ڈاکٹر محمد فاروق
ہندوستان ‘ جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہنے پر ہم فخر کرتے نہیں تھکتے‘ اس وقت ایک ایسے المیے سے دوچار ہے جس کی جڑیں نہ صرف اس کے شہری ڈھانچے کی بدحالی میں پیوست ہیں بلکہ اس کے ریاستی ضمیر کی مسلسل پسپائی میں بھی مضمر ہیں۔ ایک طرف ملک ترقی کے تمغے سجائے اقوام عالم کے درمیان اپنی موجودگی مستحکم کرنے میں مصروف ہے تو دوسری جانب وہ بنیادی شہری ضروریات جنہیں ریاستی فریضہ سمجھا جانا چاہئے بدترین غفلت کی نذر ہو چکی ہیں۔ اس دو رخی منظرنامے میں سب سے زیادہ کچلے جانے والے طبقے کا نام ہے‘ متوسط شہری طبقہ‘ جو نہ تو سماجی فلاح کی سیاست کا محبوب ہے‘ نہ ہی بازار کی معیشت کا محور۔ یہی وہ طبقہ ہے جو ٹیکس دہندہ بھی ہے‘ ووٹر بھی‘ صارف بھی اور کارکن بھی مگر ریاست کے ذہن میں محض ایک غیرموثر ہجوم کی مانند موجود ہے‘ جس کی صدائیں سننے کیلئے اقتدار کے ایوانوں میں کوئی گوش شنوائی باقی نہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ حالیہ دنوں میں شہر بنگلورو میں رونما ہوا‘ جو اس ریاستی بے حسی کی نہایت بے باک تمثیل ہے۔ شہر کے معروف علاقے رچمنڈ ٹاؤن کی رہائشی 43 سالہ دھیویہ کرن نے بنگلورو کی شہری حکومت برہت بنگلورو مہانگرا پالیکے (BBMP) کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے اسے اپنی جسمانی اور ذہنی اذیت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کا مطالبہ 50 لاکھ روپئے کے ہرجانے کا ہے‘ جو نہ صرف ان کی کمر اور گردن کے شدید درد‘ متعدد طبی دوروں اور مہنگے علاج معالجے کا مالی خمیازہ ہے بلکہ اس جذباتی اور نفسیاتی صدمے کی قیمت بھی ہے جو شہر کی بدحال سڑکوں سے گزرنے کی صورت میں ان کی زندگی پر مسلط ہو چکا ہے۔
قانونی نوٹس کے تحت دھیویہ کرن نے اپنے علاج معالجے کے اخراجات کے علاوہ 10,000 روپئے اضافی بطور قانونی کارروائی کے مصارف طلب کئے ہیں۔ اگر برہت بنگلورو مہانگر پالیکے دو ہفتوںکے اندر اس نوٹس کا جواب دینے میں ناکام رہتا ہے تو کرن نے دیوانی مقدمہ دائر کرنے اور کرناٹک ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
دھیویہ کرن کا کہنا ہے کہ بنگلور کی سڑکیں ایسی خستہ حالی کا شکار ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹے گڑھے بھی اذیت کا استعارہ بن جاتے ہیں۔ سڑکوں کی یہی دراڑیں ان کی ریڑھ کی ہڈی میں لرزہ اور ان کے ذہن میں اضطراب بھر گئی ہیں۔ 14 مئی کو وکیل کے وی لاوین کی وساطت سے دیئے گئے قانونی نوٹس میں کرن نے صاف صاف کہا ہے کہ انہیں نہ صرف بار بار آرتھوپیڈک ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑا‘ بلکہ چار مرتبہ انہیں ایمرجنسی وارڈ کا رخ بھی کرنا پڑا‘ ان سب خرچوں کی وجہ اور جڑ صرف بنگلور کی سڑکوں کی خرابی ہے۔اس اذیت ناک منظرنامے کا سب سے سفاک پہلو یہ ہے کہ ان کا روزمرہ سفر بھی ایک محاذ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ آٹو رکشہ اور دو پہیہ گاڑیوں کا جھٹکا ان کی ریڑھ کی ہڈی کو مزید متاثر کرتا ہے اور کار کی سواری بھی محض ایک عارضی ریلیف فراہم کرتی ہے۔ نتیجتاً ان کی نقل و حرکت‘ پیشہ ورانہ ذمہ داریاں حتیٰ کہ روزمرہ کی آزادی تک محدود ہو چکی ہے۔ شہری حکومت پر لگائے گئے الزامات فقط سڑک کی مرمت کی سستی نہیں‘ بلکہ اجتماعی ریاستی نااہلی کا فرد جرم ہیں۔یہ معاملہ محض ایک فرد کا دکھ نہیں بلکہ اس متوسط طبقے کی چیخ ہے جو ہر روز سرکاری وعدوں‘ ٹیکس کی کٹوتیوں اور افسر شاہی کے طرز تکبر میں پس کر بھی خاموش رہتا ہے۔ ہندوستان میں ہر سال انکم ٹیکس دینے والوں کی ایک بڑی تعداد اسی متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے جو 3 سے 5 لاکھ روپے کی سالانہ آمدنی میں سے ہر ممکن حصہ قومی خزانے میں جمع کراتا ہے۔ ’آرگنائزیشن آف اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان ان چھ ممالک میں شامل ہے جہاں ٹیکس کی شرح سب سے زیادہ ہے‘ مگر اس کے عوض شہریوں کو کیا ملتا ہے؟ سڑکوں پر گڑھے‘ اسپتالوں میں لائنیں‘ اسکولوں میں کمیاب اساتذہ اور ہر سہولت کے بدلے نجی اخراجات اور رشوت کا بوجھ!
