حافظ کرناٹکی
انسان کی زندگی خوشی و غم کامیابی وناکامی اور خوف و ہراس وغیرہ ہر طرح کے معاملات سے بھری پڑی ہے۔ جس طرح زندگی میں غم، غصّہ، محبت، شفقت، الفت، اپنائیت، یگانگت، بیگانگی وغیرہ کا رنگ شامل ہے۔ اسی طرح اطمینان، اور خوف کا آنا جانا بھی شامل ہے۔ انسان کے بارے میں یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تو اکثر اپنے رب کو بھول جاتا ہے اور جب کوئی غم اس پر نازل ہوتا ہے تو وہ اپنے رب کو یاد کرنے لگتا ہے۔ خوشیوں کے دن اس طرح گذرجاتے ہیں کہ اس کے گذرنے کا احساس تک نہیں ہوتا ہے۔ اور غم کا ایک ایک لمحہ صدیوں پر بھاری معلوم ہوتا ہے۔ اسی لیے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
دن عیش کے گھڑیوں میں گذرجاتے ہیں کیسے
ایام مصیبت کے تو کاٹے نہیں کٹتے
اسلام نے جس طرح دوستی اوردشمنی میں توازن رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح خوشی اور غم میں بھی میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ راحت اور مصیبت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مصیبتوں، پریشانیوں اور مشکلوں کو صبر و سکون اور تحمل کے ساتھ برداشت کرناچاہیے۔ ہمت نہیں ہارنی چاہیے، اور رنج و غم کو اس حد تک اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دینا چاہیے کہ دنیا ویران نظر آنے لگے۔
ہم جانتے ہیں کہ اس دنیا میں کوئی انسان اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جو رنج و الم اور آزمائش سے نہیں گذری ہے۔ ناکامی، اور نامرادی ہر انسان اور ہر قوم کے ساتھ لگی رہتی ہے۔ جو قومیں اور جولوگ ان حالات کا جواں مردی سے سامنا کرتے ہیں وہ ایک دن ضرور کامیاب ہوتے ہیں۔ ہم آپ جانتے ہیں کہ بعض لوگ ناکامیوں، غموں اور دکھوں سے گھبراکر خود کشی تک کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ایمان اور عقیدہ کمزور ہوتا ہے۔ اللہ کے نیک بندے اور مومن بڑی سے بڑی مصیبتوں کا سامنا بھی صبر سے کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں اللہ نے اس کے لیے ضرور کوئی بھلائی رکھی ہوگی۔ اس طرح ایمان والوں کے لیے مشکلوں کا سامنا کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اسے تکلیف میں بھی روحانی سکون اور لذّت ملنے لگتی ہے۔ اور تقدیر پرایمان کامل اس کے لیے راستے کی مشکلوں کو آسان بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ؛’’جو مصائب بھی روئے زمین میں آتے ہیں اور جو آفتیں بھی ہم پر آتی ہیں وہ سب اس سے پہلے کہ ہم اسے وجود میں لائیں، ایک کتاب میں (لوح محفوظ) میں لکھی ہوئی اور طے شدہ ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات خدا کے لیے آسان ہے تا کہ تم اپنی ناکامی پر غم نہ کرتے رہو۔ (سورہ الحدید)
مطلب یہ کہ تقدیر پر ایمان لانے کی وجہ سے مومن بڑے سے بڑے سانحے کو بھی قضا و قدر کا فیصلہ سمجھ کر صبر کر لیتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں پیش آنیوالے ہر واقعے اور حادثے کو اپنے مہربان رب کی طرف منسوب کرکے خیر کے پہلو نکال لیتا ہے۔ اور صبر و شکر کے ساتھ ہر شر میں خیر کے پہلو نکال لیتا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ؛
’’مومن کا معاملہ بھی خوب ہی ہے، وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے خیر ہی سمیٹتا ہے۔ اگر وہ دکھ، بیماری، تنگ دستی سے دوچار ہوتا ہے تو سکون کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور یہ آزمائش اس کے حق میں خیر ثابت ہوتی ہے۔ اور اگر اس کو خوشی اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے اور یہ خوشحالی اس کے لیے خیر کا سبب بن جاتی ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ مسلمان جب دکھ کی، یا کسی ناگہانی حادثے کی خبر سنتا ہے تو بے اختیار اناللہ پڑھنے لگتا ہے، یعنی ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کرجانے والے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی ہیں یا ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے سب خدا کا بخشا ہوا ہے۔ اسی نے عطا کیا ہے اور وہی واپس لینے کا مجاز ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں ہے جو ہمیں کچھ دے سکے۔ یا ہمارا کچھ چھین سکے، ہم ہر حال میں خدا کے سامنے راضی بہ رضا ہیں۔ اس کا ہر کام حکمت، مصلحت اور انصاف پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ کرتا ہے کسی بڑے خیر کے پیش نظر کرتا ہے۔ وفادار غلام کا حق یہ ہے کہ کسی بھی حال میں اس کے ماتھے پر شکن نہ آئے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ البقرہ میں فرماتے ہیں کہ؛’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، بھوک،جان و مال کے نقصان اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے اور خوش خبری ان لوگوں کو دیجئے جو مصیبت پڑنے پر صبر کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم خدا ہی کے ہیں اور خدا ہی کی طرف ہمیں پلٹ کرجانا ہے۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی اور اس کی رحمت ہوگی اور ایسے ہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں۔‘‘
ظاہر ہے کہ جو اہل ایمان ہیں اور اللہ کے حکموں اور فرمانوں سے آگاہ اور واقف ہیں اور ان کا عقیدہ غیر متزلزل ہے وہ کسی بھی حالت میں مایوس نہیں ہوتے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ جب کوئی بندہ مصیبت پڑنے پر اناللہ الخ پڑھتا ہے تو خدا اس کی مصیبت کو دور فرما دیتا ہے۔ اس کو اچھے انجام سے ہمکنار کرتا ہے اور اس کو اس کی پسندیدہ چیزاس کے صلے میں عطا فرماتا ہے۔بخاری کی حدیث ہے حضورؐ نے فرمایا کہ؛’’جس مسلمان کو کوئی دلی تکلیف، جسمانی اذیت، بیماری، کوئی رنج، دکھ، اور غم پہونچتا ہے یہاں تک کہ اسے ایک کانٹا بھی چبھ جاتا ہے (اور وہ اس پر صبر کرتا ہے) تو خدا اس کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے۔‘‘
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا؛ ’’جتنی سخت آزمائش اور مصیبت ہوتی ہے اتنا ہی بڑا اس کا صلہ ہوتا ہے اور خدا جب کسی گروہ (جماعت) سے محبت کرتا ہے تو ان کو (مزید نکھارنے اور کندن بنانے کے لیے) آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے پس جو لوگ خدا کی رضا پر راضی رہتے ہیں خدا بھی ان سے راضی ہوتا ہے اور جو اس آزمائش میں خدا سے ناراض ہوجاتا ہے خدا بھی ان سے ناراض ہوجاتا ہے۔‘‘آج ہم اجتماعی طور پر بھی مختلف قسم کی آزمائشوں سے گذررہے ہیں۔ ہمیں ہر قدم پر مشکلوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہمیں طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کرنی پڑرہی ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ ہمیں ان پر صبر کرنا ہے۔ یہ مان کر چلنا اور جینا ہے کہ اللہ نے یقینا ان آزمائشوں میں ہمارے لیے کوئی بھلائی رکھی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آنے والے کسی وقت کے لیے ہمیں اور اہل اسلام کی جماعت کو تیار کررہا ہے۔ صبر و سکون اور تحمل کے ساتھ حالات کا سامنا کرنے کی تربیت دے رہا ہے۔ یقین جانیے کہ جب تک دلوں میں ایمان کی شمع روشن رہتی ہے ظلمت کی کوئی تاریکی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پاتی ہے۔ یہی طاقت ہے ایمان کی۔ہمیں اسلامی تعلیمات نے سکھایا ہے کہ بیماری کو بھی برا بھلا نہ کہیں اور نہ زبان پر حرف شکایت لائیں بلکہ نہایت صبر و سکون کے ساتھ آخرت میں اس کا بہترین بدلہ ملنے کی آرزو میں صبر کا دامن تھامے رہیں۔ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ؛’’مومن کو جسمانی اذیت یا بیماری یا کسی اور وجہ سے جو بھی دکھ پہونچتا ہے خدا تعالیٰ اس کے سبب سے اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو جھاڑ دیتا ہے۔‘‘اسلام کی تعلیمات نے انسانی شخصیت کو نہ صرف یہ کہ نکھارا ہے بلکہ اس میں جامعیت اور جاذبیت بھی پیدا کی ہے۔ اسلام کی انقلابی اور روح کو بالیدہ کرنے والی تعلیمات نے تو خواتین کو بھی صبر و تحمل کا چٹان بنادیا ہے۔ بہت مشہور واقعہ ہے؛ حضرت ابوطلحہؓ کا لڑکا بیمار تھا۔ وہ بچے کو اسی حال میں چھوڑ کر اپنے کام پر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد بچے کا انتقال ہوگیا۔ بیگم ابوطلحہؓ نے لوگوں سے کہہ دیا کہ ابوطلحہؓ کو خبر نہ ہونے پائے۔ وہ شام کو اپنے کام سے فارغ ہو کر گھر واپس آئے تو بیوی سے پوچھا بچے کا کیا حال ہے؟ بیوی نے کہا پہلے سے زیادہ سکون میں ہے۔ یہ کہہ کر ابوطلحہؓ کے لیے کھانا لایا۔ انہوں نے اطمینان سے کھانا کھایا اور لیٹ گئے۔ صبح ہوئی تو نیک بیوی نے حکیمانہ انداز میں اپنے شوہر سے پوچھا؛ اگر کوئی کسی کو عاریتاً کوئی چیز دے دے اور پھر واپس مانگ لے تو کیا اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس چیز کو روک لے؟ ابو طلحہؓ نے کہا؛ ہرگز نہیں۔ تو بیوی نے کہا اپنے بیٹے پر بھی صبر کیجئے۔یہاں غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ جہاں بیوی نے صبر و تحمل کی ناقابل فراموش مثال قائم کی وہیں معاشرے نے بھی ایک پیغام دیا کہ اس زمانے میں جب ایمان و عقیدے کی پختگی جز و ایمان و اسلام تھی ایسا کوئی شور و غوغہ اور ماتم نہیں بپا ہوا کہ والد کے گھر واپس آتے ہی سارا احوال معلوم ہوجاتا۔ اسلامی معاشرہ ہمیشہ سے صبر و تحمل کا خوگر رہا ہے۔غم میں آنکھوں سے آنسو بہنا، اور انسان کا رنجیدہ و رنجور نظر آنا فطری بات ہے اور فطرت کو بدلا نہیں جاسکتا ہے۔ مگر دھاڑیں مار مار کر رونا، چیخنا چلّانا، سینہ کوبی کرنا، بال نوچنا، چھاتی پیٹنا اسلام میں غیر پسندیدہ عمل ہے۔ آپ توجہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے ہر حالت میں خدا کی طرف متوجہ ہونے کی تلقین کی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اللہ کا جو بھی بندہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوگا تو اللہ بھی اس کی طرف توجہ فرمائے گا اور جب اللہ تبارک و تعالیٰ کسی بندے کی طرف توجہ فرمائے گا تو ظاہر ہے کہ اس کے سارے دکھوں کا درماں ہو جائے گا۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق بندوں کی زندگی اپنے رب کے لیے وقف ہوتی ہے۔ اس کی زندگی میں جو کچھ بھی واقع ہوتا ہے وہ اس کے رب کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ کے نیک بندے ہر حالت میں اپنے رب کی حمد اور اس کا شکرادا کرتے ہیں۔ اور خدائے برتر جو رحمان و رحیم ہے اپنے بندے کے حمد و شکر سے خوش ہوتا ہے اور اس کے لیے ایسے انعام و اعزاز کا انتظام فرمادیتا ہے جس کے بارے میں انسان تصوّر بھی نہیں کرسکتا ہے۔ ایمان و عقیدے کی یہی پختگی مسلمانوں کو ہر طرح کی مایوسی اور غم کی انتہا سے محفوظ رکھتی ہے اور اس کے اندر سب کچھ کھوکر بھی جیسے اور زندہ رہنے کی امید پیدا کرتی ہے۔ جس سے کائنات کے تعمیری پہلو کو ثبات حاصل ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ثبات بہ جز خدا کے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ مومن کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کے خدا کی طرف سے ہے اور یہ کہ اس میں بہرحال خیر کا پہلو ہوتا ہے۔ یہ ایسا یقین اور جذبہ ہے جو سارے مومنین کو حوصلوں سے بھردیتا ہے۔ اسلام میں ناامیدی اور مایوسی کو کفر کے مترادف کہا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس مت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج جبکہ دنیا کے سارے ممالک کے باشندے اور سبھی مذاہب کے پیر کاروں میں ڈپریشن کا مرض عام ہوتا جارہا ہے مسلم ممالک اور اسلام کے پرستار بہت حد تک اس سے محفوظ ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ انسان جوش، امنگ، اور کچھ کرنے کا حوصلہ اپنے مذہب اور اپنے عقیدے اور اپنے رب کی محبت سے حاصل کرتے ہیں، ایک وقت آتا ہے کہ دنیا کے سارے سہارے جھوٹے معلوم ہونے لگتے ہیں۔ مگر خدا کا سہارا ہمیشہ سچا معلوم ہوتا ہے۔ یہی وہ سہارا ہوتا ہے جس کے ذریعے انسان غموں کا دریا پار کرلیتا ہے۔اسلام کی تعلیم کے مطابق ہر طرح کے مصائب تکالیف، اور مشکلوں کا سامنا حوصلے کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اگر خدانخواستہ کبھی کسی کو مصائب وآلام اس طرح گھیرے کہ لگے اب زندگی دشوارہی نہیں ناممکن ہوگئی ہے۔ اور رنج و غم نے اس طرح ڈیرہ ڈال دیا ہے کہ اب اس سے نکلنا محال معلوم ہوتا ہے تب بھی ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ مومن موت کی تمنا اور آرزو نہ کرے۔ اور نہ خود سے خود کو ہلاک کرنے کی بات سوچے یہ بزدلی تو ہے ہی بدترین قسم کی خیانت بھی ہے۔ ہماری زندگی اللہ کی بخشی امانت ہے۔ یہ ہم سبھی لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس زندگی کی حفاظت کریں۔ اسی لیے تو اسلام نے اعلان کیا ہے کہ جس نے ایک بے گناہ اور بے قصور انسان کا قتل کیا گویا اس نے ساری بنی نوع انسان کو قتل کردیا انسان کے اندر قدرت نے بڑی صلاحیتیں و دیعت کی ہیں وہ اگر حوصلہ نہ ہارے تو ہر طرح کے حالات کا بہت خوش اسلوبی سے سامنا کر سکتا ہے اور اللہ کی مدد سے حالات کا رخ بدل بھی سکتا ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی انسان کو لگے کہ ان پر جو مصائب نازل ہوئے ہیں ان سے وہ چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا اور یہ کہ وہ ان مصائب اور پریشانیوں کے ساتھ زندہ بھی نہیں رہ سکتا ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کرے اور اس طرح دعا کرے۔
’’خدا یا! جب تک میرے حق میں زندہ رہنا بہتر ہو مجھے زندہ رکھ اور جب میرے حق میں موت ہی بہتر ہو تو مجھے موت دے دے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ غم کیسا ہی شدید ہو۔ حالات کتنے ہی خراب ہوں۔ زندگی کیسی ہی آزمائشوں کا شکار کیوں نہ ہو۔ اللہ کے نیک بندوں کو ہر حال میں صبر و شکر کے ساتھ اس کا سامنا کرنا چاہیے اور اسی سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ یہی ایمان اور اسلام کی تعلیم ہے۔