دنیا بھر میں14فروری کو منائے جانے والے ویلنٹائن ڈے کے موقع پر گائے کو گلے لگانے کا فرمان حکومت نے آج واپس لے لیا ہے۔ اس سے پہلے حکومت بضد تھی کہ14فروری کو ویلنٹائن ڈے کے بجائے ’ کائو ہگ ڈے‘ کے طور پر منایاجائے۔اپنی بیوی، بہن، والدین دوست و احباب کو گلے لگانے کے بجائے گائے کو گلے لگایا جاناچاہیے کیوں کہ گائے ہندوستان کی تہذیب اور دیہی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جسے ’کام دھینو اور گئوماتا‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔گائے ایک ماں کی طرح ہے جو اپنے بچوں پر سب کچھ لٹا دیتی ہے۔
ماہی پروری، حیوانات اور ڈیری کی مرکزی وزارت کی ہدایت پر اینیمل ویلفیئر بورڈ آف انڈیا کی جانب سے جاری ہونے والے اس سرکلر کے مطابق مغربی ثقافت کی ترقی کی وجہ سے ویدک روایات تقریباً معدوم ہونے کے دہانے پر ہیں۔ غیر ملکی تہذیب کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہندوستانی ثقافت خطرے میں پڑگئی ہے اور مغربی تہذیب کی چکاچوند میں ہم اپنی ثقافت اور ورثے کو تقریباً بھول چکے ہیں۔گائے کے بے پناہ فوائد کے پیش نظراسے گلے لگانے سے لوگوں میں جذباتی استحکام آئے گا اور ذاتی اور اجتماعی خوشی میںبھی اضافہ ہوگا۔ گائے کی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے گائے سے محبت کرنے والے 14 فروری کو ’ گائے کو گلے لگانے کے دن کے طور پرمنائیں ‘ اس سے ان کی زندگی میں مثبت توانائی اور لامحدود خوشی حاصل ہوگی۔
گائے، بھینس، بیل ہوں یا کتے،بلی یا پھرکوئی اوربے زبان جانور خداکی مخلوقات میں سے ہیں اور ہمارے لیے ہی انہیں پیدا کیاگیا ہے، ان کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں گلے لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جانوروں سے محبت کرنے والے سیکڑوں ادارے اور تنظیمیں دنیا بھرمیں کام کرتے ہیں اور وہ معصوم بے زبان مخلوق خدا کا خیال بھی رکھتے ہیں، اس کیلئے انہیں سرکاری سطح سے کسی ہدایت،فرمان، نوٹس اور سرکلر کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ہے۔
اینیمل ویلفیئر بورڈ نے اپنے سرکلر میں عین14فروری کا تعین اور مغربی تہذیب و ثقافت کی چکاچوند کا ذکرکرکے یہ بتایا ہے کہ اس کا اصل مقصد گائے سے محبت کا اظہار نہیں بلکہ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر انسان کی انسان سے محبت کے اظہار کوروکنے کی ایک منظم کوشش تھی۔ ہندوستان میں اب تک یہ کوشش راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ تنظیمیں، بجرنگ دل، ہندو سینا اور اسی قبیل کے دائیں بازوکے شدت پسند عناصر ہی کرتے رہے تھے لیکن مودی حکومت میں اس کام کیلئے سرکاری اداروں کو بھی آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی۔بین مذاہب شادی کو ’لوجہاد‘ کا نام دے کر نفرت انگیز مہم تو خیرسے اب تک جاری ہے اوراس سلسلے میں قانون سازی تک کرلی گئی ہے تاکہ محبت کے بڑھتے ہوئے دائرے کو محدود رکھ کر نفرت کو تیزی سے پھیلایاجاسکے۔ اس کوشش میں بہت حد تک کامیابی بھی ملی ہے لیکن نفرت پھیلانے والوں کو یہ کامیابی کم لگ رہی ہے، اس لیے گائے سے محبت کے نام پر ایک نئی چال آزمائی گئی۔گائے سے اگر حقیقی محبت ہوتی تو ان کی دیکھ ریکھ میں بہتری لانے اورا ن میں پھیلنے والی موذی بیماریوں کی روک تھام پہلی ترجیح ہونی چاہیے تھی۔ ہندوستان میںگایوں کی اکثریت آج Lumpy نام کی خطرناک جلدی امراض میں مبتلا ہے۔ یہ مرض ایک موذی وائرس کی طرح ایک جانور سے دوسرے میں پھیل کر اسے موت کے منہ میںپہنچادیتا ہے۔ آج بھی ملک کی مختلف ریاستوں میں دیکھ ریکھ نہ ہونے کی وجہ سے سیکڑوں گائیں سڑکوں پر بھٹکتی رہتی ہیں اور گاڑیوں کے نیچے کچل کر ہلاک ہوجاتی ہیں۔ بی جے پی کی حکمرانی والی بیشتر ریاستوں میں قائم کی گئیں ’گئوشالائیں‘ حقیقت میں گایوں کا قبرستان نظرآتی ہیں۔
ان حالات میں اینیمل ویلفیئر بورڈ آف انڈیا کے احمقانہ فرمان کے خلاف احتجاج کا ہونا ضروری تھا۔گزشتہ ایک دہائی سے جاری انسانوں سے نفرت کی طوفانی مہم کے دوران اس تغلقی فرمان کی وجہ سے لوگوں میں شدیداضطراب ا ور بے چینی پیدا ہوگئی تھی۔لوگ یہ اچھی طرح سمجھ رہے تھے گائے کو گلے لگانے کی مہم فرقہ وارانہ منافرت کی ایک نئی مہم بھی ثابت ہوسکتی ہے اور یہ ملک میںہندو- مسلم منافرت کو ہوادینے کا سبب بنے گی، اس کیلئے ملک کے سنجیدہ طبقہ نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور اس قدم کی حقیقت بتادی۔کئی دنوں تک پس وپیش اور لوگوں کو سمجھانے میںناکام رہنے کے بعد بالآخر حکومت کو اپنا فرمان واپس لینا پڑا۔یہ واپسی بھی اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت کا مقصد وہ نہیں تھا جس کا وہ اپنے سرکلرمیں ذکر کررہی تھی بلکہ اس کے پس پردہ کوئی اور ہی چال تھی جسے لوگ اچھی طرح سمجھ گئے تھے۔’ کائو ہگ ڈے‘کی مخالفت اور احتجاج لوگوں میں آرہی مثبت تبدیلی کا اشارہ ہے اور اس سے یہ امید بھی بڑھ رہی ہے کہ اب وہ جذباتی نعروں کی حقیقت بھی جلد ہی سمجھنے لگیںگے۔
[email protected]