خواجہ عبدالمنتقم
ایک جانب ہمارے ملک کی سب سے بڑی ثقافتی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ کایہ کہناہے کہ ہندوستان کی تمام زبانوں میں ایک ہی بھاؤ(جذبہ) نہاںہے تو پھر یہ بات سب کے دل میں اترنے کے ساتھ ساتھ زمین پر کیوں نہیں اترتی؟ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ اردو بڑی شیریں زبان ہے، ہماری گنگاجمنی تہذیب کی علامت ہے، ہماری ادبی محفلوں کی جان ہے، ہمارے ماضی کی پہچان ہے، ہماری ملی جلی ثقافت کی نمائندہ ہے، ہماری فلموں اور نغموں کی روح ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے سیکولرازم کی نشانی ہے تو اس کا بھاؤ(قدر و قیمت)کم کرنے کی کوشش کیوں؟
کہیں اسے مسابقتی امتحانات میں سے نکالاجا رہا ہے توکہیں اس کی تدریس کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ اردو اور قانون کے مابین اٹوٹ رشتہ ہے لیکن اترپردیش میں منصفی کے امتحان کے نصاب سے اردو کو نکال دیا گیا جبکہ آج بھی عدالتوں اور انتظامیہ میں اردو الفاظ و قانونی اصطلاحات کا استعمال کیا جا رہا ہے اور دور ماضی میںجو دستاویز لکھی گئی تھیں، انہیں ہمیشہ بطور ثبوت پیش کیا جاتا رہے گا۔صرف یہی نہیں،کچھ ریاستوں میں عدلیاتی ونیم عدلیاتی اداروں، محکمہ ٔ پولیس وغیرہ میں اردو الفاظ کی جگہ ہندی یا علاقائی زبانوں کے الفاظ استعمال کرنے کی ہدایات وقتاً فوقتاً جاری کی جاتی رہی ہیں مگر تاہنوز ان ریاستوں میں بھی اردو الفاظ کا استعمال برابر جاری ہے۔ یہ کام ایک جھٹکے میں نہیں ہوسکتا۔ ویسے بھی ایسا کرنا قرین مصلحت نہیں چونکہ آئین کی دفعہ 351جو ہندی زبان کو فروغ دینے سے متعلق ہے خود اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ دوسری زبانوں میں استعمال ہونے والی تراکیب، اسلوب اور اصطلاحات کو اپناتے ہوئے اور سنسکرت ودوسری زبانوں سے الفاظ اخذ کرکے ہندی کو مالا مال کیا جائے۔
ہندوستان کی تمام زبانوں کو مردم شماری کے اصولوں کے مطابق سلسلۂ مدارج کے اعتبار سے 4زمروں میں بانٹا گیا ہے۔ پہلے زمرے میں مرکزی حکومت میں سرکاری زبان ہندی اور انگریزی کو رکھا گیا ہے، دوسرے میں ریاستی سرکاری زبانوں کو، تیسرے میں ان زبانوں کو شامل کیا گیا ہے جنہیں سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہیں ہے اور انہیں بہت ہی کم لوگ بولتے ہیںاور چوتھے میں ان زبانوں کو رکھا گیا ہے جنہیں آدیواسی و ملک کے قدیم باشندے بولتے ہیں جیسے ناگا وغیرہ۔ چونکہ اردو آئین کے 8ویں جدول میں قومی زبانوں کی فہرست میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ کئی ریاستوں کی پہلی یا دوسری سرکاری زبان بھی ہے، اس لیے سلسلۂ مدارج کے مطا بق اردو زمرۂ دوم میں آتی ہے۔ اگراردو کو آئینی درجہ بندی میں یہ مرتبہ نہ دیا گیا ہوتا اور ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں سہ لسانی فارمولہ نہ اپنایا گیا ہوتاتو اردو ثقافتی وابستگی کی اتنی طاقتور علامت بن کر ہمارے کثیراللّسان ملک کی لسانی تکثیریت کے افق پر نہ ابھرتی۔ متذکرہ بالا جدول میں درج سب زبانیں ہمارے ملک کی اپنی زبانیں ہیں اور یہیں پلی بڑھی ہیں۔
سر سید احمد خاں نے1883 میں اپنے ایک خطاب میں کہا تھا:اے عزیزو!’’جس طرح ہندوؤں کی شریف قومیں اس ملک میں آئیں اسی طرح ہم بھی اس ملک میں آئے۔۔۔ پس اب ہم دونوں ایک ہی ہوا میں سانس لیتے ہیں۔۔۔ مقدس گنگا جمنا کا پانی پیتے ہیں۔۔۔ایک ہی زمین کی پیداوار کھاتے و استعمال کرتے ہیں۔ مرنے جینے میں دونوں کا ساتھ ہے۔۔۔ یہاں تک کہ ہم دونوں آپس میں ملے کہ ہم دونوں نے مل کر ایک نئی زبان اردو پیدا کرلی جو نہ ہماری زبان تھی نہ ان کی۔۔۔‘‘
فلسفۂ انسانیت کی رو سے خیالات اور احساسات کے اظہار کا سب سے معتبر اور مؤثر ذریعہ زبان ہوتی ہے اور وہ بھی مادری زبان۔ ہماری نئی تعلیمی پالیسی میں بھی اسی بات پر زور دیا گیا ہے اور ہمارے سیاسی رہنما بھی اس بات کو بار بار دہراتے رہے ہیں۔اگر کوئی شخص کسی ایسے ملک کا شہری ہے جہاں ملک کے تمام شہریوں کو اپنی جداگانہ زبان، رسم الخط یا ثقافت محفوظ رکھنے کا آئینی حق حاصل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اظہار خیال کی مکمل آزادی بھی، تو اس سے بڑا مقدر کا سکندر کوئی نہیں ہوسکتا۔ ہمارے ملک کا آئین بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔
آئیے اب مختصراً اس بات پر غور کریں کہ آئین میں اردو کو کس حد تک بالواسطہ یا بلاواسطہ تحفظ فراہم کیا گیا ہے اور لسانی ومذہبی مفادات کو کس حد تک ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ اردو والوں نے اردو کے لیے کیا کیا اور یہ کہ کیا کسی زبان کی ترقی کے لیے سرکاری سرپرستی ناگزیر ہے۔دیگر ذرائع وضاحت کے ساتھ ساتھ اس کا جواب خود آئین کی دفعہ 29میں موجود ہے جس میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ ہندوستان کے تمام شہریوں کو اپنی الگ جداگانہ زبان، رسم الخط یا ثقافت کو محفوظ رکھنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
ہمارا آئین Self-enforcing statute یعنی خودبخود نافذ ہونے والا قانون نہیں ہے۔ اس کا نفاذ ایگزیکٹیو کی مختلف ایجنسیوں اور اداروں کے ذریعہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکار کی نیت صحیح ہونے کے باوجود بہت سے سرکاری اداروں وایجنسیوں کے خلاف ایسی شکایتیں موصول ہوتی ہیں کہ کچھ افسران اپنی آئینی پابندیوں پر پوری مستعدی کے ساتھ کاربند نہیں ہیں،اس سلسلہ میں عوام مختلف محکموں کے لیے سرکار کے ذریعہ مقرر کیے گئے Ombudsman (محتسب اعلیٰ)سے بھی اس طرح کی شکایتوں کے ازالے کے لیے رجوع کرسکتے ہیں۔
وزارت قانون اردومیں قانونی کتب لکھنے وجرائد شائع کرنے جیسے کاموں کے لیے مالی امدادبھی فراہم کرتی ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں غالباًکسی ایک بھی این جی او یا دیگر ادارے نے اس اسکیم کا فائدہ نہیں اٹھایا ہے اور نہ ہی ابھی تک کسی بھی ادارے نے کوئی معتبر قانونی رسالہ یا جریدہ شائع کیا ہے جبکہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے قانون کی جانکاری ہمیشہ کسی نہ کسی طرح مفیدو مددگار ثابت ہوتی ہے۔اقلیتی طبقہ خود اس بات کا احتساب کرے کہ اس نے سرکاری اسکیموں ، جن کی تفصیل تمام سرکاری سائٹوں پر موجود ہے، ان کا کہاں تک فائدہ اٹھایا ہے اور حکومت کے ذریعہ فراہم کردہ دیگر سہولیات وقائم کردہ اداروں سے وہ کس حد تک مستفید ہوا ہے۔ یہ مانا کہ ہندی کے ساتھ سرکاری زبان ہونے کے ناطے ترجیحی سلوک کیا گیا، جو اس کا حق بھی تھا،لیکن اردو کے لیے بھی ہر دور حکومت میں کم و بیش بتدریج کچھ نہ کچھ کیا ہی جاتا رہا۔ حال ہی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو کی کئی اسکیموں کو بحال بھی کیا گیا ہے۔امید کی جانی چاہیے کہ مستقبل میں بھی حکومت کی اس ادارے پر نظر عنایت رہے گی اوروزارت اقلیتی امور بھی موقوف اسکیموں کو نہ صرف بحال کرے گی بلکہ انہیں مزید مضبوطی فراہم کرے گی۔
اگر حکومت، عوام اور اردو داں طبقہ تینوں مل کر صدق دلی سے یہ چاہیں کہ اردو اس ملک میں پھلے پھولے اور اسے اس کا حق ملے تو اس ہدف کو پورا کرنا کوئی مشکل کام نہیں لیکن اردو کو روزگار سے جوڑے بغیر یہ ہدف پورا ہونا آسان کام نہیں۔یہ کام اکیلے حکومت نہیں کرسکتی۔ اس ضمن میں ہماری حکومت، نجی سیکٹر اور عوام تینوں کو مل کر سرگرم رول ادا کرنا ہوگا۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]