سوال کو زندہ کر دیا ہے کہ کیا ہندوستان کا سیکولر چہرہ محض آئینی تحریروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے؟ دیگھا میں جگن ناتھ مندر کا ریاستی حکومت کی سرپرستی میں افتتاح نہ صرف سیاسی لغزش کہی جاسکتی ہے‘ بلکہ اسے جو آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف بھی کہا جاسکتا ہے۔

ایک ریاست کا وزیر اعلیٰ سیکولرازم کا علمبردار سمجھا جاتا ہے اس لیے اسے ریاستی وسائل کو براہ راست ایک مخصوص مذہب کی عبادت گاہ پر صرف کرنے کا حق نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا تو یہ عمل کسی سیاسی نزاکت کا تقاضا نہیں بلکہ ایک شعوری نظریاتی انحراف ہے۔250کڑوڑ روپئے کے خطیر سرمایہ سے‘ HIDCO جیسے سرکاری ادارے کے ذریعے مندر کی تعمیر‘ سرکاری ملازمین کی شمولیت‘ اشتہاری مہمات اور اس کے بعد ہونے والی مذہبی تقاریب پر ریاستی خزانے کی فیاضی‘ سب کچھ اس غیرجانبداری کو پامال کرتا ہے جس کا وعدہ آئین ہند نے اپنے شہریوں سے کیا تھا۔

یہ سب کچھ صرف ایک مندر کی تعمیر نہیں‘ بلکہ ایک مکمل نظریاتی رخ کی تبدیلی ہیـ۔وہ رخ جو 30 اپریل 2025 کو واضح ہوا‘ اور جسے معروف معیشت داں اندرانیل داس گپتا نے بجا طور پر ’’سیاہ دن‘‘ قرار دیا۔ اس دن صرف ایک پتھر کی عمارت کا افتتاح نہیں ہوا‘ بلکہ سیکولرازم کے اس ستون کو کھوکھلا کرنے کی بنیاد رکھی گئی جس پر ہندوستان کی جمہوری عمارت قائم ہے۔

محض علامتی مذہبی اقدامات کی سیاست کا ماحصل تاریخ میں کئی بار دیکھا جا چکا ہے۔ اندرا گاندھی کے دور میں بھی جب ریاست نے تلک‘کمبھ میلہ اور رام راجیہ کے استعاروں کو اپنانا شروع کیا تو کانگریس کی نظریاتی پہچان کمزور ہوئی اور اس کی جگہ ایک طاقتور فرقہ پرست بیانیے نے لے لی۔ آج بنگال کی حکومت اسی پرانی‘ آزمودہ اور لاحاصل راہ پر گامزن دکھائی دیتی ہیں‘ جہاں محض چند مذہبی علامتوں کو اپنانے سے نہ تو کٹر ہندوتوا کا تاثر زائل ہو سکتا ہے نہ ہی ووٹر کا اعتماد حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ مذہب کو سیاست کا ایندھن بنانے والے آخرکار خود اس شعلے کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں جسے وہ شعلہ سمجھ کر ہوا دیتے ہیں۔ دیگھا میں جگن ناتھ دھام مندر کے افتتاح کے دن مسلمانوں کو ہوٹلوں سے گوشت و مچھلی بند کرنے کا حکم دینا‘ مسلم سیاحوں کو گھروں تک محدود کرنے کی ناپاک کوشش‘ صرف مذہبی امتیاز نہیں‘ بلکہ آئینی شہری حقوق کی صریح پامالی ہے۔ یہ وہی راستہ ہے جس پر چل کر ریاستیں ــ’اکثریتی ووٹ بینک‘ کے زعم میں اپنے اقلیتی شہریوں کو غیر مرئی بنا دیتی ہیں اور بالآخر اپنے ہی جمہوری کردار سے محروم ہو جاتی ہیں۔

یہ محض اتفاق نہیں کہ مندر کی افتتاحی تقریب کی نگرانی وہ شخص کرتا ہے جو مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کی پوجا کرنے کیلئے عدالتی کٹہرے میں کھڑا ہو چکا ہے ہندو مہاسبھا کا ریاستی صدر چندرچوڑگوسوامی ہے۔یہ امرواضح اشارہ ہے کہ اب محض علامتی ہندوتوا نہیں بلکہ نظریاتی طور پر جارح ہندو توا کے عناصر کو ریاستی سطح پر جواز اور پذیرائی مل رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی کا مقابلہ اسی کے سیاسی ہتھیاروں سے ممکن ہے؟ اگر ہر سیکولر جماعت نرم فرقہ پرستی کی روش اپنائے گی تو بی جے پی کا اصل چہرہ اور واضح بیانیہ اس ’’نیم دل سیاست‘‘ کے مقابلے میں ہمیشہ غالب رہے گا۔ دہلی میں اروند کجریوال کی شکست اس تھیوری کی تازہ مثال ہے اوربنگال حکومت اگر اسی پگڈنڈی پر چلتی رہیں تو تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرائے گی‘مگر اس بار شاید زیادہ تلخ انجام کے ساتھ۔

یہ وقت ہے کہ عدالتیں‘ میڈیا‘ سول سوسائٹی اور سب سے بڑھ کر عوام اس خودساختہ مذہبی جال کو پہچانیں جس میں ریاستی سیکولرازم کو پھنسایا جا رہا ہے۔ اگر آج خاموشی رہی تو کل نہ صرف مغربی بنگال بلکہ پورا ملک ایک ایسے مذہبی حاشیے پر چلا جائے گا جہاں سے واپسی کا ہر راستہ مسدود ہوگا۔
سیکولرازم کا زوال کسی طوفان کی طرح نہیں آتا‘یہ دبے پاؤں‘ مذہبی استعاروں کے لبادے میں‘ پوجا کی تھالی اور آرتی کے چراغ کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ اور جب تک ہوش آتا ہے‘ تب تک آئین کی روح ایک شکستہ مجسمہ بن چکی ہوتی ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS