مقدمہ’اکثریت بنام اقلیت‘عوام اور ارباب حکومت کی عدالت میں

0

خواجہ عبدالمنتقم
دساتیرعالم بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی دستاویزات بشمول اقوام متحدہ کا چارٹر، انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ، 1948 اور قومی یا نسلی، مذہبی اور لسانی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے حقوق سے متعلق اعلامیہ، 1992، اقوام متحدہ کے ہزار سالہ اعلامیے اور متمدن اقوام کے مابین ہم کلامی کے لیے اقوام متحدہ کے عالمی ایجنڈے اور اس طرح کی دیگر بین الاقوامی دستاویزات میں، جن میں سے بیشتر پر خود ہندوستان کی جانب سے دستخط کیے جاچکے ہیں، اقلیت اور اکثریت میں دونوں کے بیچ کتنی ہی مساوات کی بات کی جائے مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ اکثریت جب بھی چا ہے اقلیت کو مغلوب کر سکتی ہے مگرایک مہذب معاشرہ میں ایسا نہیں ہونا چاہیے اور ایک دوسرے کو زیر دکھانے یا bulldozeکرنے کے بجائے ا پنے اپنے ملک کی اس طرح تعمیر نو کرنی چاہیے جس میں مستحقین کو ان کا حق ملے، ناانصافی کا خاتمہ ہو،کسی کو اپنے ہی ملک میں نقل مکانی نہ کرنی پڑے، اپنی پسند کا لباس پہننے، اپنی پسند کا کھانا کھانے جیسے امور پر انگلیاں نہ اٹھائی جائیں، کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح نہ کیا جائے، کسی مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو کچھ سرپھرے زد و کوب نہ کریں،کوئی ایسا قانون نہ بنایا جائے جس سے کسی کی مذہبی آزادی پر منفی اثر پڑے اور ایسا ’جمہوری‘ رام راج لوٹ کر آئے جس میںبقول گاندھی جی، جن کا احترام ہم سب پر لاز م ہے اور ہم اس روایت بلکہ ذمہ د اری کو سرکاری و غیر سرکاری سطح پر کم و بیش نبھاتے ہی رہے ہیں اور نبھا رہے ہیں۔ ایک ایسا مثالی(utopian) معاشرہ وجود میں آئے جس میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ مساوات اور شفافیت کا دور دورہ ہو،مگریہ نعرہ ٔ حق’تبھی با معنی ثابت ہوگا جب بانگ اذان اور صدائے ناقوس کسی کو ناگوار نہ گزرے،سوشل میڈیا پرجارحانہ و قابل اعتراض مواد پوسٹ نہ کیا جائے بلکہ سوشل میڈیا پر ایسا مواد پوسٹ کیا جائے جس سے جذبۂ اخوت کو مزید تقویت حاصل ہو، گنگا جمنی تہذیب،جسے آئین میں مشترکہ تہذیب کہا گیا ہے، ہندو مسلم اتحاد اور اسی قسم کے موضوعات پر مضامین اسی شدت سے انگریزی، ہندی اور ہندوستان کی دیگر زبانوں کے اخبارات میں بھی شائع کیے جائیں جتنی شدت سے اردو اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ انگریزی اخبارات میں مسلم صحافیوں کے مضامین کی اشاعت صرف مسلم پرسنل لاء، عید و محرم تک محدود نہ رکھی جائے، کسی بھی دریا کا پانی کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک کسی کی پہنچ سے باہر نہ ہو۔یہ دریا ہماری مشترکہ تہذیب کی علامت ہیں اور اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے تو نیوز ی لینڈ کی طرح اپنے ایک فیصلے میں انہیں legal person کا درجہ عطا کر دیا ہے۔ یہ تصور تبھی حقیقت بن سکے گا جب ہم سب یعنی نہ صرف عوام بلکہ ارباب حکومت بھی آئین پر کاربند رہیں ورنہ مشترکہ ورا ثت اور گنگا جمنی تہذیب محض خواب و خیال بن کر رہ جائے گی۔
کبھی کبھی آئینی التزامات سے مکمل واقفیت کے باوجود تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اقلیت اپنے آپ کو اقلیت نہ سمجھے۔ یہ فکری تصور قانونی تصور کو تبھی مغلوب کرسکتا ہے جب اکثریت اور اقلیت کے درمیان اس قدر محبت پیدا ہوجائے اور وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب آجائیں کہ دونوں اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے اس طرح شیروشکر ہوجائیں اور ملک کی خوشحالی اور ہر شعبۂ حیات میں ان کی حقیقتاً کما حقہ اتنی مساوی حصہ داری ہوجائے کہ کم از کم دنیاوی معاملات میں کسی کا اس امر کی جانب دھیان ہی نہ جائے کہ ان کا تعلق اقلیتی فرقے سے ہے یا اکثریتی فرقے سے۔ اس ضمن میں اکثر مولانا ابوالکلام آزاد کے ان الفاظ کا حوالہ دیا جاتا ہے جو انہوں نے 1940میں رام گڑھ میں منعقدہ کانگریس کے اجلاس میں اقلیتوں کے بارے میں کہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ غلط فہمی کا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کو اقلیتی فرقہ مانا جائے۔ انھوں نے یہ کہتے وقت یہ بات بھی کہی تھی کہ مسلمانوں کو اس قسم کا شبہ یا گمان تک بھی نہیں ہونا چاہیے کہ انہیں غیر منقسم ہندوستان میں پورے پورے حقوق حاصل نہیںہوںگے۔ مرد آہن سردار پٹیل نے تقسیم ہند کے بعد لکھنؤ میں ایک جلسہ میں کہا تھا کہ ہندوستان ہم سب کا ملک ہے۔ ہم اس میں ایک ساتھ تیر یں گے اور ایک ساتھ ڈوبیں گے یعنی ساتھ جئیںگے اور ساتھ مریںگے۔ہم بلاشبہ ایک ساتھ جی رہے ہیں،ایک ساتھ مر رہے ہیں مگرہمارے ملک کے دیگرکمزور طبقات کی طرح ہماری زبوں حالی کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے گوپال سنگھ پینل (1980)، وردھاراجن کمیٹی (پلاننگ کمیشن کے تحت ایک ذیلی گروپ) 1996))، سچر کمیٹی (2005)اور قومی اقلیتی کمیشن ودیگر کمیشن بشمول قومی مذہبی و لسانی اقلیتی کمیشن(رنگاناتھ مشرا کمیشن)،جس سے ہم خود بحیثیت ڈائریکٹر وابستہ رہے اور کمیونٹی کی داستان زبوںحالی اپنے کانوں سے سنی، کی رپورٹوں اور 2011 کی مردم شماری کے اعدادوشمار پر محض ایک نظر طائرانہ ڈالنا ہی کافی ہے۔
ہمارا آئین چونکہ ہماری سب سے مقدس قانونی کتاب ہے، جسے ہندوستان کے عوام نے اپنی مرضی سے منظور کیا تھا، اس لیے کوئی بھی ایسی بات نہ کہی جا سکتی ہے،نہ لکھی جاسکتی ہے اور نہ ایسا قانون بنایا جاسکتا ہے جس سے آئین کی کسی بھی دفعہ کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔مسلمانان ہند کو بھی ہر ایشو کو خود سے منسوب نہیں کر لینا چاہیے۔یکساں سول کوڈ، ڈریس کوڈ،فوڈ کوڈ جیسے ایشوز صرف مسلمانوں کے مدعے نہیں،یہ سب کے مدعے ہیں۔ہریانہ اور راجستھان کی ہندو خواتین اپنے بزرگوں کے سامنے جس پردہ نشینی کا مظاہرہ کرتی ہیں، دیگر مذاہب کی خواتین شاید ہی اتنا اہتمام کرتی ہوں۔ داڑھی(وراٹ کوہلی کی ہو یا کسی مذہبی یا سیاسی رہنما کی)، رنگ برنگی ٹوپیاں، پگڑیاں، دستار، حجاب یہ سب ہماری مشترکہ تہذیب کی علامتیں ہیں۔کبھی کبھی لفظ ’سیکولر‘ کو آئین کی تمہید میں شامل کرنے کی بابت سوال اٹھائے جاتے ہیں۔اس اصطلاح کو 1976 میں آئین میں شامل کرنے سے پہلے بھی ہندوستان ایک سیکولر ملک تھا اور مان لیجیے کہ اگراس اصطلاح کو آئین سے ہٹا بھی دیا جائے تو بھی ہندوستان اپنے آئین کی بنیادی خصوصیا ت،جمہوری نظام حکومت اور اپنے مول منتر’ سرو دھرم سنبھاو‘ کے سبب ہمیشہ سیکولر ہی رہے گا۔فی الحال اس قسم کی قانون سازی کی تجویز بظاہر نوشتۂ دیوار نہیں۔
اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ انسانی حقوق کے نقطۂ نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بات بار بار دیکھنے میں آتی ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں آئینی وقانونی تحفظ کے باوجود اقلیتوں کے ساتھ بہت سی ایسی زیادتیاں کی جاتی ہیں جن سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ بہت سے معمولی تنازعات فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرلیتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ہندوستان کو ’دارالامان‘ کہا تھا۔ اب ارباب حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے معاشرہ کوہر طرح کے تشدد، فسق و فجور، ناشائستگی، فتنہ فساد، ہنگامہ آرائی،جنگجوئی، فرقہ پرستی و دہشت گردی جیسی برائیوں سے اس طرح محفوظ رکھیں کہ سابقہ حکمراں بھی اس پر رشک کریں او ر مستقبل میں ارباب حکومت اس کی تقلید کریں۔ پڑوسی ممالک بھی ہم سے سبق لیں اور امن کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ہما رے شانہ بہ شانہ چلیں اور ہمارے سماج میں بھی ایسی تبدیلی آئے کہ برادران اکبر (ہمارے ہندو بھائی) اپنے برادر ان اصغر (مسلمانان ہند )کے سر پر دست شفقت رکھیں۔ بھائی کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے بڑا بھائی ہی بیشتر معاملات میں اپنی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طرح سر تسلیم خم کر دیتا ہے جس طرح پھلدار ٹہنی ہمیشہ جھکی رہتی ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS