گردن کے گرد حلقہ تنگ ہو رہا ہے پایہ تخت ہل رہا ہے

0

عبیداللّٰہ ناصر

گونگے نکل پڑے ہیں زباں کی تلاش میں
سرکار کے خلاف یہ سازش تو دیکھئے
ان کی اپیل ہے کہ انہیں ہم مدد کریں
چاقو کی پسلیوں سے گزارش تو دیکھئے
(دشینت کمار)
اڈانی گیٹ کو لے کر مودی حکومت کی مشکلات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مودی اور اڈانی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، ایک کے بغیر دوسرے کا وجود زیادہ دنوں تک چل نہیں سکتا، اس لیے مودی حکومت اور اس کے تحت پورا نظام اڈ انی کے بچاؤ میں اتر آیا ہے اور کمال بے شرمی سے عوام کی گاڑھی کمائی کے اربوں روپے ڈوب جانے اور تاریخ کے بدترین گھپلے کو راشٹرواد کی چادر میں لپیٹ کر اسے ملک کے خلاف سازش قرار دیا جا رہا ہے۔اڈانی گروپ نے جو کچھ کیا، جس طرح ماریشس اور دوسرے کیریبین ممالک میں فرضی(شیل) کمپنیاں قائم کر کے مختلف بینکوں اور بیمہ کارپوریشن کو لوٹا، وہ سب کچھ سامنے آ رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت بنا چون و چرا مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے جانچ کے اپوزیشن کے مطالبہ کو تسلیم کرلیتی کیونکہ بطور حزب اختلاف وہ ہر ایسے واقعہ کی جانچ کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل کرنے اور نہ مانے جانے پر پارلیمنٹ میں ہنگامہ کرتی رہی ہے، یہاں تک کہ2جی معاملہ پر تو اس نے پورا ایک اجلاس ہی ہنگامہ کی نذر کر دیا تھا۔یہی نہیں جب معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اس نے وہاں بھی کھیل کرنے کی کوشش کی اور سپریم کورٹ میں کہا کہ وہ بند لفافہ میں جانچ میں شامل کیے گئے لوگوں کے نام عدالت کو دے گی، اسے امید تھی کہ رافیل کی طرح اس بار بھی سپریم کورٹ اس کی بات مان لے گا لیکن اس بار معاملہ چیف جسٹس چندرچوڑ کے پاس ہے، انہوں نے اس سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ حکومت جانچ میں شامل کیے جانے والے افراد اور افسروں کے نام عوامی طور سے ظاہر کرے کیونکہ یہ اربوں روپے کی لوٹ کا معاملہ ہے، اس کی جانچ میں شفافیت ہونی چاہیے اور عوام کو ان لوگوں کے نام معلوم ہونے چاہئیں جو جانچ کریں گے۔
دوسری طرف بی بی سی نے گجرات فساد کے دوران مودی جی کے کردار پر ایک ڈاکیومنٹری فلم جاری کردی، حالانکہ اس فلم میں کوئی نئی بات نہیں تھی، دنیا اس سے واقف تھی یہاں تک کہ بطور وزیراعلیٰ مودی کی امریکہ آمد پر پابندی بھی لگی تھی جو ان کے وزیراعظم بننے کے بعد وقتی طور سے ہٹی ہے اور ہو سکتا ہے جب وہ اس کرسی سے ہٹیں تو یہ پابندی پھر لگ جائے۔دوسرے یہ ڈاکیومنٹری فلم ہے جو دستاویزی ثبوتوں پر مبنی ہوتی ہے، وویک اگنی ہوتری کی کشمیر فائل کی طرح تخیلات پر مبنی نہیں ہے پھر بھی مودی حکومت نے اس کے دکھانے پر پابندی لگادی، وہ یہ بھول گئی کہ آج کے اس انٹر نیٹ کے دور میں ایسی کوئی پابندی کامیاب نہیں ہو سکتی اور جو چاہے یو ٹیوب پر آسانی سے دیکھ سکتا ہے پھر بھی حکومت نے اپنی طاقت کا احساس کرانے کے لیے یہ غیرجمہوری قدم اٹھایا اور اپنی کامیاب دیرینہ روش کے مطابق اسے بھی ہندوستان کو بدنام کرنے کی ایک سازش قرار دیا۔حکومت یہیں پر نہیں رکی، اس نے بی بی سی کے دہلی اور بنگلورکے دفتروں پر انکم ٹیکس کے چھاپے بھی ڈالنے شروع کر دیے، حالانکہ انکم ٹیکس محکمہ اسے چھاپے نہیں بلکہ سروے کہہ رہا ہے لیکن سروے کے لیے افسروں کی فوج اور پولیس کے دستے لے جانے صحافیو ں کے موبائل، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر وغیرہ ضبط کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ دوسرے سروے بی بی سی کے ذمہ داروں کو دستاویزوں سمیت اپنے دفتر پر طلب کر کے بھی ان دستاویزوں کی جانچ کی جا سکتی تھی۔حکومت، حکمراں جماعت، اس کے چھوٹے بڑے کارکن، اس کی رسوا زمانہ ٹرول بریگیڈ تو درکنار بے شرمی کی حدیں پار کرتے ہوئے ہندوستانی میڈیا کا ایک بڑا طبقہ بھی اپنے اوپر ہونے والے اس حملہ کو حق بجانب قرار دے رہا ہے، یہی وجہ ہے کی عالمی رینکنگ میں ہندوستانی میڈیا نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
اڈانی گروپ کی کارستانیوں کو لے کر شارٹ سیلر ہنڈن برگ کی رپورٹ کے بعد عالمی ہلچل کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ امریکی ارب پتی اور دنیا کے جانے مانے مخیر جارج سوروس نے کہا کہ اڈانی گروپ کے سامراج میں اتھل پتھل نے سرمایہ کاری کے حساب سے ہندوستان پر اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے لیکن یہ ہندوستان میں جمہوریت کی حیات نو کے دروازہ کھول سکتا ہے۔میونخ سلامتی کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی اس معاملہ پر خاموش ہیں لیکن انہیں ہندوستانی ممبران پارلیمنٹ اور عالمی سرمایہ کاروں کے سوالوں کا جواب دینا چاہیے۔انہوں نے پیش گوئی کی کہ اس کے بعد ہندوستان پر مودی کی گرفت کمزور ہوگی اور بیحد ضروری ادارہ جاتی اصلاحات کے دروازے کھلیں گے۔ میں ہندوستان میں جمہوریت کی حیات نو کی امید کرتا ہوں۔اس سے پہلے بھی وہ دیواس کے ایسے ہی اجلاس میں مودی حکومت کی نکتہ چینی کر چکے ہیں، وہاں انہوں نے کہا تھا کہ راشٹرواد ہندوستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اور یہاں تک کہہ دیا کہ ہندوستان جمہوری ملک ہے لیکن مودی جمہوری نہیں ہیں۔اس سے قبل وہ چین کے شی جن پنگ اور ڈونالڈ ٹرمپ کی بھی سخت نکتہ چینی کر چکے ہیں۔92 سالہ مسٹر سوروس اپنی بیباکی، خیراتی اور فلاحی کاموں نیز سرمایہ کاری میں مہارت کے لیے جانے جاتے ہیں۔انہوں نے پیش گوئی کی ہے کہ مودی سرکار کی سرپرستی کے باوجود اڈ انی گروپ پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونا ناممکن ہے اور ان کی یہ پیش گوئی اڈانی گروپ کے شیئروں کو لے کر آج تک کے حالات صحیح ثابت کر رہی ہے۔
لیکن جیسا کہ امید تھی اور جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے حکومت ’مرکزی وزرا‘،بی جے پی کے بدزبان ترجمان،اس کی ٹرول بریگیڈ، یہاں تک کہ آر ایس ایس کا ترجمان اخبار پانچ جنیہ سب پنجے جھاڑ کر ان لوگوں کے پیچھے پڑگئے جو مودی حکومت سے سوال پوچھ رہے ہیں، جیسے جمہوری نظام میں سوال پوچھنا نہ صرف سب سے بڑا جرم بلکہ ملک دشمنی بھی ہے۔ یہاں تک کہ پانچ جنیہ نے سپریم کورٹ کو بھی دیش دروہی قرار دے دیا۔ اسمرتی ایرانی کو چھوڑئیے، ایس جے شنکر جیسا کریئر ڈپلومیٹ جو ریٹائرمنٹ کے بعد وزیر خارجہ بنا دیے گئے، وہ بھی بھکتوں جیسی زبان استعمال کرکے اپنے شاندار کریئر کو داغدار بنا رہے ہیں۔ا سمرتی ایرانی نے سوروس کے بیان کو ہندوستان کے خلاف اعلان جنگ قرار دے دیا اور بتایا کہ اس جنگ میں مودی ہندوستان دشمن طاقتوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ سوروس نے ہندوستانی جمہوریت کو تباہ کرنے کے لیے ایک ارب ڈالر کا فنڈ اکٹھا کیا ہے۔ محترمہ کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ حکومت ہند اور اس کا خفیہ محکمہ بشمول ’را‘اب تک اس کا انکشاف کیوں نہیں کر سکا اور سوروس کے اس بیان کے بعد ہی ان پر یہ وحی کہاں سے اور کیسے نازل ہو گئی۔
در اصل یہ روایتی مودی اسٹائل ہے۔جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو ان کی حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھانا گجرات کی اسمیتا(عزت /وقار) پر سوال اٹھانا قرار دیا جاتا تھا اور اب جب وہ ملک کے وزیراعظم ہیں تو ایسے سوال ملک دشمنی قرار دیے جانے لگے جبکہ سوال اٹھانا حکومت کی نکتہ چینی کرنا یہاں تک کہ اس پر الزام لگانا بھی جمہوریت کا حصہ اور فعال جمہوریت کی نشانی سمجھے جاتے ہیں۔ الزام لگانا اپوزیشن کا حق اور جواب دینا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ایک زمانہ تھاجب ہمارے ایوان میں حکمراں جماعت کے ممبران ہی اپنی حکومت پر سوال کھڑا کر دیتے تھے۔ وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے داماد،اندرا گاندھی کے شوہر اور راہل گاندھی کے دادا فیروز گاندھی نے پہلی ہی لوک سبھا میں بدعنوانی کے ایک معاملہ کو اتنی زور شور سے اٹھایا کہ پنڈت نہرو کو اپنے وزیر مالیات کرشنمچاری سے استعفیٰ لینا پڑا۔ انہوں نے ذاتی رشتے اور پارٹی ڈسپلن کے نام پر فیروز گاندھی کو خاموش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آکسائی چن کے مسئلہ پر جب ایوان میں وزیراعظم نہرو نے کہا کہ وہ زمین کا ایک ایسا ٹکرا ہے جس پر ایک گھاس نہیں اگتی تو کانگریس کے ہی ممبر مہابیر تیاگی نے کھڑے ہو کر اپنا گنجا سر دکھایا اور پنڈت نہرو سے پوچھا میرے سر پر بال نہیں اگتے، کیا میں اپنا سر کٹوا دوں۔ایوان میں قہقہہ گونج اٹھا،خود پنڈت نہرو بھی ہنس دیے لیکن نہ ان پر کوئی تادیبی کارروائی ہوئی، نہ انہیں ملک دشمن قرار دیا گیا۔
ایک بات تو پکی ہے،2024تک مودی کے گرد دائر ہ اور تنگ ہوگا، بات ہندوستان سے نکل کر عالمی سطح تک پہنچ گئی ہے۔ ہر عالمی رینکنگ میں چاہے وہ جمہوریت کا معاملہ ہو، حقوق انسانی کا معاملہ ہو، اقلیتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کا معاملہ ہو، میڈیا کی آزادی کا معاملہ ہو، ہندوستان کا نمبر نیچے ہی آ رہا ہے۔اندرون ملک حکومت کی جمہوریت مخالف حرکتوں، آئینی اداروں کی بے توقیری، بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں اقلیتوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنا اور ان ریاستوں کو پولیس اسٹیٹ بنا دینا، راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے ان سب کے خلاف ایک بیداری تو پیدا کردی ہے۔علاقائی پارٹیوں میں بھی یہ احساس دھیرے دھیرے پیدا ہونے لگا ہے کہ اگر ان حالات کو نہ روکا گیا تو ملک میں نہ صرف جمہوریت کا جنازہ نکل جائے گا بلکہ خود ان کا وجود بھی خطرے میں پڑجائے گا۔2024 کے عام انتخابات میں کیا ہوگا، یہ پیش گوئی کرنا تو فضول ہے کیونکہ جو بی جے پی نوٹ بندی، جی ایس ٹی ، لاک ڈ اؤن، کورونا جیسی تباہ کن پالیسیوں، خراب حکمرانی اور بے عملی کے باوجود الیکشن جیت سکتی ہے، اس کا اڈانی گیٹ جیسے واقعات اور سوروس جیسے لوگوں کے بیان کیا نقصان کر پائیں گے لیکن پایہ تخت ہل رہا ہے یہ بھی حقیقت ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS