اونٹ اب آیا پہاڑ کے نیچے: شاہد زبیری

0

شاہد زبیری

جس وقت قارئین کے ہاتھوں میں اخبار ہو گا نریندر مودی تیسری مرتبہ 5 درجن وزیروں کی فوج کے ساتھ حلف لے چکے ہوں گے اور این ڈی اے سرکار تشکیل پاچکی ہو گی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ مودی کی گارنٹی کا یہ حشر ہو گا کہ خود مودی سرکار کی ہی گارنٹی ختم ہو جائے گی اور ایک دو نہیں 52پارٹیوں کی کھچڑی سرکار یا یوں کہیں کہ بھان متی کے کنبہ کی سرکار وجود میں آئے گی اور سرکار بیساکھیوں پر ٹکی ایک مجبور سرکار ہو گی ۔وزیر اعظم کا تاج جومودی جی کے سر پر رکھا گیا ہے وہ تاج نہ گجرات کے وزیر اعلیٰ کا تا ج ہے اور نہ 2014اور 2019 کے وزیر اعظم کا تاج ہے جس میں سیٹوں کی اکثریت کے ہیرے جڑے ہو ئے تھے یہ تاج کانٹوں کا تاج ہے ۔

وقت بھی کس قدر ظالم ہے کب پلٹا کھا جائے کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا۔مودی جی کو کیا پتہ تھا کہ 400پار کا ان کا خواب پارہ پارہ ہوجا ئے گا ۔ کسے خبر تھی کہ ان کا اور بی جے پی کا 370سیٹو ں کا دعویٰ بھی دھرا رہ جائے گا اور ارادوں کی کمند لبِ بام کو چھوئے بغیر ہی ٹوٹ جائے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ مودی اور بی جے پی کے تمام دعوؤں اور ایگزٹ پول کے تمام غباروں کی ہوا نکل گئی ہے اور 240پر ہی قسمت کی سوئی اٹک گئی اور ایک دو نہیں پوری 32سیٹیں ہاتھ سے پھسل گئیں اور جن پر کامیابی ملی ان میں سے کچھ سیٹیں ایسی بھی ہیں جو بہت کم ووٹوں کی سبقت سے بچی رہ گئیں۔حقیقت میں حکومت اس طوا ئف کی طرح ہے جوآنکھیں پھیرنے میں دیر نہیں لگا تی، نہ جا نے کتنے داراو سکندر دنیا کو زیر کرنے آئے آج ان کا نام ونشاں تک نہیں ہے۔ مودی جی کی تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم بننے کی خواہش تو پوری ہو گئی لیکن وہ نتیش کمار اور نائیڈو کی جن بیساکھیوں کے سہارے یہاں تک پہنچے ہیں وہ لائقِ بھروسہ نہیں کون جا نے کب نتیش اور نائیڈو یہ بیساکھیاں ہٹالیں۔حقیقت یہ ہے کہ مودی اور بی جے پی نے اپنے نفرت کے انتخابی رتھ کو مسلم دشمنی کے گھوڑو ں پر سر پٹ دوڑا رکھا تھا جس کو ملک کے باشعور اور سمجھدار عوام نے آگے بڑھنے سے روک دیا اور نریندر مودی کوسیاسی اور اخلاقی طور پر عبرتناک شکست کا منھ دیکھنا پڑا جس سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ ہندوستان کے عوام کی اکثریت آج بھی بھائی چارہ ،سدبھائونا اور مشترکہ کلچر پر یقین رکھتی ہے اور ساجھا وراثت اور ساجھا شہادت کو دل سے مانتی ہے۔ اسی لئے انڈیا الائنس کے کھاتے میں 235 سیٹیں آئیں تنہا کا نگریس کے حصّہ میں 100سیٹیں آئی ہیں جو پہلے سے دو گنا ہیں اور اس کا ووٹوں کا فیصد بھی بڑھا ہے، یوپی میں سماجوادی پارٹی نے 37سیٹوں پر کامیابی پائیں اور یوپی کی کل 43سیٹیں انڈیا الائنس کے کھاتے میں آئیں۔ ممتا بنر جی ظاہر میں انڈیا لائنس کا حصّہ نہیں ہیں،لیکن وہ اپوزیشن میں شمار ہو تی ہیں ان کی پارٹی نے بنگال میں بی جے پی کے جھوٹ کی ہنڈیا پھورڈی اور مہاراشٹر میں بھی انڈیا الائنس نے اچھا مظاہرہ کیا کل ملا کر دیکھا جائے تو اپوزیشن مضبوط پوزیشن میں ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ایک مجبور سرکار مضبوط اپوزیشن کے سامنے ٹک پائے گی۔اس سے پہلے بھی بی جے پی کی ملی جلی سرکار ایک مرتبہ 13دن اور ایک مرتبہ 13مہینہ ہی چل پائی تھی، این ڈی اے کی یہ سرکار کتنے دن چلے گی سب کی نظریں اس پر لگی ہیں۔ اگر یہ کہا جا ئے تو غلط نہ ہو گا کہ اونٹ اب آیا پہاڑ کے نیچے ۔گجرات کے وزیرِ اعلیٰ سے لے کر ملک کے وزیرِ اعظم کے منصب تک نریندر مودی نے جس طرح سرکاریں چلائی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔این ڈی اے میں شامل پارٹیاں تو دورکیبنٹ کی مرضی کی بھی مودی جی نے کبھی پروا نہیں کی۔ ان کی فطرت میں آمریت اور تانا شاہی ہے اسی کے خمیر سے ان کی شخصیت تیار ہوئی ہے وہ اکیلا چلو پر یقین رکھتے ہیں اب تک کا ان کا ریکارڈ یہی رہا ہے ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مودی جی کو52پارٹیوں والی سرکار چلانی پڑے گی اور سب کو ساتھ لے کر چلنے اور خوش رکھنے کا دھرم نبھا نا پڑے گا اور سرکار بھی مودی سرکار نہیں این ڈی اے کی سرکار کہلائے گی۔ہر چند کہ مودی جی اور بی جے پی کی بھرپو رکوشش ہوگی کہ و ہ فائنانس، داخلہ، خارجہ اور دفاع جیسی وزارتوںکے قلمدان اپنے ہی قبضہ میں رکھیں اور اس پر کوئی سودے بازی نہ کریں ،چونکہ وزراتِ داخلہ کے تحت سی بی آئی تو فائنانس کے تحت ای ڈی آتی ہے۔

مودی نے ان دونوں ایجنسیوں کے بل بوتے پر 10سال تک جس طرح اپوزیشن لیڈروں کا ناطقہ بند رکھا ہے وہ سب پر عیاں ہے لیکن کیا اب وہ ایسا کر پائیں گے دیکھنا یہ ہے۔ مودی جی نے پورا الیکشن جس بیانیہ کے تحت لڑا ہے وہ مکمل طور پر مسلم مخالف تھا، اس میں مسلم ریزرویشن بھی شامل تھا جبکہ نائیڈو آندھرا پردیش میں مسلمانوں کو دیگر مراعات دینے کے علاوہ 4فیصد مسلم ریزرویشن کے ایشو پر قائم ہیں اور اس طرح کے کل 25وعدے انہوں نے اسمبلی الیکشن میں آندھرا کے مسلمانوں سے کئے تھے جو اسمبلی الیکشن میں ان کی کامیابی کا سبب بنا کیا مودی جی اب اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ نائیڈو کو ایسا کرنے سے باز رکھ سکیں گے۔ علاوہ ازیں مرکزی سرکارسے آندھرا کو خصوصی درجہ دئے جانے کے مطالبہ سے بھی نائیڈو پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ وزارتِ داخلہ اور اسپیکر کے منصب پر بھی نائیڈوکی نظر ہے۔ کچھ اسی طرح کا مطالبہ نتیش کمار کا ہے وہ بھی بہار کو خصوصی درجہ دئے جا نے کی ضد پر قائم ہیں۔ اگلے سال بہار اسمبلی کے انتخابات ہو نے ہیں اس لئے بھی نتیش کمار کیلئے یہ مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے نتیش کمار ذات پر مبنی مردم شماری بہار میں کرا چکے ہیں اور پورے ملک میں کرانا چاہتے ہیں۔ اگنی ویر اور یکساں سول کوڈ پر وہ نظر ثانی چا ہتے ہیں ان کی نظر ریلوے کی وزارت پر بھی ہے جو اڈانی کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ مودی جی نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو جیسے گھاگ اور شاطر سیاسی لیڈروں کیسے نمٹیں گے سب کی نظریں اس پر ہیں۔کہا جا رہاہے کہ ابھی تین ماہ انتظار کر نا پڑے گا تب یہ واضح ہو پائے گا مودی جی کیسے ان چیلینجز سے نمٹتے ہیں اسی کے ساتھ مودی جی کی بھی کوشش ہو گی کہ این ڈی اے میں شامل بشمول نتیش کی جے ڈی یو اور نائیڈو کی ٹی ڈی پی کے ممبرانِ پارلیمنٹ کو لالچ دے کر اپنے پالے میں کھینچ لیں وہ مکمل اکثریت کی آرزو پوری کر نے سے نہیں ہچکچائیں گے وہ ایسا کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کئی صوبوں کی سرکاریں ادھر سے ادھر کی ہیںاور اپوزیشن سرکاروں پر اپنی مہر لگا چکے ہیں ان کے نزدیک جنگ اور سیاست میں سب کچھ جا ئز ہے ۔ شاید اس خطرہ کو چندرا بابو نائیڈو پہچان گئے ہیں اسی لئے وہ اسپیکر کی کرسی مانگ رہے ہیں تاکہ مودی جی کی تمنّا ئوں پر بریک لگا سکیں۔ ان چیلینجز کے علاوہ گزشتہ 10سالوں کی سرکار کے مقابلہ مودی جی کی این ڈی اے سرکار کو 235ممبرانِ پارلیمنٹ والی مضبوط اپو زیشن کا بھی سامنا کرنا پڑے گا ۔ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے کانگریس نے راہل گاندھی کے نام پر مہر لگا دی ہے کیا مودی جی راہل کے تیکھے سوالوںکا سامنا کر پائیں گے اور اپنے بل بو تے پارلیمنٹ میں وہ سب کچھ پاس کرا پا ئیں گے جو وہ اب تک کرا تے رہے ہیں۔ قدم قدم پر آزمائشیں مودی جی اور ان کی این ڈی اے سرکار کا قافیہ تنگ کر دیں گی۔ حالات بتا رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں ہی راہل گاندھی اور اپوزیشن30لاکھ کروڑ کے شیئر گھوٹالوں پر سرکار کو گھیریں گے اور جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی JPC) )کے ذریعہ جانچ کرا ئے جا نے کا مطالبہ کریں گے جس کی تپش نہ صرف مودی جی کے دامن تک پہنچے گی۔ امت شاہ اور اڈانی کا دامن بھی جس سے جل اٹھے گا ۔ اس ایشو پرراہل گاندھی پریس کانفرنس کر چکے ہیں۔

نائیڈو کے بیٹے پیگاسس کے ذریعہ اپنے فون ٹیپنگ مسئلہ پر سرکار کو گھیرے جانے کی تیای کررہے ہیں ایسی بھی خبریں ہیں۔ احوال و آثار بتا رہے ہیں کہ اب مودی جی اور این ڈی اے سرکار میں اتنی سکت نہیں کہ وہ آئین اور جمہوریت پر شب خون مارسکیں ۔انڈیا الائنس نے جس طرح آئین اور جمہوریت کے سوال پر واضح مؤقف اپنا یا اس کو سی اے اے،این آر سی اور یکساں سول کوڈ پر بھی کوئی مضبوط اسٹینڈ لینا چاہئے اور مودی جی و این ڈی اے سرکار کو اس کے خوفناک ارادوں سے باز رکھنا چاہئے یہ مسئلہ مسلم اقلیت کیلئے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ ویسے بھی انڈیا الائنس نے مسلمانوں کو نمائندگی بہت کم دی ہے تاہم یہ امید تو کی جا سکتی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS