عبدالماجد نظامی
ملک عزیز ہندوستان کا اٹھارہواں پارلیمانی انتخاب ہمیشہ کے لیے تاریخ کے اوراق میں اپنے کئی نمایاں امتیازوں کی وجہ سے ثبت ہوچکا ہے لیکن اس کا سب سے درخشاں پہلو یہ ہے کہ اس ملک کے عوام نے متحدہ طور پر اپنا فیصلہ کیا ہے کہ انہیں یہ پسند نہیں ہے کہ قدیم ترین انسانی تاریخ کے روشن ابواب پر مشتمل اس سر زمین کو اس کے بنیادی اور اصلی اصولوں سے موڑ کر ایک ایسے راستہ پر ڈال دیا جائے جس میں اس کے مستقبل کا راستہ تاریک اور یہاں کے عوام کا وجود انتشار و بے چینی کے گہرے غار میں اوندھے منہ پڑا ہو۔ اسی لیے اس ملک کے غریب، مزدور، کسان، اقلیت، قبائلی اور خواتین سے لے کر ان تمام طبقوں نے جنہیں اس ملک کی سالمیت اور ترقی و بقاء کی حقیقی فکر لاحق رہتی ہے، اس موقع پر خاموش رہنا گوارہ نہیں کیا جب جمہوری نظام کے تحت ان کو رائے دہی کا حق استعمال کرنے کا مناسب وقت ہاتھ آیا۔ یہ وہی طبقات ہیں جنہوں نے ہمیشہ اس ملک کو سنگین حالات میں اپنا سب کچھ قربان کرکے بچایا ہے۔ اس ملک کے عوام کو گاندھی جی اور ان کے عظیم رفقاء نے یہ درس دیا ہے کہ مشکل ترین حالات میں بھی اپنے حق و انصاف کے لیے لمبی لڑائی کیسے لڑنی چاہیے۔ جب اس ملک پر استعماری نظام کا غلبہ تھا اور یہاں کے تمام لوگ آزادی سے محروم کر دیے گئے تھے، تب بھی اس عظیم ملک کے عوام نے صبر و دلجمعی کے ساتھ سامراجی قوتوں کے خلاف ایک طویل جنگ لڑ کر آزادی حاصل کرنے کا شاندار ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اس راہ پر ان کے رہنما مہاتما گاندھی جیسی عبقری شخصیت تھی جنہوں نے تشدد اور نفرت کا راستہ ترک کرتے ہوئے عدم تشدد اور محبت و آشتی کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کی مدد سے انگریزی سامراج کو زیر کیا تھا اور جدید ہندوستان کی بنیاد سیکولرازم اور کثرت میں وحدت کے اصولوں پر رکھی تھی۔ گاندھی جی کے بعد ان کے لائق و فائق جاں نشیں نہرو جی نے اس ملک کو فرقہ واریت اور برادر کشی کے جنجال میں پڑنے سے بچایا اور ہندوستان میں بسنے والے تمام مذاہب و ادیان اور الگ الگ لسانی و تہذیبی دائروں میں زندگی گزارنے والوں کو ایک قوم اور ایک نیشن کے دھاگے میں اس طرح پرو دیا کہ دنیا کی باقی قومیں حیرت و استعجاب سے دیکھتی تھیں کہ یہ بھلا کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا ملک جس نے آزادی کے معاً بعد خوں ریزی کے دلخراش واقعات دیکھے ہوں، اتنی کم مدت میں وہاں کے لوگ باہم شیر و شکر ہوکر زندگی گزارنے کا ہنر سیکھ لیں۔ لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ایسا ملک میں ایک بار نہیں، کئی بار ہوا۔ اندرونی اور بیرونی عناصر نے کئی بار اس ملک اور یہاں کے عوام کا امتحان لینا چاہا اور ان کو گاندھی جی کے اصولوں سے دور کرکے باہم دست و گریباں رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ وقتی طور پر انتشار و افراتفری کے واقعات بھی رونما ہوئے، بھائی نے بھائی کا خون بہایا اور ایک دوسرے کے درپے آزار بھی ہوئے لیکن جب نفرت و بدگمانی کے بادل صاف ہوئے اور دلوں کی کدورت ختم ہوئی تو اپنی حرکتوں پر پشیمان ہوئے اور دوبارہ گاندھی جی کی زندگی سے سبق لیتے ہوئے خود کو عدم تشدد اور محبت و الفت کے زیور سے آراستہ کیا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ گاندھی جی کے سینہ پر گولی چلانے والے گوڈسے کے نظریہ کو فتح نصیب ہوئی ہو۔ یہ اس ملک کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے کہ اس کو توڑنے کی کوشش کرنے والی طاقتیں خود زیر و زبر ہوجاتی ہیں اور کبھی بھی ہندوستان کی اصل روح کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوپاتی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے اعلیٰ قائدین کو یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ اب یہ ملک گاندھی کے عدم تشدد، ستیہ اور اہنسا کے اصولوں سے انحراف کے لیے تیار ہوچکا ہے اور یہاں کے لوگوں کے ہاتھ میں نفرت و عداوت اور برادر کشی کے لیے ترشول و تلوار تھمائے جاسکتے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی بھرم تھا کہ وہ ہندوازم جس کی صدیوں پرانی شاندار تاریخ رہی ہے اور اس نے ہر عقیدہ و مذہب کا ہمیشہ احترام کیا ہے اور رواداری کے ساتھ تمام عقائد و افکار کے پنپنے بلکہ بڑھاوا دینے میں اپنا کردار نبھایا ہے، اب اس کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے انسان اور سماج کو اس طرح تقسیم کیا جا سکتا ہے کہ ان کے درمیان ایسی گہری خلیج قائم ہوجائے گویا وہ کسی دریا کے دو پاٹ ہوں جو آپس میں کبھی مل نہیں سکتے۔ لیکن اس نظریہ اور اس پر مبنی سیاست کو بھی اس ملک کی اکثریت نے مسترد کر دیا ہے جس کا جیتا جاگتا ثبوت یہ ہے کہ ایودھیا جہاں رام مندر کی تعمیر اس جذبہ سے کی گئی تھی کہ جیسے عہد وسطیٰ کا کوئی راجہ اپنے مذہبی حریف پر فتح یاب ہوا ہو۔ البتہ ایودھیا اور وارانسی کے حلقہ ہائے انتخابات کے نتائج سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کا ہندو قطعی طور پر بی جے پی اور سنگھ کے نظریاتی خطوط سے اتفاق نہیں رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترقی اور روزگار کا جھانسہ دے کر گزشتہ دس برسوں میں نریندر مودی اور امت شاہ والی قیادت نے صرف مذہبی عناد اور عداوت کو ہی پروان چڑھایا ہے اور ملک کے تمام جمہوری اداروں کو بے حیثیت اور نیم جاں بنانے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے۔ جس نہرو کو سنگ و دشنام کے سوا نریندر مودی نے کچھ نہیں دیا ہے، اسی نہرو نے اس ملک میں جدیدیت کے اصولوں کے مطابق ماڈرن اداروں اور صنعتوں کی بنیاد رکھی تھی جن کی وجہ سے ملک کا وقار دنیا بھر میں بڑھا تھا۔ نریندر مودی کے عہد میں یہ تمام ادارے جاں کنی کے عالم میں پہنچ گئے تھے۔ اب اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ نریندر مودی اپنے اگلے پانچ سال میں ان اداروں کو سانس لینے اور زندگی سے ہمکنار ہونے کا موقع دیں گے۔ ایسا کرنا گرچہ ان کی مجبوری ہوگی کیونکہ عوام نے ان کی پارٹی کو اکثریت سے نہیں نوازا ہے۔ یہ ان کے اتحادی ساتھیوں کے لیے بھی امتحان کا وقت ہوگا کہ وہ دستوری اداروں کو زندہ کرنے میں اپنا رول کس طرح ادا کرتے ہیں۔ جہاں تک کانگریس پارٹی اور ان کی اتحادی جماعتوں کا تعلق ہے تو ان پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کے دستور کی روح کو مکمل طور پر بحال کرانے میں مسلسل اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں اور ایک مضبوط اپوزیشن کا رول نبھائیں جیسا کہ ان سے عوام کی توقع ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ نریندر مودی جن کے پاس اتحادی جماعتوں کی مدد سے حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے، وہ اپنی اگلی پانچ سالہ مدت میں کیسے وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر رہ کر کام کرتے ہیں۔ شاید آج انہیں اٹل بہاری واجپئی کی زندگی سے کئی سبق سیکھنے کی نوبت آئے گی۔ ابھی تو نئی سرکار کا آغاز بھی نہیں ہوا ہے لیکن اس کے باوجود پورا ملک ایسا محسوس کر رہا ہے جیسے اس کے سینہ پر کوئی بڑا سا بوجھ پڑا ہوا تھا اور اس کی وجہ سے شدید گھٹن ہو رہی تھی اور سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ اٹھارہویں پارلیمانی انتخابات کے نتائج نے اس بوجھ کو ہندوستان کے سینہ سے ہٹا دیا ہے اور صاف لفظوں میں عوام نے کہہ دیا ہے کہ ان کو گاندھی جی کا ہندوستان پسند ہے، گوڈسے اور ساورکر کا نہیں۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]