اسی تناظر میں دھیویہ کرن کی شکایت صرف سڑک پر جھٹکوں کی کہانی نہیں یہ اس طبقے کی بے بسی کی وہ زبان ہے جسے ہم نے ہمیشہ نظر انداز کیا ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جو مہنگائی کی لہر میں سب سے پہلے پگھلتا ہے جس کی تنخواہیں جمود کا شکار ہیں اور اخراجات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔گزشتہ ایک دہائی میں خوراک اور روزمرہ اشیا کی قیمتوں میں 60سے 80 فیصد اضافہ ہوا جب کہ متوسط طبقے کی آمدنی بمشکل 4 فیصد سالانہ کی رفتار سے بڑھی ہے۔ ان کی بچتیں ناپید ہو چکی ہیں‘ کریڈٹ کارڈ اور ذاتی قرضوں کے جال میں یہ طبقہ اس قدر الجھ چکا ہے کہ مہنگے موبائل فونز یا بیرون ملک دوروں کا خرچ بھی اب قرض کی کوکھ سے پیدا ہوتا ہے۔
پھر جب شہری انفراسٹرکچر کی حالت زار پر کوئی سوال اٹھاتا ہے تو حکومت کی زبان پر ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ہم مصروف ہیں‘ انتظار کیجیے! مگر سوال یہ ہے کہ کب تک؟ کب تک ایک ایسا طبقہ جو ووٹ دیتا ہے‘ ٹیکس دیتا ہے‘ نظام کو چلاتا ہے‘ خود ہی پچھلی قطار میں کھڑا رہنے پر مجبور رہے گا؟ کب تک وہ سڑک پر مرے گا‘ ہسپتالوں میں دھکے کھائے گا‘ اسکول کی فیس بھرنے میں پسینے بہائے گا اور ریاست فقط تماشائی بنی رہے گی؟
یہ سچ ہے کہ بنگلورو کی بارشیں بے رحمی سے شہر کو ڈبوتی ہیں اور حکومت بے بسی سے نظارہ کرتی ہے۔ جب ایک طوفانی نالے میں نوجوان لڑکی ڈوب جاتی ہے یا سیلابی پانی گھر کھا جاتا ہے تب کچھ لمحوں کیلئے میڈیا بیدار ہوتا ہے‘ پھر خاموشی چھاجاتی ہے۔ مگر اب وہ وقت ہے کہ یہ خاموشی ٹوٹے۔ دھیویہ کرن کی آواز کسی فرد واحد کی دہائی نہیں یہ متوسط ہندوستانی کی صدائے احتجاج ہے۔ اگر ریاست نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو اگلا مقدمہ صرف بی بی ایم پی کے خلاف نہیں ہوگا،بلکہ اس پوری ریاستی مشینری کے خلاف ہوگا جو اپنے بنیادی فریضے یعنی شہری کی جان‘ صحت اور وقار کا تحفظ ‘ ادا کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔
یہ صرف قانونی نوٹس نہیں ریاست کے فرائض سے انکار کا مقدمہ ہے اور تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جب جمہور کی تکلیف حد سے بڑھ جائے تو جمہوریت کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں۔