ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندوی
سات اکتوبر 2023کو شروع ہونے والی حماس اور اسرائیل کے درمیان خونی جنگ اب مشرق وسطیٰ کی تاریخ کا ایک ایساخوفناک باب بن چکی ہے جو پوری دنیا کے حکمرانوں کی بے حسی، بزدلی اور مصلحت پسندی کو عیاں کرتا ہے۔ صہیونی ریاست نے اس جنگ کا جواز حماس کے حملے کو بنا کر غزہ جیسے آباد، خوشحال اور خود کفیل خطے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا۔ یہ کوئی وقتی ردعمل نہیں بلکہ ایک گہری صہیونی سازش کا عملی اظہار ہے جس کا مقصد نہ صرف قبلہ اول کی بے حرمتی ہے بلکہ فلسطینی قوم کی مکمل نسل کشی کو عالمی سطح پر معمول بنانا ہے۔مظلوم فلسطینی مسلسل دو برس سے اسرائیلی ظلم و ستم کا شکار ہیں، غزہ پر دن رات بمباری ہو رہی ہے، بچے، عورتیں، ضعیف افراداور نوجوان سبھی اس بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اسرائیلی حملے منظم ہیں، اسپتال، اسکول، عبادت گاہیں اور پناہ گاہیں سب تباہ ہو چکی ہیں، سڑکیں، عمارتیں اور بازار ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں، لیکن دنیا کی نگاہ میں نہ یہ دہشت گردی ہے، نہ نسل کشی، نہ انسانیت کی توہین، بلکہ یہ سب کچھ ایک ’ریاستی دفاع‘کے حق کے نام پر جائز قرار دیا جا رہا ہے۔
غزہ کی مکمل ناکہ بندی کر دی گئی ہے، سرنگوں کے ذریعے قلیل مقدار میں مصر سے دوا اور کھانے پینے کی اشیاء پہنچائی جا رہی ہیں۔ وہاں زندگی کا ہر پہلو ایک اذیت ناک سوال بن چکا ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، کوئی ملک اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کو روکنے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی تو اس نسل کشی میں براہ راست شریک ہیں، انہیں اسرائیل کے جرائم سے کوئی اختلاف نہیں بلکہ وہ اسے جنگی اسلحہ، مالی امداد اور سیاسی پشت پناہی دے کر مزید مضبوط بنا رہے ہیں۔افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مغربی دنیا کے وہ ممالک جو ہر فورم پر انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، وہ اسرائیل کے مظالم پرخاموش ہیں۔ وہی ممالک جو روس کی یوکرین پر جارحیت کے خلاف ہر ممکن سفارتی اور معاشی دباؤ ڈال رہے ہیں، وہ فلسطینی عوام کی نسل کشی پر محض رسمی بیانات سے آگے نہیں بڑھتے۔ یہی مغربی ممالک آج اسرائیل کو جنگی ساز و سامان فراہم کر رہے ہیں تاکہ وہ غزہ میں انسانوں کا صفایا کر سکے۔دوسری طرف عرب دنیا کی بے حسی حد سے بڑھ چکی ہے۔ جو ممالک صدیوں تک اسلام کا پرچم بلند کرتے رہے، آج وہ مغربی مصنوعات کے سب سے بڑے خریدار، صہیونی سرمایہ داری کے محافظ اور اسرائیلی معیشت کو مضبوط بنانے والے بن چکے ہیں۔ اگر عرب دنیا متحد ہو کر احتجاج کرے، تجارتی بائیکاٹ کرے، عالمی منڈی میں اپنی حیثیت کا استعمال کرے تو دنیا مجبور ہو جائے گی کہ فلسطین پر دباؤ ڈالے، لیکن موجودہ عرب قیادت محض بیانات، قراردادوں اور کانفرنسوں تک محدود ہے۔ عرب دنیا کی بے حسی نے دشمن کو مزید دلیر کر دیا ہے، جس کا نتیجہ فلسطینی عوام کے قتل عام کی شکل میں نکل رہا ہے۔
صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ خوراک کی تلاش میں کھڑے بھوکے پیاسے عوام پر بمباری کی جاتی ہے، علاج کی کوشش میں نکلنے والے مریضوں کو گولی مار دی جاتی ہے اور معصوم بچوں کو ماں کی گود میں شہید کر دیا جاتا ہے۔ لیکن عرب ممالک نہ احتجاج کرتے ہیں، نہ اقوام متحدہ میں کوئی مؤثر اقدام اٹھاتے ہیںاور نہ ہی صہیونی ریاست کے خلاف اپنی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی لاتے ہیں۔ ایران اس تناظرمیں امت مسلمہ کیلئے ایک مثال بن کر سامنے آیا ہے۔ اس نے حوصلہ دکھایا، صہیونی عزائم کو للکارا، فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کی۔ اگرچہ بعض حلقے ایران کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں، لیکن اس کی فلسطین کے حوالے سے استقامت اور بیباکی سے انکار ممکن نہیں۔ یہ وہی جذبہ ہے جو افغانستان، عراق، شام اور لیبیا جیسے خطوں کی تباہی سے بچنے کے لیے امت مسلمہ کو اپنانا ہوگا۔اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے حالیہ ویڈیو بیان میں کہا کہ اسرائیل صرف اس صورت میں جنگ بندی پر آمادہ ہوگا جب حماس ہتھیار ڈال دے اور اپنی حکومتی حیثیت ختم کرے۔ یہ بیان امن کی پیشکش نہیں بلکہ مکمل غلامی کا مطالبہ ہے۔ اس کے برخلاف حماس نے واضح کیا ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا، انسانی امداد کی بلا رکاوٹ ترسیل اور مستقل امن کے لیے ٹھوس ضمانتوں کے بغیر کسی معاہدے کو قبول نہیں کرے گی۔
حماس نے بفر زونز اور امریکی اسرائیلی حمایت یافتہ امدادی نظام کو بھی مسترد کر دیا ہے، کیونکہ ان کے نتیجے میں اب تک ہزاروں شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسرائیل امن نہیں چاہتا، وہ مکمل غلبہ اور تسلط چاہتا ہے۔ اس کا ہدف صرف حماس نہیں بلکہ پورے فلسطینی معاشرے کا خاتمہ ہے۔ وہ غزہ کی زمین کو بے مکین بنانا چاہتا ہے تاکہ وہاں اپنی مرضی کا انتظام قائم کیا جا سکے، لیکن حماس سمیت تمام فلسطینی گروہ اس ناپاک منصوبے کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، اور ان کی یہ مزاحمت ایک فطری اور جائز جدوجہد ہے۔آج صورت حال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عالم اسلام کے عوام تو بیدارہیں، لیکن ان کی قیادت سوئی ہوئی ہے۔ مغربی مصنوعات کا بائیکاٹ عوامی سطح پر کہیں کہیں شروع ہوا ہے، لیکن اس میں وسعت اور تسلسل کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا، تعلیمی ادارے، خطبات، شعری نشستیں، صحافتی ادارے سب کو فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کرنے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ صرف دعاؤں سے کام نہیں چلے گا، جب تک ہم عملاً دشمن کی معیشت کو کمزور نہیں کریں گے، اس کا ظلم بند نہیں ہوگا۔مسلمان ممالک کے تعلیمی اداروں،جامعات،مدارس اورمساجدمیں مسئلہ فلسطین کو مستقل عنوان بنایا جانا چاہیے۔
صرف احتجاجی بیانات نہیں بلکہ علمی مباحث، تاریخی پس منظر اور موجودہ حقائق کے تناظر میں نئی نسل کو یہ سکھانا ہوگا کہ فلسطین کا مسئلہ صرف ایک زمینی تنازع نہیں بلکہ امت کا عقیدہ، تاریخ اور غیرت کا مسئلہ ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف جنگی محاذ پر نہیں بلکہ تعلیمی، معاشی، سفارتی اور سماجی سطح پر بھی مزاحمت کی ضرورت ہے۔آج ہر مسلمان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کا ہے۔ یہ انسانیت کا مسئلہ ہے، ایمان کا تقاضہ ہے، تاریخ کا امتحان ہے۔ اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی، تو کل ہمارے دروازے پر بھی یہی جنگ دستک دے سکتی ہے۔وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہوں، ان کے حق میں آواز بلند کریں، صہیونی و صلیبی سازشوں کو بے نقاب کریںاور اس خواب غفلت سے جاگ جائیں جس نے ہمیں بے حس، بے سمت اور بزدل بنا دیا ہے۔فلسطین کی حمایت دراصل انسانیت کی حمایت ہے، عدل و امن کی بحالی کی شرط ہے اور امت مسلمہ کے ضمیر کی بیداری کی علامت ہے۔ اگر آج بھی ہم نے یہ موقع گنوا دیا، تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