شاہد زبیری
ملک کی آزادی سے قبل 1925 سے سنگھ پریوار اور اس سے بھی پہلے سے ہندو مہا سبھا ملک کی فضائوں کو زہر آلود کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔ انگریزو ں کی غلامی سے آزادی کے بعد فسطائی طاقتیں ملک کو اپنا غلام بنا ئے رکھنے کیلئے نت نئی چالیں چلتی آرہی ہیں۔ ہندو مہا سبھا کے ونائک دامودر ساورکر نے اس وقت دو قومی نظریہ کے تحت جو نقشہ بنایا تھا، سنگھ پریوار کے ہیڈ گوار نے اس میں رنگ بھرنا شروع کیا تھا جس کے نتیجہ میں ملک دو لخت ہو گیا۔تقسیم وطن کے سانحہ اور 10لاکھ انسانوں کے خون بہہ جا نے کے بعد بھی فرقہ پرست اور فسطا ئی طاقتوں کے کلیجہ کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی ہے، آزادی کے 75سال گزرجا نے کے باوجودیہ عناصر پوری مستعدی کے ساتھ منافرت کی کھیتی کو سینچنے سے باز نہیں آرہے اور قومی یکجہتی اور قومی سلامتی کو بھی ہمیشہ دائو پر لگاتے رہتے ہیں۔ سنگھ پریوار کا تھنک ٹینک مسلم دشمنی کے نئے نئے جھوٹ گھڑتا آرہا ہے، ان میں سب سے بڑا مسلم آبادی کے اضافہ کاجھوٹ بھی شامل ہے جو اتنی بار بولا گیا جس کا کوئی شمار نہیں۔ مسلم اقلیت کی آبادی میں اضافہ کے اس جھوٹ کی دھار اب کند ہوچکی ہے لیکن 18ویں لوک سبھا کے دوران جب چار مرحلوں کی پولنگ ہوچکی ہے، چوتھے مرحلہ سے قبل اس جھوٹ کو گھڑا گیا اور سنگھ پریوار نے وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کو یہ جھوٹ تھما دیا جو اب تک کا سب سے بڑا جھوٹ کہا جا سکتاہے جو سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت عالمی تناظر کی چادر میں لپیٹ کر ہندو اکثریت کے ووٹ بٹورنے اور مسلم اقلیت کی آبادی کے اضافہ کا ڈر پھیلانے کیلئے ہے۔ہر چند کہ 11مئی کے روز نامہ راشٹریہ سہارا کے مختصر اور پُر مغز اداریہ میںبڑی حد تک مسلم آباد ی میں اضافہ کے جھوٹ کا پردہ چاک کیا جاچکاہے تاہم ’کچھ اور چاہیے وسعت اس بیاں کیلئے۔‘
آبادی کے اضافہ کا یہ جھوٹ یہاں تک پھیلا یا جاتا رہا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب مسلما ن ملک میں اکثریت میں آجا ئیں گے اور ہندو اقلیت میں اور ملک پر پھر سے مسلمان راج کریں گے۔کہتے ہیں کہ چور کی طرح جھوٹ کے بھی پیر نہیں ہو تے، یہ فضائوں میں تیرتا ہے، اس کے نتائج زمین پر نکلتے ہیں، یہ ایک ایسا زہریلا بیج ہے جوزبان وقلم سے زمین پر بکھیرا جا تا ہے جس سے نفرت اور دشمنی کی کھیتی پھلتی پھولتی ہے ۔ مانا مسلم آبادی بڑھ رہی ہے، کیا ہندو آبادی میں اضافہ نہیں ہوا؟ملک کی تقسیم کے بعد ملک کی پہلی مردم شماری کے مطابق ملک کی کل آبادی 36کروڑ تھی جس میں 30کروڑ ہندو تھے، باقی 6کروڑ میں مسلمان و دیگر اقلیتیں تھیں۔مسلمانوں کی آبادی 3.5کروڑ تھی۔ ملک میں ہندوئوں کی آبادی جس تیزی سے بڑھی، مسلمانوں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن اتنا بڑا جھوٹ تو آج تک نہیں بولا گیا کہ مسلمانوں کی آبادی میں 43.15فیصد کا اضافہ ہو گیا اور ہندئووں کی آبادی میں 7.82فیصد کمی واقع ہو گئی۔ ملک کے جس سیاسی تناظر میں اتنا بڑاجھوٹ پیش کیاگیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جھوٹ کی یہ ہانڈی سنگھ کے چولہے پر پکائی گئی ہے۔ آخر وزیراعظم نے مسلمانوں کی دشنام طرازی، لعن طعن کرنے، برا بھلا کہنے میں اور ان کی شہریت پر سوال کھڑا کرنے میں کوئی کمی چھوڑی ہے جو اب اس جھوٹ کا بھی سہارا لینا پڑ رہا ہے۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ سنگھ اور بی جے پی اپنی ممکنہ شکست کے خوف سے حواس باختہ ہوگئے۔
یہاں ایس وائی قریشی کی انگریزی کی مشہور کتاب Population-myth کا ذکر ضروری ہے جس میں سنگھ پریوار ،بی جے پی اور بائیں بازو کی دوسری مسلم دشمن تنظیموں کے اس جھوٹ کی قلعی کھولی گئی ہے۔ سابق آئی اے ایس، سابق چیف الیکشن کمشنر اور فیملی پلاننگ و ہیلتھ سروسز سے وابستہ رہے ایس وائی قریشی ملک کے ممتاز دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں، مذکورہ کتاب میں انہوں نے سرکاری اعدادو شمار کے حوالہ سے مسلم آبادی کے اضافہ کے جھوٹ کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دی ہے۔ ان کے نظریہ کے مطابق ملک کی آبادی میں اضافہ کا بڑا سبب مذہب نہیں، اسلام تو قطعاً نہیں۔ انہوں نے ملک کی آبادی کے اضافہ کی تین بڑی وجو ہات بتائی ہیں، تعلیمی پسماندگی ،معاشی پسماندگی اور ہیلتھ سروسز کی عام آدمی تک عدم فراہمی۔انہوں نے اپنی کتاب میں اس جھوٹ کی بنیاد پر بھی چوٹ کی ہے کہ مسلمان فیملی پلاننگ نہیں کرتے، انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا تو ملک کے 25صوبوں کے مسلمان جتنا فیملی پلاننگ پر عمل کرتے ہیں، یوپی،بہار کے ہندو نہیں کرتے۔ وہ مانتے ہیں کہ 52فیصد مسلمان فیملی پلا ننگ نہیں کرتے تو 42فیصد ہندو بھی نہیں کرتے ، مسلم ممالک حتیٰ کہ کٹر مذہبی ملک ایران کے علاوہ دیگر مسلم ممالک کے ائمہ جمعہ کے خطبوں میں فیملی پلا ننگ کی ترغیب دیتے ہیں۔ مسٹر قریشی نے قرآن و احادیث اور روایات کے حوالہ سے بھی دلائل پیش کیے اور بتا یا کہ اسلام فیملی پلاننگ کا مخالف نہیں ہے، سوائے اسٹرلائزیشن(نسبندی) کے، لیکن اس کے باوجود ہندوستان کے 20فیصد مسلمان اسٹر لائزیشن کراچکے ہیں۔ انہوں نے چین کی آبادی کا بھی حوالہ دیا اورکہا کہ ایک وقت تھا کہ وہاں پہلے صرف ایک بچہ پیدا کرنے کی اجازت تھی لیکن جب اس وجہ سے وہاں بوڑھوں کی تعداد بڑھ گئی اور نوجوان گھٹ گئے،بوڑھوں کی نگہداشت بھی ایک مسئلہ بن گئی تو چین نے بھی اس پابندی کو آہستہ آہستہ ختم کردیا ۔ اس سے مسٹر قریشی اس نتیجہ پر پہنچے کہ آبادی کنٹرول کرنے کیلئے سختی اور پابندی کے نقصان زیادہ اور فائدے کم ہیں۔ ان کے مطابق راجستھان اور مدھیہ پردیش سمیت ملک کے 5صوبوں میں اسمبلی، بلدیہ اور پنچایت کے الیکشن میں پابندی کے علاوہ دوسری سرکاری مراعات پر پابندی لگا ئی گئی تھی لیکن کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا اور مختلف مسائل کھڑے ہوگئے۔ ان کی نظر میں آبادی کنٹرول کرنے کیلئے تعلیم، معاش اور ہیلتھ سروسز کی فراہمی عوام کیلئے ضروری ہے لیکن حال یہ ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں ان تینوں کا سب سے زیادہ فقدان ہے لیکن پھر بھی تعلیم یافتہ مسلمان فیملی پلاننگ کو اپنا رہے ہیں۔ ایس وائی قریشی کی ہیلتھ سروے اور آبادی کے تمام سروے اور جائزوں کے اعدادو شمار پر گہری نظر ہے، ان کی کتاب اس کا واضح ثبوت ہے۔ وہ کوئی بات بغیر ثبوت اور اعدادو شمار کے نہیں کہتے۔ان کی کتاب کا حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کا پرو پیگنڈہ دائیں بازو کی فرقہ پرست تنظیمیں محض اپنے سیاسی مفادات کیلئے کرتی آرہی ہیں۔
طرفہ تماشہ یہ کہ وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے اب تک کے اس سب سے بڑے جھوٹ کی بنیاد پر جہاںبی جے پی سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتی ہے،اس جھوٹ کو لے کر فرقہ پرست عناصر نے بھی آسمان سر پر اٹھارکھا ہے۔سنگھ پریوار کے گماشتوں میں شامل وشو ہندو پریشد کے ترجمان ونود بنسل کا الزام ہے کہ دنیا بھر کا ریکارڈ ہے کہ مسلمان جہاں بڑھتے ہیں، وہاں غیر مسلم کم ہو جا تے ہیں یا بھاگ کھڑے ہوتے ہیں یا مارے جا تے ہیں۔ مسلمان جب تک اقلیت میں ہوتے ہیں، مظلوم ہونے کا ڈھونگ کرتے ہیں اور یہ کارڈ کھیل کر اس ملک کی اکثریت کو بدنام کرتے ہیں۔ بنسل کا اشارہ جس طرف ہے، وہ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ بنسل نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، ان کا الزام ہے کہ مسلمان آبادی میں اضافہ بھی کریں، غریبی، بے روزگاری اور ناخواندگی کے ساتھ ساتھ مذہبی بنیاد پر ریزرویشن بھی چاہیں۔ان کے مطابق مسلمان ملک میں آبادی کا جہاد چلارہے ہیں ،مسلمان کہتے ہیں اولاد اللہ دیتا ہے لیکن وسائل کیلئے حکومت کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں یہ کہ حکومت کی بات نہیں مانتے حکومت سے سب کچھ مانگتے ہیںاور قانون شریعت کا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف خود کو مہا منڈلیشوربتا نے والے یتی نرسنگھا نندکی انتہائی اشتعال انگیز ویڈیو سامنے آئی جو 10مئی کی ہے۔ اس میں یتی نند اقتصادی کونسل کی رپورٹ میں پیش کیے گئے اعدادو شمار کو 2011کا بتا تے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کیلئے وہ جمہوریت اور آئین کو قصوروار، گاندھی جی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ملک کی ایک اور تقسیم اور ایک سناتن ویدک راشٹر کو ضروری بتا تے ہیں،جہاں کوئی مسجد، مدرسہ اور مسلمان نہ ہو۔ ویڈیو میں کہا گیا کہ اگر ملک کا وزیراعظم مسلمان بن گیا تو یہ موقع بھی ہا تھ سے جا تا رہے گا، اس سے کہیں زیادہ اشتعال انگیز باتیں ویڈیو میں سنی جا سکتی ہیں :
خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھئے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہئے
[email protected]