ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات: عبیداللّٰہ ناصر

(اسرائیل نے اوسلو اور ابراہیمی معاہدہ ایک ساتھ دفن کر دیا)

0

عبیداللّٰہ ناصر

اسرائیل کا قطر پر حملہ بھلے ہی اچانک اور بلا اشتعال ہو، بھلے ہی یہ بدترین اعتماد شکنی ہو، بھلے ہی یہ احسان فراموشی ہو، لیکن یہ صہیونیوں کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ گزشتہ دہائی یا اس سے بھی کچھ ز یادہ عرصہ میں قطر کی راجدھانی دوحہ نے جینوا کی حیثیت حاصل کرلی ہے اور کئی اہم عالمی مسائل حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ خود اسرائیل نے حماس کے قبضہ سے اپنے جن شہریوں کو رہا کرایا ہے وہ قطر کی ثالثی سے ہی ممکن ہو سکا تھا۔قطر میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے، امریکہ نے قطر کے تحفظ کی یقین دہانی کرا رکھی ہے پھر بھی اس نے اسرائیل کو قطر پر حملہ کرنے دیا، بھلے ہی وہ لاکھ کہے کہ یہ حملہ اس کے علم میں نہیں تھا مگر اس سفید جھوٹ پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔یہی نہیں ا فغانستان میں امریکہ جس طرح پھنسا ہوا تھا، اس کی طاقت کا نشہ جس طرح افغانیوں نے اتار رکھا تھا، اس سے باعزت باہر نکالنے میں بھی قطر نے امریکہ کی بہت مدد کی تھی، ان سب کا صلہ اسے یوں ملا جس سے نہ صرف قطر بلکہ تمام عرب خلیجی اور اسلامی ممالک فکر مند ہیں۔عمومی خیال یہ ہے کہ اسرائیل کا اگلا نشانہ ترکیہ ہوگا یعنی خطہ کا کوئی ملک خود کو محفوظ نہ سمجھے۔نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کے قیام کے امکان کو یکسر خارج کر کے اور پورے فلسطین کو اسرائیل کی زمین کہہ کے گریٹر اسرائیل کا اپنا موقف واضح کر دیا ہے اور یہ گریٹر اسرائیل صرف 1948 سے پہلے کے فلسطین تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ ’’صہیونی دانشوروں‘‘نے جس خیالی اژدہا کے دائرہ میں جو خطہ دکھایا ہے، ان سب کا احاطہ کرے گا۔

دوحہ میں عرب لیگ اور تنظیم اسلامی کانفرنس کے پہلے وزرائے خارجہ کی میٹنگ ہوئی اور اس کے بعد سربراہان مملکت کی میٹنگ بھی ہوئی لیکن ایسے اجلاس تو سیکڑوں بار ہوچکے ہے اور ہر بار وہی نشستند گفتند برخاستند والی حالت رہی ہے۔جب 60-70ہزار مجبور بے بس خانماں برباد فلسطینی بچوں، بزرگوں، عورتوں کی کراہ ان کی بزدلی، مصلحت کوشی اور بے حسی ختم کرکے ان کی جرأت ایمانی نہیں جگا سکی تو قطر پر ہوا اسرائیل کا یہ ناکام حملہ ان پر کیا اثر کرے گا، ان میں تو اتنی ہمت بھی نہیں ہو پائے گی کہ قطر، ترکیہ اور دیگر عرب ملکوں سے امریکی فوجی اڈہ ہی ہٹوا کر امریکہ کو اسرائیل کی بیجا نازبرداری پر اپنی عملی ناراضگی ہی ظاہر کر دیں۔گفتار کے ان غازیوں کے ہاتھوں ملت اسلامیہ کب تک یونہی ذلیل و خوار ہوتی رہے گی اور کب تک فلسطینی قبلہ اول کی آزادی کے لیے جام شہادت نوش کرتے رہیں گے، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

اسرائیل نے گزشتہ دنوں قطر کی راجدھانی دوحہ کے ڈپلومیٹک علاقوں پر اچانک بمباری کر کے امریکہ کی ثا لثی میں ہو رہی مفاہمتی گفتگو میں شرکت کے لیے آئے حماس کے لیڈروں کو قتل کرنے کی کوشش کی، اس حملے میں حماس نے6افراد کی موت کی تصدیق کی مگر بتایا کہ اس کے لیڈران محفوظ ہیں۔ اسرائیل نے یہ حملہ کر کے ثابت کر دیا کہ عرب ممالک تو خیر اس کی کسی گنتی میں ہیں ہی نہیں،وہ امریکہ کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔یہ اعتماد اسے امریکہ کی یہودی لابی سے ملا ہے جس کے سامنے ہر امریکی صدر سرنگوں ہونے کومجبور ہوتا ہے۔قطر میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے، اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ امریکہ کے علم کے بغیر اس نے اتنی کامیابی سے یہ حملہ کر دیا ہو۔ حالانکہ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے ان کو بتائے بغیر یہ حملہ کیا تھا اور انہوں نے اس پر ناراضگی بھی ظاہر کی تھی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ہو سکتا ہے نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کو نہ بتایا ہو مگر جہاں ان کا اتنا بڑا فوجی اڈہ ہے، وہاں امریکی انٹلیجنس کا یہ حال ہے کہ وہ اس حملے کی بھنک نہ پا سکی ہو، یہ یقین کرنا مشکل ہے۔اس حملے سے ایک بات یہ ثابت ہو گئی کہ نہ صرف عالمی رائے عامہ بلکہ خود اندرون ملک بھی جنگ کے مخالفین کو نیتن یاہو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور اپنی شیطانی من مرضی جاری رکھے ہوئے ہیں۔وہ حماس کے خاتمہ کے نام پر اب تک 60-70ہزار لوگوں کی جان لے چکے ہیں، غزہ کو کھنڈر بنا دیا، خود اسرائیل کا بھی ناقابل تلافی معاشی نقصان ہی نہیں کیا بلکہ اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا جو بھرم تھا، اسے پہلے حماس، حزب اللہ، حوثی اور پھر ایران نے بھی چکنا چور کر دیا ہے لیکن امریکی مدد اور سیاسی نیز ڈپلومیٹک حمایت سے وہ من مانی کرتا چلا جا رہا ہے۔ اس حملے سے نیتن یاہو نے مذاکرات کے سارے دروازے بند کر دیے ہیں، اسرائیلی عوام خاص کر یرغمال بنائے گئے افراد کے اہل خانہ فکر مند ہیں کہ نیتن یاہو کے اس خونیں جنون کی قیمت انہیں ادا کرنی پڑ رہی ہے کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ نیتن یاہو نے غزہ میں چاہے جیسی تباہی مچائی ہو، وہ حماس کو نیست نابود کرنے اور یرغمالوں کو رہا کرانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔

نیتن یاہو کے اس جنون کی دوسری قیمت اسرائیل یہ ادا کر رہاہے کہ عالمی برادری میں وہ با لکل الگ تھلگ پڑ چکا ہے اور فلسطینیوں کی حمایت نیز فلسطینی ریاست کے قیام کو جو عالمی حمایت آج مل رہی ہے، وہ غزہ آپریشن سے پہلے نہیں تھی۔ برطانیہ، فرانس، اسپین، کناڈا سمیت یوروپ کے سبھی ملکوں کی حکومتوں کے علاوہ وہاں کے عوام کھل کر اسرائیل کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں، اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے قیام کے مسئلہ پر ہوئی حالیہ ووٹنگ میں امریکہ، اسرائیل اور چند ملکوں کو چھوڑ کر ہندوستان سمیت سبھی ملکوں نے اس کی حمایت کی ہے۔دوسری جانب نیتن یاہو نے مزید دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوے صاف کہہ دیا ہے کہ پورا فلسطین ہمارا ہے ،اس کی پوری زمیں پر وہ قبضہ کر لے گا اور فلسطین نام کے کسی ملک کے وجود کو برداشت نہیں کرے گا۔نیتن یاہو نے یہ اعلان کرکے امریکی ثا لثی میں ہوئے اوسلو معاہدہ کو ہی نہیں دفن کر دیا ہے بلکہ خود صدر ٹرمپ کی کوششوں سے عرب ملکوں سے جو ابراہیمی معاہدہ ہوا تھا، اسے بھی دفن کر دیا ہے۔ یہ وعدہ خلافی، یہ معاہدہ شکنی صہیونی نظریہ کے عین مطابق ہے جو کہتا ہے کہ مقصد کے حصول کے لیے ہر جائز ناجائز طریقہ استعمال کیا جانا چاہیے۔

