جمہوری نظام کی بقا کے لیے یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ انتخابات وقت پر ہوتے رہیں، عوام کو حق رائے دہی کے استعمال کا موقع ملتا رہے تاکہ جو امیدوار انہیں ناپسند ہیں، ان کے خلاف وہ ووٹ کر سکیں، اپنی پسند کے نئے امیدوار کا انتخاب کر سکیں۔ اسی لیے جمہوری حکومت کو ایک ایسی حکومت کہا گیا ہے جس میں عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اورعوام کے لیے ہی ہوتی ہے، البتہ دیکھنے کی بات یہ ضرور ہوتی ہے کہ عوام کی ترجیحات کیا ہیں، حق رائے دہی کا استعمال کرتے وقت وہ کن ایشوز کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ وطن عزیز ہندوستان میں وقتاً فوقتاً ایشوز بدلتے رہے ہیں مگر مذہب اور ذاتوں کی سیاست کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہوئی۔ حالیہ انتخابات میں تو یہ سیاست الگ ہی شکل میں نظر آئی۔ انتخابی ریلیوں میں ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کا ذکر ایک سے زیادہ بار ہوا۔ اس پر الیکشن کمیشن آف انڈیا نے کیا رخ اپنایا ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ اس کی یہ بڑی کامیابی ہے اور موجودہ حکومت کی بھی بڑی کامیابی ہے کہ اتنا طویل ترین انتخاب پرامن طریقے سے ہوگیا اور کل انتخابی نتائج کے اعلان کا دن ہے۔ امید یہی کی جاتی ہے کہ جیسے اب تک ملک میں امن رہا ہے، اسی طرح آئندہ بھی امن قائم رہے گا۔ جیت کسی بھی پارٹی کی ہو، یہ جیت ہندوستان کی ہے کہ یہاں جمہوری نظام قائم ہے،جمہوری طریقے سے انتخابات ہو رہے ہیں، لوگوں کو حق رائے دہی کے استعمال کا موقع مل رہا ہے، ورنہ پڑوسیوں کی حالت دیکھی جا سکتی ہے۔ چین میں جمہوریت کو کبھی پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ پاکستان میں ایک سے زیادہ بار ایسا لگا کہ جمہوریت کا پودا جڑ پکڑ رہا ہے مگریہ بات خوش فہمی ثابت ہوئی۔ فوج نے اپنی طاقت دکھا دی۔ وہاں جو کچھ گزشتہ انتخابات میں ہوا، وہ جمہوریت کے نام پر ایک تماشہ ہی تھا۔ ایسا سمجھا جاتا رہا ہے کہ بنگلہ دیش میں جمہوریت ہے۔ گزشتہ انتخابات کے بعد بھی کیا یہی بات کہی جائے گی؟ یہ ایک جواب طلب سوال ہے۔
دنیا کے بڑے جمہوری ملکوں کی جب بھی بات چھڑتی ہے،وطن عزیز کے ذکر کے بغیر بات ادھوری سمجھی جاتی ہے۔ جمہوری قدروں کے تحفظ کے معاملے میں اکثر ہمارے ملک کا موازنہ امریکہ سے کیا جاتا ہے لیکن یہ موازنہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ جمہوری ملک کے طور پر ہندوستان اپنی مثال آپ ہے، اس کا کسی ملک سے موازنہ کرنا ٹھیک نہیں۔ ہندوستان کی آبادی امریکہ کی آبادی سے 4گنا زیادہ ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ہندوستان اقتصادی طور پر مستحکم ہوا ہے اور اب اس کا شمار اقتصادی طور پر دنیا کے 5 بڑے ملکوں میں ہوتا ہے مگر امریکہ کی اقتصادیات ہندوستان کی اقتصادیات سے7گنا زیادہ ہے۔عالمی بازار میں اس کے ڈالر کی اہمیت دنیا کی کسی بھی کرنسی سے بہت زیادہ ہے، اس لیے امریکی حکومت لوگوں کی سہولتوں کے لیے،ان کے اطمینان کے لیے بہت کچھ کر سکتی ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ صدارتی انتخاب میں امریکہ میں جو بے چینی دیکھی گئی اور اقتدارکی منتقلی کے وقت وہاں جو کچھ ہوا، اس نے یہ اشارہ دے دیا کہ امریکہ کے جمہوری نظام کی تعریف ضرور کی جاتی ہے لیکن یہ نظام ایسا نہیں جیسا نظر آتا ہے جبکہ ہمارے ملک کے جمہوری نظام کی خوبی یہ ہے کہ یہاں انتخابی ریلیوں کے دوران لیڈران ایک دوسرے پر زبردست حملے کرتے ہیں، مذمت کرتے ہیں، تنقید کرتے ہیں لیکن انتخابی نتائج کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے رہے ہیں۔ اسی لیے امید کی جاتی ہے کہ اس بار بھی انتخابی نتائج خندہ پیشانی سے ہی تمام لیڈران قبول کریں گے۔ ویسے اس میں دو رائے نہیں ہے کہ اس بار کا پارلیمانی الیکشن اس معاملے میں الگ تھا کہ اپوزیشن پارٹیوں نے غضب کے اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ زبردست انتخابی مہم چلائی۔ اسی لیے آخر تک نتائج کے بارے میں پیش گوئی مشکل رہی۔ ایگزٹ پولس کے آنے کے بعد ایسا لگا تھا کہ نتائج کے سلسلے میں ایک رائے بن جائے گی لیکن اسی دن اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کی میٹنگ ہوئی اور اس کی طرف سے سیٹوں کے حصول کے معاملے میں جو دعویٰ کیا گیا، اس نے تذبذب کی سی کیفیت پیدا کر دی۔ نتائج کے سلسلے میں آرا بٹی ہوئی نظر آئیں۔ جمہوری نظام کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ ہر ایک کو اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ہے لیکن ایگزٹ پولس، دعوؤں اورحتمی نتائج میں میں فرق ہوتا ہے، اسی لیے 4 جون، 2024 کا دن بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن پتہ چل جائے گا کہ عوام نے چنا کس کو ہے، حکومت کس کی بنے گی۔
[email protected]
انتخابی نتائج کے اعلان کا دن آگیا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS