انتخابی شفافیت کی گرتی ہوئی دیوار

0

جمہوریت کا حسن اس کی شفافیت، جوابدہی اور عوامی اعتماد میں مضمر ہوتا ہے۔ مگر جب یہی اعتماد دائو پر لگ جائے تو نظامِ انتخاب اپنی معنویت کھو بیٹھتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی حالیہ ہدایات،جن کے تحت انتخابی عمل کی ویڈیو اور تصویری دستاویزات کو ایک سال کے بجائے صرف 45 دن تک محفوظ رکھا جائے گا ایک ایسا فیصلہ ہے جو نہ صرف قابل اعتراض ہے بلکہ جمہوری عمل کی بنیادوں کو ہلانے والا ہے۔6 ستمبر 2024 کو جاری کردہ سابقہ ہدایات میں انتخابی عمل کے مختلف مراحل جیسے نامزدگی، انتخابی مہم، پولنگ اور ووٹ شماری سے متعلق فوٹیج کو 3 ماہ سے لے کر ایک سال تک محفوظ رکھنے کی وضاحت تھی۔ یہ دستاویزات ممکنہ انتخابی بدعنوانیوں یا بے ضابطگیوں کی جانچ میں کلیدی کردار ادا کرتی تھیں۔

گزشتہ دنوںاسی کمیشن نے اچانک ایک نئی ہدایت جاری کرتے ہوئے اس مدت کو صرف 45 دنوں تک محدود کر دیا ہے۔ اگر اس مدت میں کوئی انتخابی درخواست داخل نہ ہو تو نہ صرف فوٹیج ضائع کی جا سکتی ہیں بلکہ یہ سمجھی جائے گی کہ انتخابات درست اور بے داغ تھے۔انتخابی پیٹیشن دائر کرنے کی قانونی مہلت 45 دن ہے مگر عملاً اس مدت میں ثبوت جمع کرنا‘ قانونی مشاورت حاصل کرنا اور درخواست داخل کرنا آسان نہیں۔ بہت سے امیدوار اور عام شہری ایسے معاملات میں قانونی پیچیدگیوں اور وقت کی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس تناظر میں ثبوت کی حفاظت محض ایک انتظامی معاملہ نہیں بلکہ ایک اصولی ذمہ داری ہے۔الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ ویڈیو فوٹیج کا ’’غلط استعمال‘‘ ہو رہا ہے اور یہ رازداری کے حق کی خلاف ورزی کا سبب بن رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ویڈیو ریکارڈنگ جیسا کہ خود کمیشن کہتا ہے‘ قانوناً لازمی نہیں بلکہ صرف ایک اندرونی انتظامی ٹول ہے تو پھر اس کے محفوظ رکھنے سے اتنا گریز کیوں؟ کیا سچائی کا دفاع کرنے کیلئے شفافیت قربان کی جائے گی؟ یا انتخابی رازداری کی آڑ میں بدعنوانی کے امکانات کو تحفظ دیا جائے گا؟

راہل گاندھی نے اس فیصلے کو ’’جمہوریت کیلئے زہر‘‘ قرار دیتے ہوئے بجا سوال اٹھایا ہے کہ جب ووٹر لسٹ مشین- ریڈ ایبل فارمیٹ میں نہیں دی جائے گی، جب سی سی ٹی وی فوٹیج چھپا دی جائے گی‘ جب انتخابی ویڈیوز 45 دن کے اندر حذف کر دی جائیں گی تو پھر انتخابی بے ضابطگیوں کا پردہ فاش کیسے ہوگا؟ شفافیت کی جگہ اگر پردہ پوشی لے لے، تو جمہوریت نہیں، محض ایک فریب باقی رہ جاتا ہے۔یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب مہاراشٹر جیسی ریاستوں میں انتخابات پر پہلے ہی سوالات اٹھ رہے تھے۔ راہل گاندھی نے انتخابی بوتھ کی فوٹیج کی عوامی دستیابی کا مطالبہ کیا تھا تاکہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیق کی جا سکے۔ مگر اب جب خود کمیشن نے دستاویزی ثبوت کو چھپانے یا جلدی مٹانے کا بندوبست کر لیا ہو تو کوئی بھی تحقیق محض ایک رسمی کارروائی بن کر رہ جائے گی۔دسمبر 2024 میں انتخابی قوانین میں ترمیم کے بعد عام ووٹر کیلئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ انتخابات کے دن کے حالات کو خود ملاحظہ کرے۔

اب نہ سی سی ٹی وی ویڈیوز عوام کیلئے دستیاب ہوں گی، نہ ویب کاسٹنگ اور نہ ہی امیدواروں کی ویڈیو مہم کے مکمل ریکارڈ۔ ایسے میں نہ صرف انتخابی عمل کی شفافیت بلکہ اس کی ساکھ بھی زائل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ جمہوریت کی بنیاد اس پر ہے کہ عوام اپنے حق رائے دہی کے استعمال میں آزاد، محفوظ اور باخبر ہوں۔ لیکن جب انتخابی نگرانی کے آلات محدود، شواہد غائب اور سوالات غیر مطلوب ٹھہریں تو شک، بے یقینی اور بداعتمادی جنم لیتے ہیں۔ نئی ہدایات صرف ایک انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ جمہوریت کی کھوکھلی ہوتی عمارت کی علامت ہیں۔الیکشن کمیشن کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ وہ صرف انتخابات کا انتظامی نگراں نہیں بلکہ جمہوریت کا محافظ بھی ہے۔ اگر وہی ادارہ سوالوں سے بچنے کیلئے ثبوت مٹا دے تو عوام کا اعتبار اور نظامِ انتخاب کا جواز دونوں مجروح ہو جاتے ہیں۔ جمہوریت میں فیصلے کا اختیار عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے، لیکن جب عوام کو سچائی تک رسائی ہی نہ ہو، تو ووٹ کی حرمت بھی سوالیہ نشان بن جاتی ہے اور جب سوال اٹھانا خود جرم بنا دیا جائے تو سمجھ لیجئے کہ جمہوریت اب محض ایک رسم بن گئی ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS