محمد حنیف خان
جب سرکاری ادارے حکمراں کی جیب میں ہوں تو اس سے کسی بھی طرح کی امید بیکارہوتی ہے۔یوں تو یہ کلیہ آمریت کے لیے ہے لیکن اب جمہوریتیں بھی دھیرے دھیرے آمریت میں تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔بس فرق اتنا ہے کہ آمریت میں حکمراں چکنی چپڑی باتیں نہیں کرتا، وہ چور دروازے نہیں تلاش کرتا،اسے کسی کی فکر نہیں ہوتی جو کرنا ہو وہ علی الاعلان کہتا اورکرتا ہے لیکن جمہوریت میں قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے۔شومئی قسمت کہ اسی کو سیاست کا نام دے دیا گیا ہے جو آمریت سے بھی بدتر ہے۔جمہوریت کے پردے میں آمریت کسی ایک ملک کی بیماری نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی وبا ہے جو ہر ملک میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہ ایک ایسی اخلاقی گراوٹ ہے جس نے انسانیت اور انسانی روح کو صرف زخمی نہیں کیا ہے بلکہ اس کو اس طرح کچلا ہے کہ وہ نزع کے عالم میں پہنچ گئی ہے۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں جمہوری حکومتوں کے حکمراں اسٹیج سے انسانیت کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں اور وہی انسانیت کو قعر مذلت میں پہنچانے میں مصروف ہوتے ہیں۔
لال قلعہ کی فصیل سے ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی نے خواتین کے احترام کے عزم کا اظہار کیا بلکہ پورے ملک کو یہ عزم دلایا کہ ہمیں نصف بہتر کا احترام کرنا ہے اور اسے ہرشعبہ میں آگے لے جانا ہے تاکہ ملک کی ترقی کے پہیہ کو مزید رفتار دی جا سکے۔انہوں نے کہا: ’’خواتین کا احترام ملک کی ترقی کا مضبوط ستون ہے،ہمیں اپنی ’ناری شکتی‘میں تعاون چاہیے۔‘‘دوسری طرف ان کی ہی گجرات حکومت نے اسی دن ’’عام معافی‘‘ کے تحت2002میں ہوئے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو اجتماعی آبرو ریزی کے 11مجرمین کو گودھرا جیل سے رہا کردیا۔بی جے پی حکومت کے ’’ناری شکتی ‘‘ میں اس تعاون سے پورا ملک حیرت زدہ رہ گیا۔سوائے ان لوگوں کے جو اقتدار میں کسی بھی طرح سے شریک ہیں یا اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
بلقیس بانو آبروریزی معاملہ کوئی عام معاملہ نہیں ہے، یہ دہلی کے نربھیا کیس سے بھی زیادہ دردناک ہے،اس میں 14لوگوں کو قتل بھی کیا گیا تھا،جس میں تین برس کی بلقیس بانو کی بیٹی بھی تھی اورجس وقت اس کی آبروریزی کی گئی، اس وقت وہ پانچ ماہ کی حاملہ بھی تھی۔اس طرح کے جرم کے مرتکبین کی کسی بھی طرح حمایت کرنا یا حوصلہ افزائی کرنا ذہنی دیوالیہ پن ہی کہا جائے گا اور ایسی سوچ رکھنے والوں کا یہ عمل زخم پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ لیکن کوئی بھی ان کے خلاف زبان نہیں کھولتا ہے۔کوئی بھی یہ سوال وزیراعظم سے نہیں کرتاہے کہ یہ کیسی ’’ناری شکتی‘‘ ہے کہ ناری کا چیر ہرن کرنے والوں کو عام معافی دی گئی اور مجرمین کا شان و شوکت سے استقبال کیا گیا۔کتنی طویل لڑائی کے بعد یہ مجرمین کیفر کردار تک پہنچے مگر حکومت نے موقع ملتے ہی جدید پالیسی کے بجائے قدیم پالیسی کے تحت ان کو عام معافی دے دی۔اسی کو چور دروازہ اور قانون کے اخلاقی پہلو کو نظرانداز کرناکہتے ہیں تاکہ ان کے اس عمل پر کوئی عدالت میں سوال نہ کھڑا کرسکے مگر اخلاقیات کی عدالت میں یہ حکمراں کیسے جواب دیں گے؟
گجرات حکومت کی2014میں تیار کی گئی موجودہ پالیسی کے مطابق اجتماعی آبروریزی اور قتل دونوں کیلئے مجرم قرار پائے افراد کو وقت سے قبل رہا نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن 1992کی پالیسی میں اس پر کوئی حکم امتناع نہیں ہے جس پالیسی کے تحت ان سبھی مجرمین کو رہا کیا گیا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت کو ایسے مجرمین کی رہائی کے لیے 2014کی پالیسی چھوڑ کر 1992کی پالیسی کیوں اختیار کرنی کرنی پڑی؟تو اس کا جواب ووٹ کی سیاست کے سوا کچھ نہیں۔اس کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان افراد نے کس طرح سے معاشرے میں جرائم کا ارتکاب کیا اور ڈرو خوف کا ماحول تیار کیا۔
ایسے گھناؤنے جرائم کے مجرمین کو رہا کرنے کا مطلب ہے کہ لوگوں کو اس طرح کے جرائم کرنے کا حوصلہ ملے،ان کے دل سے قانون کا خوف نکل جائے۔اجتماعی آبروریزی اور قتل کے مجرمین کو کسی بھی طرح کی رعایت نہ صرف قابل اعتراض ہے بلکہ یہ ملک کی سلامتی اور اس کے امن و امان کے لیے خطرہ بھی ہے۔جیسا کہ نربھیا آبروریزی کے معاملے میں کیا گیا تھا۔اس وقت پورا ملک سڑکوں پر تھا اور مجرمین کو تختہ دار تک پہنچا کر ہی اس نے دم لیا لیکن اس خاتون کا تعلق چونکہ اقلیتی طبقے سے ہے، اس لیے نہ تو 2002میں کوئی اس کے ساتھ کھڑا ہوا تھا اور نہ ہی آج جب ایک طویل لڑائی لڑنے کے بعد مجرمین کو اس نے کیفر کردار تک پہنچایا اور وہ حکومت کی غلط پالیسی کی وجہ سے رہا کردیے گئے۔ آبروریزی کے وقت اس کے جسم کو نوچا کھسوٹا گیا تھا اور رہائی کے وقت اس کی روح کو بھی کچل ڈالا گیا ہے۔
جس حکومت کے دور میں جب اس طرح کا عمل ہوتا ہے تو نہ صرف حکومت سے اعتبار اٹھ جاتا ہے بلکہ وہ خوف دوبارہ پورے معاشرے میں در آتا ہے جس سے وہ نکل رہا ہوتا ہے۔گجرات فسادات کے بعد پورے ملک میں ڈر اور خوف کا جو ماحول بنا اس کو کسی بھی طرح سے کم نہیں ہونے دیا جا رہا ہے۔ایسے واقعات اور ایسی واردات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جن کی وجہ سے مسلمان خوف کے سائے سے باہر نہیں نکل پا رہا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ووٹ کی سیاست کے لیے ڈر اور خوف کا یہ کھیل کیوں کھیلا جا رہا ہے؟ جب کہ حکومت توسب کی محافظ ہوتی ہے۔اس کا جواب کوئی مشکل نہیں ہے۔بی جے پی کو معلوم ہے کہ وہ کبھی ترقیاتی ایشوز کے سہارے اقتدار تک نہیں پہنچ سکتی۔ایسے میں کسی طرح کی کوئی امید بے معنی ہے۔لیکن چونکہ حکومت میں آنے کے بعد پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ایک دھڑا آئینی ہوجاتا ہے جو اقتدار میں ہوتا ہے اور دوسرا غیر آئینی جس کا سروکار سماجی سیاست سے ہوتا ہے۔آئینی دھڑے کی اپنی آئینی اور اخلاقی ذمہ داریاں ہوتی ہیں،اسی لیے ان کے قول و فعل پر عوام کی نظر رہتی ہے اور اس کے دور رس نتائج معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔بی جے پی کے آئینی دھڑے نے اس معاملے میں جس فکر اور معاشرے کے لیے منفیت کا ثبوت دیا ہے وہ ہندوستانی خواتین کے عزت و احترام کے ساتھ ہی ان کے وجود کے لیے حد درجہ مضر اور خطرناک ہے۔اس کا یہ عمل اور اس کے اثرات صرف اس کی سوچ کے دائرے تک محدود نہیں،نہ ہی بلقیس بانو اور رہا کیے گئے گیارہ افراد اور ان کے کنبوں تک محدود ہے۔اسی طرح یہ صرف مسلمانوں اور اقلیتوں کو اپنی زد میں لیتے ہیں بلکہ اس کے منفی اثرات پورے سماج پر مرتب ہوں گے۔ایک خواتین میں خوف پیدا ہوگااور دوسری مردوں کو اس راہ پر چلنے کی ترغیب ملے گی۔نربھیا کیس میں مجرمین کی پھانسی کی وجہ سے معاشرے میں ایسی ذہنیت کے افراد میں جو ڈر اور خواتین میں جو اعتماد پیدا ہوا تھا حکومت کے اس فیصلے نے جھٹکے میں دونوں کو ختم کردیا ہے۔حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس طرح کا فیصلہ روح کو بھی قتل کردیتا ہے اور جمہوریت میں ملک کسی خاص فکر سے نہیں بلکہ قانون کی بالادستی سے چلتا ہے جس کا ایک پہلو اخلاقی ہوتا ہے جو بہت توانا ہوتا ہے جسے حکومت نے نظر انداز کرکے بڑی غلطی کی ہے۔
[email protected]