ہندوستان کی عظیم الشان جمہوریت کی بنیاد جن اقدار پر رکھی گئی، ان میں مذہبی آزادی،مساوات اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ان ہی اصولوں کی روشنی میں ہندوستانی آئین نے نہ صرف مذہب کی آزادی دی بلکہ مذہبی اداروں کو اپنے معاملات چلانے کا حق بھی عطا کیا۔ مگر افسوس صد افسوس کہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 ان آئینی روحوں پر ایسا کاری وار ہے جس سے نہ صرف مسلمانان ہند کے مذہبی تشخص کو چوٹ پہنچی ہے بلکہ ملک کے سیکولر کردار پر بھی ایک گہرا سوالیہ نشان ثبت ہو گیا ہے۔
یہ قانون،جو 5 اپریل 2025 کو صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی منظوری کے بعد نافذ ہوا،ابتدا ہی سے شدید عوامی ردعمل کا مرکز بن گیا۔آج ملک کے ہر شہر،قصبے اور گاؤں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ انصاف پسند سیکولر غیر مسلم بھی اس قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ یہ احتجاج صرف ایک مذہبی طبقے کی مزاحمت نہیں بلکہ جمہوریت کے اس بنیادی اصول کی دہائی ہے کہ ریاست کو مذہبی اداروں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں۔
اسی مخالفت کے پس منظر میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیۃ علماء ہند، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر و ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی،دہلی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان،سماج وادی پارٹی کے رہنما ضیاء الرحمن برق،ترنمول کانگریس کی مہوا موئترااور دیگر کئی سرکردہ سیاسی و مذہبی شخصیات اور تنظیموں نے اس قانون کے خلاف یکے بعد دیگرے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ یہ درخواستیں اپریل2025 کے اوائل میں داخل کی گئیں۔ یہ درخواتیں وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے آئینی جواز کو چیلنج کرتی ہیںاور اس بات پر زور دیتی ہیں کہ یہ قانون نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی حقوق بلکہ آئینی بنیادی حقوق جو آرٹیکل 14 (مساوات )، 25(مذہبی آزادی)، 26(مذہبی اداروں کے انتظام کا حق) اور 300-A(حق ملکیت)میں دیے گئے ہیں، کی صریح خلاف ورزی ہے۔
سپریم کورٹ میں آج سے اس مقدمے کی باقاعدہ سماعت چیف جسٹس آف انڈیا جناب سنجیو کھنہ،جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل تین رکنی بنچ کے روبرو جاری ہے۔ عدالت نے ابتدائی سماعت میں ہی کئی اہم نکات پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے۔ ’یوزر کے ذریعہ وقف‘ کے تصور کو کالعدم قرار دینے پر عدالت نے حیرت اور تشویش کا اظہار کیا اور وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت پر بھی شدید سوالات کیے۔ چیف جسٹس کا یہ جملہ کہ کیا آپ مسلمانوں کو ہندو ٹرسٹ بورڈ کا حصہ بننے دیں گے؟نہ صرف آئینی منطق پر مبنی تھا بلکہ ریاست کے دوہرے رویے کو آئینہ دکھانے کے مترادف بھی تھا۔
کپل سبل،راجیو دھون اور ابھیشیک منو سنگھوی جیسے ممتاز وکلا نے جس دانشمندی، وسعت نظر اور آئینی بصیرت کے ساتھ عدالت میں دلائل دیے وہ نہ صرف مسلمانوں کے موقف کی تقویت ہیں بلکہ ہندوستان کے آئینی تناظر میں ایک رہنما روشنی بھی۔
وقف کی املاک،جن کی تعداد لاکھوں میں ہے، محض زمین کے قطعات نہیں،بلکہ مسلمانوں کے ایمان،تاریخ،تہذیب اور خدمت خلق کے تسلسل کی علامت ہیں۔ ان پر اگر ریاست نے اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کی تو یہ نہ صرف آئینی انحراف ہوگا بلکہ ایک ایسے زخم کا آغاز ہوگا جو ملک کی اجتماعی روح کو مجروح کر دے گا۔ وقف، ایک ایسا ادارہ ہے جس کی جڑیں صدیوں پرانی روایات اور مذہبی شعائر میں پیوست ہیں۔ اس کی بنیاد نیکی،ایثار اور خدمت خلق پر ہے اور اسی بنیاد پر لاکھوں املاک نے اپنی حیثیت وقف کی صورت میں پائی ہے۔ اکثر ان املاک کے پاس نہ کوئی سیل ڈیڈ ہے اور نہ ہی جدید قانونی دستاویزات،بلکہ صرف اور صرف نسلوں پر محیط مذہبی استعمال کی شہادتیں ہیں۔
ترمیمی قانون میں سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ وقف کو ’یوزر‘ یعنی صارف کے ذریعہ تسلیم کرنے کی روایت کو سرے سے خارج کر دیا گیا ہے۔ صدیوں سے جو جائیدادیں مساجد، مدارس، قبرستان یا درگاہوں کی صورت میں مذہبی استعمال میں رہی ہیں، انہیں صرف اس لیے وقف نہ ماننا کہ ان کے پاس جدید قانونی کاغذات نہیں،ایک بے رحمانہ عمل ہے۔ اس سے نہ صرف لاکھوں جائیدادیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں بلکہ فرقہ وارانہ کشیدگی بھی جنم لے سکتی ہے،جیسا کہ حالیہ مہینوں میں کچھ ریاستوں میں دیکھنے میں آیا۔اسی پر بس نہیں،بلکہ اس ایکٹ کے تحت کلکٹر جیسے ایگزیکٹو افسران کو وقف املاک کے تعین،تحفظ اور اختیار دیے گئے ہیں،جو نہ صرف عدالتی عمل سے تجاوز ہے بلکہ انتظامی زیادتیوں کو دعوت دینے کے مترادف بھی ہے۔ یہ اقدام اس اصول کے بالکل برعکس ہے کہ مذہبی معاملات کو خود مذہبی برادری کی نگرانی میں ہونا چاہیے،نہ کہ ریاستی افسران کے ماتحت۔
یقینا سپریم کورٹ کی یہ سماعت ایک ابتدائی قدم ہے،لیکن اس نے یہ اشارہ ضرور دے دیا ہے کہ ملک کے دستور کی نگہبانی کرنے والے ادارے ابھی پوری طرح بیدار ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ عدالت عظمیٰ مذہبی آزادی،خودمختاری اور مساوات کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ دے گی جو نہ صرف وقف املاک کو تحفظ فراہم کرے گا بلکہ ہندوستان کی تکثیریت، جمہوریت اور آئینی وفاداری کا پرچم بھی بلند رکھے گا۔
یہ مقدمہ اب محض وقف کا نہیں،یہ ہندوستان کی روح کا مقدمہ ہے۔
ہندوستان کی روح کا مقدمہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS