آلوک جوشی
اندھیرے پر فتح کا تہوار ہے دیوالی۔ اندھیرے کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ دیوالی سے منسلک تمام کہانیوں، افسانوں میں آپ کو وہ نظر بھی آتی ہیں اور محسوس بھی ہوتی ہیں۔ لیکن اس وقت دیوالی کا انتظار سب سے زیادہ اس امید کے ساتھ ہورہا ہے کہ یہ تہوار ہماری زندگی میں چھائی مایوسی اور بے بسی کو ختم کرے گا اور معیشت پر چھائے کسادبازاری کے بادلوں کو چھانٹنے کی راہ آسان کرے گا۔
لکشمی پوجن کے تہوار دیوالی اور اس سے ٹھیک پہلے خریداری کا شگون پورا کرنے والا تہوار دھن تیرس برسوں سے ملک کے کاروبار اور صنعتوں کے لیے امیدوں اور خوشحالی کا وقت رہا ہے۔ لہٰذا دیوالی کے جشن کا اصلی ٹریلر تو دھن تیرس پر ہی نظر آئے گا۔ لیکن اس سے پہلے ’گنیش اتسو‘ اور ’نوراتر‘ پر اس مرتبہ ایسے اشارے واضح نظر آچکے ہیں کہ بازار میں خریداری کا ماحول بن رہا ہے۔ ایک نہیں، کئی طرف سے اس بات کے اشارے نظر آنے لگے ہیں کہ اس مرتبہ دیوالی اور اس کے بعد نئے سال تک چلنے والا پورا تہواری موسم واقعی جشن منانے کا وقت ہونے جارہا ہے۔ یہ جشن صرف خریداری اور گھر کی سجاوٹ تک محدود نہیں ہے۔ پوری دنیا کے بڑے بڑے ماہرین معیشت اور ایجنسیوں کی نظر اسی پر ہے کہ ہندوستان میں تہواری موسم اس مرتبہ کیسا رہتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہندوستان اب دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے اور اگر یہ کسادبازاری کی مار سے نکل کر تیز رفتار سے دوڑنے لگتا ہے تو باقی دنیا کے لیے بھی آگے کی راہ کافی آسان ہوجائے گی۔
معاشی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والی دنیا کی بڑی نیوز ایجنسی بلومبرگ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ کی تہواری خریداری سے ہی اسے نظر آرہا ہے کہ ہندوستان اب دنیا میں سب سے تیز رفتار ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دراصل یہ تہواری خریداری ہی ہندوستانی معیشت کو وہ تقویت دے رہی ہے کہ وہ اتنی تیز رفتار سے ترقی کرسکے۔ بلومبرگ ایک ٹریکر چلاتی ہے، جس میں وہ آٹھ پیمانوں پر مسلسل معیشت کی نبض ٹٹولتی رہتی ہے۔ ان میں کہیں اچھی اور کہیں تشویشناک تصویر نظر آنے کے باوجود ایک سے سات کے پیمانے پر ہندوستان کی سوئی مسلسل تیسرے ماہ پانچ پر ٹکی ہوئی ہے۔ اس پیمانہ کو وہ ’انیمل اسپرٹ ڈائل‘ کہتی ہے، یعنی یہاں سے آگے بڑھنے کی خواہش اور صلاحیت کا پیمانہ۔ واضح ہے، ملک ترقی کی جست لگانے کے لیے تیار ہورہا ہے۔
یہ کہنے کی بنیاد، مینوفیکچرنگ اور سروس، دونوں ہی طرح کے کاروبار میں نئے آرڈروں کے ساتھ جوش میں اضافہ سے ملتی ہے ۔ ملک سے برآمدات میں گزشتہ سال کے مقابلہ 23فیصد کا اُچھال اور گزشتہ ماہ کے مقابلہ 1.6فیصد کا اضافہ ہے۔ درآمدات میں بھی اچھا اضافہ ہے۔ لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ ہے، سونے کی خریداری میں زبردست اُچھال۔ گزشتہ ستمبر کے مقابلہ سونے کی درآمد میں اس مرتبہ 254فیصد کا اضافہ ہوا۔ جولائی سے ستمبر کے دوران ہندوستان نے 139ٹن سونا درآمد کیا ہے۔ یہ 2019میں آئے 124ٹن سے بھی زیادہ ہے اور گزشتہ سال کے مقابلہ تو پورا 47فیصد اوپر ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سونا بحران کی کرنسی ہے، یعنی سونا زیادہ فروخت ہونے کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ لوگوں کے دل میں مستقبل سے متعلق خدشات ہیں۔ لیکن اس مرتبہ کی فروخت کا مطلب یہ ہو نہیں سکتا۔ وجہ سامنے ہے۔ شیئر بازار بھی مسلسل اوپر کی جانب رواں دواں ہے۔ اگر ماحول میں خدشات ہوتے، تو شیئر بازار میں بھی نظر آتے۔
سونے کی فروخت میں اضافہ کا ایک اور مطلب بھی سمجھنا چاہیے۔ کوئی بھی انسان اپنی بنیادی ضرورتوں کو چھوڑ کر یا پیٹ کاٹ کر سونا، چاندی نہیں خریدے گا۔اس لیے سونے کی ڈیمانڈ میں اضافہ کا مطلب یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اب لوگوں کے ہاتھ میں بچت کے لائق کچھ رقم ہے۔ کافی وقت سے ٹل رہے اچھے کام بھی اب ہونے لگے ہیں، اس لیے بھی زیورات کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہورہا ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ ابھی تک فروخت میں جو اضافہ ہوا ہے، اس میں سرکاری یا پرائیویٹ نوکریاں کررہے لوگوں یا دوسرے کاروباریوں اور کسانوں نے اپنے پاس سے خرچ کیا ہے۔ نہ تو حال میں حکومت نے عوام کی جیب میں پیسہ ڈالنے والی کوئی اسکیم کھولی ہے اور نہ ہی سرکاری ملازمین کے لیے۔ لیکن اب سب طرف خبر گرم ہے کہ دیوالی کے پہلے ہی بونس کی رقم کھاتوں میں آجائے گی۔ پرائیویٹ کمپنیوں میں بھی یہی بونس کا وقت ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(International Monetary Fund) اور ہندوستان کا ریزرو بینک اس بات پر متفق ہیں کہ رواں مالی سال میں ہندوستان کی جی ڈی پی 9.5فیصد کی رفتار سے بڑھے گی۔ لیکن متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ معیشت جس طرح سے رفتار پکڑ رہی ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھ سکتی ہے۔ لیکن اس بڑے معاملہ سے الگ کچھ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ہوم لون 20سال میں سب سے کم سود پر مل رہے ہیں۔ اس کا اثر گھروں کی فروخت میں نظر آنے لگا ہے۔ موبائل فون اور الیکٹرانکس کے بازار میں بھیڑ تو خوب ہے، لیکن لوگ سستی چیزیں تلاش کررہے ہیں۔ وجہ بھی واضح ہے۔ جہاں پہلے پورے گھر میں ایک دو موبائل سے کام چل جاتا تھا، اب ہر ایک کے ہاتھ میں کم سے کم ایک موبائل تو مجبوری بن چکا ہے۔ ادھر کاروں کی فروخت میں کچھ دباؤ کی خبریں ضرور ہیں، لیکن اس کی وجہ ڈیمانڈ نہیں، سپلائی کی کمی ہے۔ پوری دنیا میں مائیکرو چپ کی کمی کا یہ اثر ہونا ہی تھا۔ لیکن اس کا دوسرا اثر یہ ہے کہ کاروں پر 6سے 12ماہ تک کی ویٹنگ چل رہی ہے، اور ہر سال دیوالی کے وقت ملنے والے ڈسکاؤنٹ اور آفر بھی اس مرتبہ غائب ہیں۔سمجھداری تو اسی میں ہے کہ اگر کار خریدنا بہت ضروری نہ ہو تو اس فیصلہ کو کچھ وقت کے لیے ٹال دیا جائے اور باقی خریداری اپنے آس پاس کے دکان داروں سے ہی نہ کریں، بلکہ ان کا بنایا ہوا سامان بھی خریدیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے آس پاس سبھی کو دیوالی مبارک ہو۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)