ڈاکٹرحافظ کرناٹکی
اسلام نے جس معاشرے کی تشکیل کی ہے، اس پر آپ توجہ دیں گے تو معلوم ہوگا کہ اس میں انصاف، مساوات، بھائی چارا ، حق گوئی، دیانت داری، سچائی، امداد باہمی اور خلوص و اپنائیت کی خاص اہمیت ہے، معاشرے کی پاکیزگی اور بلند اخلاقی وپاکیزہ کردار اور حسن سلوک پر اسلام نے بہت توجہ کی ہے۔ پڑوسیوں کے حقوق سے لے کر پیڑ پودوں اور جانوروں تک کے حقوق کی تعلیم دی ہے۔ اور ان ساری تعلیمات کو ہمیشہ دہراتے رہنے کے لیے ہر گلی، محلے، شہر، گاؤں اور قریے میں مساجد کا نظام نافذ کیا ہے۔ اسلامی معاشرے میں مساجد کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ سچ پوچھیے تو خلافت ہو کہ ملوکیت یا پھر دین اسلام کی تعلیمات ان سبھوں کے لیے اسلام میں مسجد کو ایک خاص طرح کی مرکزیت حاصل ہے۔ مسجد صرف نماز ہی کے لئے نہیں تعمیر کی جاتی ہے۔ اور امام کا کام صرف پنج وقتہ فرائض ہی کی ادائیگی نہیں ہوتی ہے، ان کے فرائض میں حکومت کے نظریات اور اس کے مقاصد اور عزائم کی تکمیل کے لئے ذہنوں کی آبیاری بھی شامل ہوتی ہے، اس بات کو اس طرح سمجھیے کہ جب زمین پر اللہ کی حکومت قائم ہوجاتی ہے اور سارے ملک کا نظام خلیفہ وقت کے تحت آجاتا ہے تو پھر اسے ملک کے گوشے گوشے تک پھیلانے کی ذمہ داری بھی خلیفہ وقت کی ہوتی ہے۔ ایسے میں جہاں حکومت و خلافت کے عہدے دار اپنے فرائض کی ادائیگی میں لگے ہوتے ہیں۔ وہیں مساجد کے ائمہ خلیفہ وقت یا حکومت وقت کے پیغامبر اور مشاور کا رول ادا کرتے ہیں۔ ایک طرف تو ائمہ مساجد نماز کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور دوسری طرف حکومت کی ہر نئی اسکیم اور پالیسی سے عوام کو آگاہ کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ حکومت آئندہ کے لیے کون کونسے پروگرام بنارہی ہے۔ اور اس کے کیا کیا منصوبے ہیں۔ پھر ائمہ مساجد عوام کی ذہن سازی بھی کرتے ہیں اور اس کی رائے بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ عوام کے مسائل، اس کے دکھ، سکھ، اس کے خواب و خواہش، ا س کی ضرورتوں سے آگاہ ہو جاتے ہیں تو بہ آسانی عوام کی امامت کے فرائض بھی ادا کرنے لگتے ہیں۔ گزشتہ زمانوں میں ائمہ مساجد یہ سارے فرائض اداکرتے تھے۔ اب چوں کہ اسلامی نظام نہیں ہے اور حکومت بھی مذہبی نہیں ہے تو بھی مساجد کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً زکوٰۃ، اسلام میں زکوٰۃ کی ادائیگی اور فرضیت کے پس منظر میں یہ بات پنہاں ہے کہ یہ اسلامی ٹیکس ہے۔ اسی ٹیکس سے حکومت چلتی ہے۔ اس لیے جب کوئی زکوٰۃ دینے سے انکار کرتا ہے تو وہ نہ صرف یہ کہ فرائض اسلامی میں سے ایک فرض کا انکار کرتا ہے بلکہ وہ براہ راست حکومت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتا ہے۔ اس لیے زکوٰۃ کی عدم ادائیگی پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ اسلام کی تاریخ میں کبھی نہیں کیاگیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ حضورؐ کے وصال کے بعد جب حالات بہت نازک ہوگئے تھے۔ اور ایک گروہ نے زکوٰۃ دینے سے منع کردیا تھا تو حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے اس باغی جماعت کو سبق سکھانے کے لیے فوج بھیج دی تھی۔ حالاں کہ اس وقت مسلمانوں میں ایک عجیب طرح کی مایوسی کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی اور بہت سارے لوگ مرتد ہوگئے، صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر حضرت عمررضی اللہ عنہ جیسے جلال مآب صحابی نے بھی حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو کہا تھا کہ ابھی حالات بہت خراب ہیں، زکوٰۃ کے لیے فوج کشی کرنا بہتر نہ ہوگا تو حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ اللہ کی قسم اگر کسی پر زکوٰۃ کے نام پر ایک رسّی دینا فرض ہے تو میں وہ بھی وصول کروں گا۔ حضرت ابوبکرؓجانتے تھے کہ یہ صرف مال کا کچھ حصّہ زکوٰۃکے نام پر نکالنے کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ دین الٰہی کو ڈھانے کا جرم ہے۔ اگر آج ایک گروہ اسلامی ٹیکس سے انکار کررہا ہے تو کل دوسرا گروہ انکار کرے گا اس طرح حکومت ختم ہوجائے گی۔ اور جب یہ نکتہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی سمجھ میں آیا تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ اگر ابوبکرؓ نہ ہوتے تو عمرؓ ہلاک ہوجاتا۔
یہی صورت حال مساجد کی ہے، آج ہماری زکوٰۃ کسی حکومت کو استحکام نہیں پہونچاتی ہے۔ نہ کوئی بیت المال ہے جہاں زکوٰۃ جمع ہوتی ہو اس کے باوجود ہم زکوٰۃ نکالتے ہیں۔ مساجد کی مرکزیت کی بھی یہی اہمیت تھی اور آج بھی ہے۔ آپ توجہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ آج بھی اسلامی معاشرہ مساجد سے بہت گہرے طور پر وابستہ ہے۔ اور اپنے ہر معاملے میں بار بار اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ مسجد سے رجوع کرنے میں جہاںبندے کا اپنے رب سے محبت اور عقیدت کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے وہیں اللہ کے بندوں سے ملنے اور مل کر اپنے احوال، اور ملک و ملّت کے مسائل پر صلاح و مشورہ کرنے کا جذبہ بھی شامل ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات قسم کے لوگوں کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا اس دن عرش الٰہی کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، کوئی سہارا نہ ہوگا اس میں ایک وہ شخص ہوگا جس کا دل مساجد سے مستقل طور پر وابستہ رہتا ہے۔‘‘
قرآن کریم میں مساجد کی آبادکاری کو ایمان کے ساتھ مربوط کرکے پیش کیا گیاہے۔ قرآن کریم کا حکم ہے کہ ’’مشرکوں کو زیبا نہیں کہ اللہ کی مسجدوں کو آبادکریں، جبکہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہیں، ان لوگوں کے سب اعمال بے کار ہیں اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ اللہ کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں۔ جو اللہ پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ہیں یہی لوگ امید ہے کہ ہدایت یافتہ لوگوں میں داخل ہوں۔‘‘
یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے امت محمدیہؐ کے لیے ایک بہترین انعام اور نہایت عمدہ انتظام ہے اپنے رب سے وابستگی کا، محبت کا، عبادت کا، ایمان کا، ہدایت کا اور صراط مستقیم پکڑنے کا، اس کے علاوہ اپنے جیسے نیک، متقی، نمازی اور مسجد سے محبت کرنے والے لوگوں سے رابطہ رکھنے اور ان سے ملنے ملانے کا۔
آج کی مصروف ترین زندگی میں جبکہ ہر انسان کو وقت نہ ہونے یا نہ ملنے کی شکایت ہے وہ نماز کے وقت پانچ وقت مسجدوں میں اکٹھے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے سے مل بھی لیتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک وملّت اور سماج و معاشرے کے مسائل پر بھی گفتگو کرلیتے ہیں۔ جس سے اسلام میں پائی جانے والی اجتماعیت اور اتحاد ملّت کے سبق کی تجدید ہوجاتی ہے۔ اللہ کا کرم دیکھیے کہ وہ ہفتہ واری بڑے اجتماع کے لیے جمعہ کامبارک دن بھی فراہم کیا ہے۔ اور جمعہ کی نماز کی فضیلت سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس ہفتہ واری اجتماعی جمعہ کی نماز میں تقریباً پورے شہر، یا پھر پورے محلے کے لوگ اللہ کی عبادت کے لیے جمع ہوتے ہیں اور اسی بہانے سے بلکہ اسی کے طفیل میں بہت سارے لوگوں سے ملاقات کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ اور دنیا بھر کے مسائل سے آگاہ ہو کر ایک دوسرے کی معلومات اور بصیرت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس سے جہاں مسلم معاشرے کی صورت حال سے لوگ واقف ہوتے ہیں وہیں ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسے کی دولت سے بھی مالا مال ہوتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اسلامی معاشرے میں مساجد کی اہمیت کی بہت سی عملی مثالیں پیش کی ہیں۔ حضورؐ کی زندگی میں مساجد ایک طرف دینی درسگاہ تھی تو دوسری طرف سیاسی صورت حال سے آگاہی کا مرکز تھی، ملکی مسائل کے حل کے لیے یہ ایک پارلیامنٹ تھی تو باہر سے آنے والے مہمانوں اور سفیروں کو ٹھہرانے اور ان سے باتیں کرنے کے لیے سفارت خانہ بھی۔ جنگی حکمت عملی پر گفتگو کرنے اور منصوبہ بندی کرنے کے لیے یہ ہیڈکوارٹر تھی تو دنیا بھر میں امن اور بھائی چارا کا پیغام پہونچانے کے لیے یہ ایک خاص مرکز اور تربیت گاہ تھی۔ حکومت کے فیصلوں کو اور نبی پاکؐ کی تعلیمات کو عوام تک پہونچانے کا ذریعہ بھی مساجد تھیں۔
صفّہ مسجد نبوی کا ایک اہم حصّہ تھا، یہ جہاں طالبان دین حق کی درسگاہ کے طور پر کام آتا تھا وہیں یہ صفہ فدائیان دین اسلام کے قیام کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ اہل صفہ وہ حضرات گرامی تھے جن کا اپنا گھر خاندان نہیں تھا اور نہ وہ کوئی مال و اسباب رکھتے تھے۔ اس لیے ان کے کھانے پینے کا انتظام صحابۂ کرام ؓ کیا کرتے تھے۔ اور کبھی کبھی حضورؐ خود بھی ان کے کھانے پینے کا انتظام فرماتے تھے۔ معلوم یہ ہوا کہ مسجد نبوی درسگاہ سے لے کر خدمت خلق کے مرکز تک کا رول ادا کرتی تھی کوئی مسافر، مسکین، کوئی پریشان حال اور ضرورت مند انسان کہیں سے آجاتا تھا تو اس کو بھی یہیں پناہ ملتی تھی۔
آج اگر ہم دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہماری مسجد یں اپنے بنیادی کردار سے بہت حدتک محروم ہوچکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا دائرہ کاربھی سمٹتا جارہا ہے۔ اب مسجدیں صرف نماز کی جگہ بن کر رہ گئی ہیں۔ کہیں کہیں مکاتب اور درس قرآن کااہتمام ضرور کیا جاتا ہے مگر مسجد کو مسلمانوں کی منی پارلیامنٹ بنانے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی ہے۔ حالاں کہ آج اس کی سخت ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا، اپنی مسجدوں کو مراکز میں تبدیل کرنا ہوگا، اس کے کردار کو بحال کرنا ہوگا۔ اس کے پیغام رسانی کے رتبے کا تعین کرنا ہوگا۔ اس کے امداد اور تعاون اور رہنمائی کے نبوی کردار کو زندہ کرنا ہوگا۔ یہاں کے ماحول کو ایسا بنانا ہوگا کہ زندگی کے جس شعبے سے بھی تعلق رکھنے والا انسان آئے تو نہایت خوشگوار تأثر لے کر جائے۔
مساجد کا ماحول ایسا بہترین علمی، روحانی اور پاکیزہ ہونا چاہیے کہ جب کوئی انسان مسجد میں داخل ہو تو اپنے اندر ایک خاص طرح کی تبدیلی محسوس کرے، اسے لگے کہ وہ ذاتی طور پر مسجدمیں داخل ہونے سے پہلے جیسا انسان تھا مسجد میں داخل ہونے کے بعد اس سے زیادہ بہتراور پاکیزہ انسان بن چکا ہے۔مسجد کو علم و آگہی دین حق کی تابناکی، سیرت نبویؐ کی پاکیزہ ترین خوشبو اور روشنی، محبت و حلاوت کی چاشنی، وقار کی آگہی، علم و فکر کی تازگی، امداد و تعاون کی سچی بستی بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنے اس مرکز یعنی مسجد کے کردار کو مسجد نبوی کے کردار کا حامل بنالیں گے تو انشاء اللہ آج بھی ہمارے سماج و معاشرے اور ملک وملّت میں اصلاح و فلاح کی نئی روشنی پیدا ہوجائے گی۔