قطر اور سبھی عرب ملکوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ نہ امریکہ اور نہ ہی اسرائیل ان کے سگے ہوں گے، امریکہ صرف وہی کرے گا جو اسرائیل کے مفاد میں ہوگا اور اسرائیل اپنی سرحدوں کی توسیع کے لیے کسی بھی وقت کسی بھی پڑوسی عرب ملک کو اپنا نشانہ بنالے گا۔ مصر، شام، اردن تو درکنار سعودی عرب تک کو بھی وہ بخشے گا نہیں کیونکہ وہ انہیں لقمہ تر سمجھتا ہے، رہ گئے بیچارے فلسطینی تو انہیں اپنی جنگ خود ہی لڑتے رہنا ہوگا کیونکہ اب عربوں میں صلاح الدین ایوبی تو درکنار کوئی جمال عبد الناصر اور شاہ فیصل بھی نہیں پیدا ہوگا۔
اسرائیل نے جو کیا، وہ اس کی فطرت کے عین مطابق ہے، اپنے وجود سے لے کر آج تک اس نے نہ کسی عالمی قانون کی پروا کی ہے نہ عالمی رائے عامہ کی اور نہ ہی اسے کسی سے کوئی خوف ہے، وہ ایک پاگل ہاتھی کی طرح اپنے سامنے آنے والے کو کچل دینے میں ہی یقین رکھتاہے۔ ٹھیک اسی طرح قطر نے بھی عربوں کی روایتی بزدلی، بے ہمتی اور بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ قطر کے پاس امریکہ سے لیے ہوئے جدید ترین جنگی جہاز ہیں لیکن جب اسرائیل کا حملہ ہوا تو وہ کبوتروں کی طرح اپنی کابک میں ہی گھسے رہے، کوئی ایک جہاز بھی قطر کے آسمان پر نہیں اڑا۔

یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کتنے عرب ملکوں کی فضائی سرحدوں کو پار کر کے اسرائیل نے یہ حملہ کیا، کسی ایک نے بھی اسے روکنے کی کوشش نہیں کی، ان سے لاکھ درجہ بہتر تو خانماں برباد فلسطینی ہیں جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کے سامنے خود سپردگی نہیں کی ہے۔ یمن ایک غریب ملک ہے لیکن حوثی جنگجو اسرائیل ہی نہیں، امریکہ کو بھی نشانہ بنا لیتے ہیں۔ایران نے اسرائیل کے اندر تک گھس کر اس کے شیطانی آئرن ڈوم کو تاش کے پتوں کی طرح بکھرا دیا مگر1973کے بعد سے آج تک کسی عرب ملک کی طرف سے اسرائیل پر ایک فائر تک نہیں ہوا ہے۔نہ یہ مصلحت کوشی ہے، نہ ہی امن پسندی، یہ کھلی ہوئی بے شرمی، بزدلی اور بے ہمتی ہے جو عربوں کی تاریخ سے میل نہیں کھاتی کیونکہ تاریخ کے کسی بھی دور میں عرب بزدل نہیں رہے ہیں۔اب عالمی برادری کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ 1948 میں فلسطین کی تقسیم سے لے کر اوسلو معاہدہ تک فلسطینی ریاست کے قیام کے تمام معاہدہ اور وعدے کیا تاریخ کے کوڑے دان میں چلے جائیں گے؟ کیا عالمی برادری ایک چھوٹے سے ملک کے سامنے یوں ہی بے بس اور مجبور رہے گی؟

obaidnasir@yahoo.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS