شاہد زبیری
حکومت کے آمرانہ رویہ، آئینی اداروں کی خود مختاری پر اٹھتے سوال اور خود حکومت کے ذمہ دارا ن کی طرف سے سپریم کورٹ پر اختیارات سے تجاوز کے الزامات اور ملک کے موجودہ سیاسی تناظر اور ماحول میں سپریم کورٹ کی 5رکنی بنچ نے اتفاق رائے سے قومی الیکشن کمیشن پرجو فیصلہ سنا یا ہے یقینا وہ خوش آئند ہے اور اس کے دور رس نتائج ہوں گے۔ اس فیصلہ کو لے کر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بحث چل رہی ہے،ماہرین قانون کی آراء بھی سامنے آرہی ہے لیکن تادمِ تحریر بی جے پی یا بی جے پی کی مودی حکومت کی طرف سے کوئی ردِّ عمل کی خبر نہیں ہے یا وہ ہماری نظر سے نہیں گذری ہے ۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کی جوروداد میڈیا میں آئی ہے اس کی رو سے جو بات سامنے آئی ہے اس کے مطابق ابھی تک قومی الیکشن کمشنر کی تقرری جس طرح سے کی جاتی رہی ہے یا الیکشن کمیشن جس طرح سے کام کرتا آرہا ہے اس پرسوال اٹھتے رہے ہیں خاص طور پر 2014میں بی جے پی کے مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد سے کمیشن کی کار کردگی پر پہلے سے زیادہ انگلیاں اٹھ رہی ہیں ۔ایک الیکشن کمیشن ہی کیا تمام آئینی اداروں کی کار کردگی اور خود مختاری سوالوں کے گھیرے میں ہے، سی بی آئی ہو یا ای ڈی وغیرہ اب ان سب پر سرکاری پنجرے کے طوطے بنے ہونے کے الزامات لگ رہے ہیں ۔ ایک زمانہ میں خود بی جے پی اپوزیشن میں رہتے ہوئے سی بی آئی کو سرکاری طوطا بتاتی رہی ہے ۔پہلے کی سرکاریں بھی اس معاملہ میں دودھ کی دھلی نہیں تھیں لیکن موجودہ سرکار نے اس معاملہ میں تمام حدیں پھلانگ دی ہیں اس نے تمام آئینی اداروں کو اپنی انگلیوں پر نچا رکھا ہے۔ جہاں تک الیکشن کمیشن کی خود مختاری، ایماندری ،غیر جا نبداری، شفافیت اور عوامی بھروسہ اور اعتماد کا سوال ہے الیکشن کمیشن بھی نشانہ پر رہا ہے جو آج سے نہیں پہلے سے ہے ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ الیکشن کمیشن کا راست تعلق ہمارے جمہوری نظام اور عوام کی ووٹ کی طاقت سے ہے۔ الیکشن کمیشن اگر اپنی آئینی ذمہ داریوں کو ایمانداری اور غیر جانبداری سے پورا نہیں کرے گا اور اقتدار کی ابروئے چشم کے مطابق کام کرے گا تو جمہوری نظام پر اس کے انتہائی مضر اثرات پڑیں گے لوگوں کو اپنے ووٹ کی طاقت پر بھروسہ نہیں رہے گا، جمہوریت پر سے ان کا اعتماد اور یقین متزلزل ہو گا جس کے آثار دکھا ئی دے رہے ہیں۔انتخابی نتائج وہ نہیں آتے جس کی توقع عوام کرتے ہیں پیسہ اوربازوئوں کی طاقت پر الیکشن جیتے جاتے ہیں، اسمبلیوں اور پارلیمنٹ انتخابات میںپارٹیوں کے نمائندوں کی اچھی خاصی تعداد ایسی ہوتی ہے جن پر سنگین جر م کے تحت مقدمات قائم ہوتے ہیں اور وہ اپنے مجرمانہ ریکارڈ اپنی دولت اور طاقت کے بل پر جیت بھی جا تے ہیں اور اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں پہنچ بھی جاتے ہیں ،عتیق احمد اور مختار انصاری کسی ایک سیاسی جماعت میں نہیں ہو تے تمام سیاسی جماعتوں بشمول بی جے پی اس معاملہ میں پاک دامن نہیں ہے ان سب سے سیاسی جماعتوں کی ساکھ عوام کی نگاہ میں گررہی ہے اور عالمی سطح پر بھی یہ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ دنیا میں ہمارے جمہوری نظام اور الیکشن سسٹم کی جو دھاک ہے وہ قائم رہے گی کہ نہیں اگر الیکشن کمیشن ایمانداری اور غیر جانبداری اور آئینی ذمہ داری سے کام کرتا اور اپنے کام میں شفافیت کا مظاہرہ کرتا تو یہ حالات نہ ہو تے ۔پریشانی یہ ہے کہ ابھی تک چیف الیکشن کمشنر اور کمشنر سرکاروں کے ذریعہ ہی بنائے جا تے رہے ہیںاسی لئے الیکشن کمیشن پر سوال اٹھتے رہے ہیں ٹی این سیشن یالنگدو اور ایس وائی قریشی جیسے چیف الیکشن کمشنر بھی حکومتوں کے ذریعہ ہی بنائے گئے تھے لیکن انہوں نے سرکار کی طرف دیکھنے کی بجا ئے اپنی آئینی ذمہ داریوں کی طرف دیکھا اور خود کو آئین کے سامنے جوابدہ مانا۔ چنانچہ آج بھی ان کو یاد کیا جا تا ہے لیکن یہ چند مثالیں ہیں۔1955سے 2023تک 25چیف الیکشن کمشنر بنائے گئے ہیں موجودہ چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار 25ویں ہیں جنہوں نے 15مئی 2022 سنبھا لا تھا۔آئین کی دفعہ 324کے تحت الیکشن کمشنر کو آئین سے آزادی اور خود مختاری ملی ہوتی ہے۔ہر چند کہ الیکشن کمیشن کی نامزدگی صدرِ جمہوریہ کی طرف سے کی جا تی ہے لیکن اس میں حکومت کی منشا شامل ہو تی ہے اسی لئے الیکشن کمشنر حکومتوں کا مر ہونِ منّت رہتا ہے اور اس کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھتے رہتے ہیں ۔اس لئے الیکشن کمیشن کی نامزدگی کے طریقہ کو تبدیل کئے جا نے کی مانگ اٹھتی رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق لاء کمیشن نے بھی 2015 میں اپنی ایک رپورٹ میں الیکشن کمیشن کی نامزدگی یا تقرری کیلئے کالجیم یا الیکشن کمیٹی کے ذریعہ منتخب کئے سفارش کی تھی اب سپریم کورٹ کی کہ5رکنی فل بنچ نے بھی اپنے فیصلہ میں یہی بات کہی ہے اور چیف الیکشن کمشنر سمیت تمام الیکشن کمشنروں کی تقرری وزیر اعظم، پارلیمنٹ اپوزیش لیڈر یا ہائوس میں سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر اور چیف جسٹس پر مشتمل کمیٹی اس کام کو انجام دے یہ بات سپریم کورٹ کی بنچ نے متفقہ طور پر اپنے فیصلہ میں کہی ہے ۔اس فیصلہ کو جمہوری نظام کی مضبوطی اور استحکام کیلئے بہت اہم مانا جا رہا ہے اس کا راست تعلق عوام کی ووٹ کی طاقت سے ہے جو اقتدار کو بدلنے کیلئے اس کو آئین نے دی ہے ۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی بابت اب تک جو کچھ سامنے آیا ہے اس کی رو سے الیکشن کمشنر کو سرکاری مداخلت سے باز رکھنے کیلئے تین رکنی اعلیٰ ترین کمیٹی کو جو اختیار دینے کی بات کہی ہے یہ تب تک کیلئے جب تک پارلیمنٹ آئین کی دفعہ 324میں میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کرتی جو الیکشن کمشنر کی آئینی خود مختاری کو سرکاری مداخلت سے باز رکھ سکے ۔سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے جہاں جمہوری نظام کے مضبوط ہو نے اور الیکشن سسٹم کے صاف ستھرا ہو نے اور عوام کے ووٹ کی طاقت بحال کرنے کی امید بندھی ہے۔حکومت کی نیت پر بھی شک کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا کہ جو حکومت اپنے مزاج اور عمل سے آمرانہ دکھائی دیتی ہے۔ کیا وہ کوئی ایسا قانون بنا سکتی ہے جو الیکشن کمیشن کو سرکاری پنجرے کا طوطا بننے سے باز رکھ سکے ۔سوال تو یہ بھی اٹھ ر ہا ہے کہ سی بی آئی کے ڈائریکٹر کی تقرری بھی کالجیم کے رول کے مطابق کی جا تی ہے لیکن کیا سی بی آئی کے ڈائریکٹر کی کار کردگی پر یہی سوال نہیں اٹھتا رہے جو الیکشن کمیشن پر اٹھا ئے جا تے رہے ہیں سی بی آئی کو تو پہلے ہی سرکاری پنجرے کے طو طے ہونے کا لقب ملا ہوا ہے۔ اب تو ای ڈی کے استعمال کولے کر بھی حکومت پرانگلیاں اٹھ رہی ہیں اس لئے کہ ای ڈی کے چھاپوں میں جو تیزی دکھائی پڑتی ہے اور ای ڈی محکمہ جتنا فعال اب د کھا ئی دیتا ہے وہ اتنا 2014سے پہلے نہیں تھا 2004سے 2014تک ای ڈی نے کل 112چھا پے مارے ہیں جبکہ 2014سے اب تک ای ڈی نے 3000سے زائد چھاپے مارے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران یا سرکار مخالف شخصیات اور اداروں کیخلاف ہی چھاپوںکی یہ کارروائی کی گئی ہے ای ڈی اڈانی نے اڈانی پر ہاتھ نہیں ڈالنے کی جرائت نہیں دکھا ئی یہ سوال تو ای ڈی سے پوچھا جا رہا ہے جس طرح کانگریس کی حکومت پر مخالفین کی زباں بندی کیلئے سی بی آئی کے چھاپوں کے الزامات لگتے تھے اب اسی طرح بی جے پی کی مرکز ی حکومت پر ای ڈی کے غلط استعمال کے الزامات لگ رہے ہیں ۔
جہاں تک الیکشن کمیشن پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کا تعلق ہے اور الیکشن کمیشن کی آزادی اور خود مختاری و آئینی ذمہ داری کی بات ہے یہ فیصلہ اس سمت میں ایک خوش کن پہل ہے جب تک سپریم کورٹ اسی طرح اپنی آئینی ذمہ داری نبھاتا رہے گا تب تک جمہوریت کو کمزور کرنے کی سازشوں پر اسی طرح لگام لگتی رہے گی اس فیصلہ سے عوام کو بھی اپنے ووٹ کی طاقت کا احساس باقی رہے گا اور جمہوریت پر اس کا یقین اور بھروسہ ڈگمگا ئے گا نہیں اس فیصلہ سے یہ امید تو رکھنی چا ہئے۔
[email protected]