شہری اعزاز ملنا ہرکسی کیلئے نہ صرف فخر کی بات ہے ، بلکہ اس کی مقبولیت اور اس کے ذریعہ کئے گئے کاموں کی تحسین بھی ہے۔ جب یہ اعزاز حکومت سے جڑجائے ، تو یہ پورے ملک کیلئے باعث فخر ہوجاتا ہے اوراس سے ملک کا وقار بھی بلند ہوتاہے ۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ ہمارے ملک اورحکمراں کو دنیاکتنی قدرومنزلت سے دیکھتی ہے اورکتنی عزت کرتی ہے ، کیونکہ اعزاز اسی کو ملتاہے ، جس کے قد اور کاموں کو دنیا سراہتی ہے اوریہ سمجھتی ہے کہ اس نے سبھی کیلئے بہت کچھ کیا اورآگے بھی کرنے کا ارادہ رکھتاہے۔ شہری اعزازات دینے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان ملکوں کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کتنے اچھے ، گہرے اورپائیدار ہیں اورہمارے ملک کی خارجہ پالیسی کو دنیاکے ممالک کتنی اہمیت دے رہے ہیںاوروہ کتنی مقبول ہورہی ہے ۔
گزشتہ دنوں جب وزیر اعظم نریندرمودی نے سری لنکا کا دورہ کیا ، تو نہ صرف وہاں ان کا پرزور استقبال کیا گیا ، بلکہ انہیں گارڈ آف آنر کے علاوہ ملک کا سب سے بڑا شہری اعزاز ’متر وبھوشن‘ سے نوازا گیا ۔وزیراعظم مودی کو یہ اعزاز سری لنکائی صدر انورا کمار دسانائیکے نے دیا ۔ایساپہلی بار نہیں ہوا ہے، جب وزیراعظم مودی کو کسی ملک نے اپنا سب سے بڑا شہری اعزاز دیا ہے ، بلکہ سب سے بڑے شہری اعزاز سے نوازنے والے ایسے ممالک کی تعداد 4درجن کے قریب ہوگئی ہے ۔ وزیراعظم کو اتنے بین الاقوامی اعزاز مل چکے ہیں کہ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔اب تک کسی بھی ملک کے وزیراعظم کو اتنے اعزاز نہیں ملے ہیں، جتنے وزیراعظم مودی کو ملے ہیں ۔
وزیراعظم مودی نے ملک کی باگ ڈور 2014 میں سنبھالی اور اقتدارسنبھالنے کے 2سال بعد ہی انہیں غیرملکی شہری اعزاز ملناشروع ہوگیا ۔ ان کو سب سے پہلے 2016میں سعودی عرب اور افغانستان نے شہری اعزاز سے نوازا تھا ، تب سے یہ سلسلہ جاری ہے ۔صرف 2017میں انہیں کسی ملک نے شہری اعزاز نہیں دیا ، ورنہ ہر سال انہیں کئی ملکوں کی طرف سے اعزاز ملتے رہے ۔وزیراعظم مودی کی یہ تیسری اننگز ہے اورصرف 9برسوں میں 22ملکوں کی طرف سے ملک کا سب سے بڑاشہری اعزاز ملناکوئی معمولی بات نہیں ہے ۔یہ اعزاز چھوٹے بڑے اورمسلم وغیرمسلم ہرطرح کے ملکوں کی طرف سے ملے ہیں ۔
انہیں اعزاز دینے والوں میں جہاں امریکہ ، روس اورفرانس جیسے اہم اوربڑے ممالک شامل ہیں،وہیں سعودی عرب ، مصر ،افغانستان ، متحدہ عرب امارات ،بحرین ،فلسطین، مالدیپ اورکویت جیسے عرب اورمسلم ملکوں نے بھی اعزاز دیا ۔پڑوسیوں سے بھی انہیںشہری اعزاز ملاتو دوردراز کے افریقی ممالک سے بھی ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مختلف ناموں سے ملکوں کاشہری اعزاز دینے کا سلسلہ جاری ہے اوران کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے۔ وزیراعظم مودی کو ملک میں جو مقبولیت حاصل ہے ، وہ اپنی جگہ پر ہے ، بیرون ملک میں وہ کتنے مقبول ہیں ،اس کا پتہ دورے کے دوران ان کے سرکاری اورغیر سرکاری طور پرپرزور استقبال، معاہدوں اوروہاں کی سرکاروں کی طرف سے ملنے والے شہری اعزاز سے چلتاہے ۔
اتنے اعزازدنیاکے کسی حکمراں اورسپرپاور کو نہیں مل سکے ۔کیوں نہیں مل سکے ، یہ ایک ایساسوال ہے ، جو وزیراعظم مودی اوردنیاکے دیگر حکمرانوں میں فرق کو واضح کرتاہے ۔ دنیا کے بعض حکمراں تو ایسے ہیں ، جنہوں نے وزیراعظم مودی سے بھی زیادہ عرصے تک حکومت کی یا حکومت کررہے ہیں ، لیکن اس معاملہ میں وہ پیچھے رہے ۔دنیاکی نظروں میں وہ اتنابڑامقام نہیں بناسکے ، جتنا وزیراعظم مودی نے بنایا ، بھلے ہی ملک میں ان کی حکمرانی چلتی رہی ، لیکن دوسرے ممالک کے دلوں میں وہ جگہ بنانے میں ناکام رہے، جس سے وہاں کا شہری اعزاز انہیں لے سکے ۔
ہندوستان اس وقت اقوام متحدہ میں اصلاحات اوراس کی مستقل رکنیت کے حصول کیلئے کافی کوشاں ہے اوراسے اپنی مہم میں بڑی تعداد میں ملکوں کی حمایت حاصل ہوئی ہے ۔ وزیراعظم مودی کو ملنے والے یہ شہری اعزاز دنیاکو ہندوستان سے اورہندوستان کو اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت سے قریب کریں گے ۔ہندوستان کی منزل صرف اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت کاحصول نہیں ہے ، بلکہ دنیامیں بہت کچھ تبدیلی اس کا ہدف ہے اوراسی کے مطابق اس کی خارجہ پالیسی کام کررہی ہے ، جس کا اسے فائدہ پہنچ رہا ہے ۔