اعلیٰ تعلیم کا زوال یا نوکریوں کا زوال؟

0

راجستھان سے آنے والی تازہ ترین خبر نے ایک بار پھر ملک کے تعلیمی اور روزگار کے ڈھانچے پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ 53,749 چپراسی کے عہدوں کیلئے حیران کن طور پر 24 لاکھ 76 ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ گویا ہر ایک اسامی کیلئے اوسطاً 46 امیدوار میدان میں اترے ہیں جن میں صرف دسویں جماعت پاس امیدوار ہی نہیں بلکہ پی ایچ ڈی، ایم بی اے، ایل ایل بی اور پوسٹ گریجویشن کرنے والے بھی شامل ہیں۔ مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ درخواست دہندگان کی اس بھیڑ میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں جو برسوں سے راجستھان انتظامی خدمات اور دیگر اعلیٰ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ منظرنامہ صرف ریاستی بحران نہیں بلکہ قومی تعلیمی و اقتصادی زوال کا ناقوس ہے۔

جے پور کے کوچنگ مراکز میں جب ان امیدواروں سے بات کی گئی تو ان کے جوابات دردناک سچائی سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ ایم اے، بی ایڈ اور آئی ٹی کورس مکمل کرنے والے کمل کشور نے بتایا کہ وہ 2018 سے امتحانات کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں لیکن کامیابی ان سے کوسوں دور ہے۔ ان کے بقول اگر کوئی اور کام نہ ملے تو چپراسی کی نوکری بھی بے روزگاری سے بہتر ہے۔ تنوجا یادو جو سائنس میں پوسٹ گریجویٹ ہیں اور سمترا چودھری جن کے پاس ایم اے اور بی ایڈ کی ڈگریاں ہیں، اسی احساس عدم تحفظ میں مبتلا ہیں۔ ان کیلئے چپراسی کی ملازمت بھی ’محفوظ‘ ہے، چاہے اس کا مطلب سرکاری دفتر میں پانی پلانا ہی کیوں نہ ہو۔

یہ صورتحال صرف ایک ریاست کی داستان نہیں بلکہ ملک بھر کے لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کا المیہ ہے۔ سروے بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں محض 8.25 فیصد گریجویٹس کو ایسی نوکریاں ملتی ہیں جو ان کی تعلیمی قابلیت سے ہم آہنگ ہوں۔ یہ شرح کسی ترقی پذیر معیشت کی نہیں،بلکہ ایک ایسے نظام کی عکاسی کرتی ہے جہاں تعلیم اور روزگار کے درمیان رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ تعلیمی ادارے ڈگریاں تو بانٹ رہے ہیں،لیکن وہ عملی زندگی کی تیاری میں ناکام ہیں۔ نہ کورسز میں فنی تربیت ہے،نہ نرم مہارتوں پر زور۔ نتیجہ یہ کہ نوجوان ڈگریوں کے انبار کے ساتھ بھی بازار کار میں صفر کے برابر ہیں۔

یہ اعداد و شمار چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ ملک کا تعلیمی ڈھانچہ اپنے مقصد سے بھٹک چکا ہے۔ ایک طرف بے روزگاروں کا طوفان ہے تو دوسری طرف صنعتوں کو ہنر مند مزدور میسر نہیں۔ پیداواری ادارے کہتے ہیں کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں عملی قابلیت کی شدید کمی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈگریاں محض کاغذی حیثیت رکھتی ہیںجو ملازمت کے قابل نہیں بناتیں۔

راجستھان میں چپراسی کی درخواستوں نے نظام کو اس قدر مغلوب کر دیا کہ تکنیکی خرابیوں نے بھی امیدواروں کو پریشان کیا۔ آخری پانچ گھنٹوں میں ایک لاکھ 11 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں، یعنی ہر 6سیکنڈ میں ایک فارم جمع کرایا گیا۔ اس سے قبل، 2,399 فاریسٹ گارڈ کی اسامیوں کیلئے بھی 22 لاکھ درخواستیں آچکی ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف بے روزگاری کی عکاسی نہیں کرتے،بلکہ ایک قومی مایوسی، ناامیدی اور تعلیمی اداروں کی ناکامی کا نوحہ بھی سناتے ہیں۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق راجستھان میں اس وقت تقریباً 18 لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں،لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ یہ تعداد 30 سے 35 لاکھ کے درمیان ہے۔ اس کے باوجود حکومت نہ تو روزگار پیدا کرنے میں سنجیدہ نظر آتی ہے،نہ تعلیمی نظام کو اس رخ پر ڈھال رہی ہے جہاں طالب علم صرف ڈگری حاصل نہ کرے بلکہ نوکری کے لائق بھی بنے۔ تعلیم،تحقیق،فنی مہارت،صنعتی انٹرن شپ اور نجی شعبے سے مربوط نصاب کی شدید ضرورت ہے۔

ایک اور خطرناک پہلو سماجی ذہنیت سے جڑا ہوا ہے۔ ہندوستانی متوسط طبقے میں محنت کش پیشوں کو کمتر سمجھنے کی روش اتنی گہری ہو چکی ہے کہ پیشہ ورانہ تربیت کا میدان خالی پڑا ہے۔ دسویں یا بارہویں کے بعد فنی تعلیم کو اختیار کرنے میں شرم محسوس کی جاتی ہے،حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہی تعلیم خوشحال زندگی کی بنیاد بنتی ہے۔ یہاں ہر نوجوان سفید کالر نوکری چاہتا ہے،چاہے وہ کسی بھی سطح کی کیوں نہ ہو،بس سرکاری ہونی چاہیے۔

یہی سوچ اعلیٰ تعلیم کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ تعلیم ایک سماجی حیثیت کا نشان بن چکی ہے،نہ کہ مہارت کا۔ ہر شخص بی اے،ایم اے،ایم بی اے یا پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ان ڈگریوں سے کیا حاصل کرے گا؟ اگر انجام چپراسی کی نوکری ہے تو اس تعلیم کی معنویت کیا رہ جاتی ہے؟ یہ صرف وسائل کا ضیاع نہیں،بلکہ قوم کی ذہنی توانائی کی بربادی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی اداروں کو صنعتوں کے ساتھ جوڑا جائے، نصاب میں عملی تربیت،ٹیکنیکل کورسز، انٹرپرینیورشپ کی تعلیم اور روزگار سے متعلقہ مہارتیں شامل کی جائیں۔ پیشہ ورانہ تربیت کو معاشرتی احترام دیا جائے،تاکہ تعلیم صرف کتابی علم تک محدود نہ رہے بلکہ زندگی کی تعمیر میں ممد و معاون ہو۔

اگر ہم نے فوری طور پر اس سمت میں اقدامات نہ کیے تو آنے والے دنوں میں ایسے مناظر عام ہو جائیں گے،جہاں پی ایچ ڈی ہولڈر پانی پلائے گا اور ایم بی اے ڈگری والا فائلیں اٹھائے گااور قوم صرف سر پیٹتی رہ جائے گی کہ کہاں گئے وہ سنہرے خواب جو تعلیم کے نام پر آنکھوں میں بسائے گئے تھے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS