شمسی سال نو کا آغاز ، تقریبات اور اسلامی نقطۂ نظر : ڈاکٹر ریحان اخترقاسمی

0

ڈاکٹر ریحان اخترقاسمی

وقت ایک ایسا خزانہ ہے جسے اگر ضائع کیا جائے تو اسے دوبارہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ انسان کی زندگی لمحوں، دنوں، مہینوں اور سالوں کی ایک لڑی ہے جو نہایت خاموشی سے اپنی منزل کی طرف بڑھتی رہتی ہے۔ ہر گزرتا ہوا لمحہ ایک سوال چھوڑ جاتا ہے: کیا ہم نے اس وقت کو اپنے مقصدحیات کے مطابق گزارا؟سال کا اختتام اور نئے سال کا آغاز انسان کے لیے ایک منفرد موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھنے کی کوشش کرے، اپنی کوتاہیوں کو دور کرے اور ایک نئی سمت میں سفر شروع کرے۔آج کا انسان اپنی زندگی کی تیز رفتاری میں اس قدر مصروف ہو چکا ہے کہ وقت کی قدر و قیمت کو بھلا بیٹھا ہے۔ دنیاوی مصروفیات، مادی خواہشات، اور عارضی خوشیوں نے ہمیں اپنے اصل مقصد سے غافل کر دیا ہے۔ اس وقت جب کہ نئے سال کی تقریبات کا چرچا ہر جگہ ہے، ہمیں اپنے دین اور اقدار پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ سال نو کی تقریبات ہماری دینی تعلیمات سے ہم آہنگ ہیں؟ کیا ان میں شرکت کرنا ایک مسلمان کی شان کے مطابق ہے؟

اسلام ہمیں وقت کی قدر کرنے اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق گزارنے کا درس دیتا ہے۔ سال نو کا آغاز محض ایک کیلنڈر کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک موقع ہے اپنے اعمال کا جائزہ لینے، اپنے مستقبل کے لیے اہداف متعین کرنے، اور اپنے رب کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرنے کا۔ ہمیں چاہیے کہ اس وقت کو اپنی زندگی کی اصلاح کے لیے استعمال کریں اور دنیاوی فریب میں مبتلا نہ ہوں۔وقت کا درست استعمال ہی ایک کامیاب زندگی کی ضمانت ہے۔ اگر ہم ہر سال کے اختتام پر اپنا محاسبہ کریں، اپنی ناکامیوں کو پہچانیں اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں، تو یہ عمل نہ صرف ہماری دنیاوی زندگی کو بہتر بنائے گا بلکہ ہماری آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بھی بنے گا۔ یہ تمہیدی کلمات اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں کہ وقت ایک قیمتی امانت ہے جس کا صحیح استعمال ہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔

سال نو کی تقریبات اور اسلامی نقطہ نظر

دنیا کے مختلف ممالک میں سالِ نو کی تقریبات کو ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ان تقریبات میں لوگ خوشیاں مناتے ہیں، آتش بازی کرتے ہیں، محفلیں سجاتے ہیں، اور رات بھر تفریح کرتے ہیں۔ یہ سب مغربی ثقافت کی جھلکیاں ہیں جو دنیا کے بیشتر معاشروں میں سرایت کر چکی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی یہ روایات بڑی تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔ ہر سال کے اختتام پر ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، اور عوامی مقامات پر ان تقریبات کا چرچا ہوتا ہے، اور لوگ ان میں بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے یہ تقریبات نہایت غیر ضروری اور غیر اخلاقی ہیں۔ اسلام ہمیں دنیاوی خوشیوں کو مقصدحیات بنانے کے بجائے اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ سال نو کی تقریبات میں شامل ہونا ایک مسلمان کی اصل شناخت کو مجروح کرتا ہے۔ قرآن کریم ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے کہ دنیاوی زندگی ایک کھیل اور تماشا ہے، اور اصل زندگی وہی ہے جو آخرت کی کامیابی پر مبنی ہو۔
ان تقریبات میں جو سرگرمیاں ہوتی ہیں، وہ صد فیصد اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہوتی ہیں۔ آتش بازی، موسیقی،رنگ رلیاں اور بے جا فضول خرچی جیسے اعمال نہ صرف وقت اور وسائل کا ضیاع ہیں بلکہ یہ ہمیں ہمارے اصل مقصد سے بھی دور لے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کیا یہ تقریبات ہمیں اللہ کے قریب کر رہی ہیں یا ہمیں اس سے مزید دور کر رہی ہیں؟ اسلامی تہذیب ہمیں سادگی، وقار اور اللہ کے ذکر کو زندگی کا حصہ بنانے کی تعلیم دیتی ہے۔ سال نو کی تقریبات اس تعلیم کے برعکس مادیت، فخر اور عارضی خوشیوں پر مبنی ہیں۔ ہمیں ان تقریبات میں شرکت سے اجتناب کرنا چاہیے اور اپنی اسلامی شناخت کو برقرار رکھنا چاہیے۔ نئے سال کا آغاز ہمیں یہ سوچنے کا موقع دیتا ہے کہ ہم نے پچھلے سال میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ یہ وقت ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دنیاوی خوشیوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے ہمیں اپنی آخرت کی تیاری کرنی چاہیے۔ اسلام نے ہمیشہ دنیا کو ایک عارضی قیام اور آخرت کو اصل منزل قرار دیا ہے اور ایسے میں سالِ نو کی تقریبات میں شامل ہونا ایک مسلمان کے لیے کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

خوشی اور مقصد کا حقیقی تصور

خوشی ایک ایسا احساس ہے جسے ہر انسان اپنی زندگی میں حاصل کرنا چاہتا ہے، مگر اس کا تصور ہر شخص کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کے لیے خوشی کا حقیقی معیار اللہ کی رضا میں رکھا ہے۔ جو خوشی اللہ کے احکامات اور رسول ؐکی تعلیمات کے مطابق ہو، وہی دائمی اور حقیقی خوشی کہلانے کی مستحق ہے۔ دنیاوی میلوں اور جشنوں میں خوشی تلاش کرنا ایک ایسا فریب ہے جو انسان کو اس کے اصل مقصد سے دور لے جاتا ہے۔آج کے دور میں جہاں مادی ترقی نے انسان کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے، ہم نے خوشی کے حقیقی معنی کو بھلا دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیاوی جشن، مال و دولت، اور شہرت خوشی کا ذریعہ ہیں، حالانکہ یہ سب عارضی ہیں اور انسان کو سکون دینے کے بجائے مزید بے سکونی میں مبتلا کرتے ہیں۔ قرآن کریم ہمیں بار بار یہ یاد دلاتا ہے کہ دنیاوی زندگی ایک دھوکہ ہے اور حقیقی خوشی وہی ہے جو آخرت میں حاصل ہوگی۔

سال نو کی تقریبات کو خوشی کا ذریعہ سمجھنا ہماری دینی تعلیمات کے خلاف ہے۔ یہ تقریبات ہمیں عارضی سکون دیتی ہیں مگر ان کا انجام ہمیشہ پشیمانی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے حقیقی خوشی وہی ہے جو اللہ کی رضا اور اس کی قربت سے حاصل ہو۔ ہمیں اپنی خوشیوں کو اس انداز میں ترتیب دینا چاہیے کہ وہ ہماری آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بن سکیں۔اسلامی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ خوشی اور مقصد کا تعلق ہماری نیت اور عمل سے ہے۔ اگر ہماری نیت اللہ کی رضا حاصل کرنے کی ہو اور ہمارا عمل اس کے احکامات کے مطابق ہو، تو ہماری ہر خوشی دائمی اور بابرکت ہو گی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اللہ کی رضا کے لیے وقف کریں اور دنیاوی خوشیوں کے فریب سے بچیں۔ سالِ نو کا آغاز ایک ایسا وقت ہے جب ہمیں اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھنے اور اپنی خوشیوں کو اللہ کی رضا کے مطابق ترتیب دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ وقت ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دنیاوی خوشیوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے ہمیں اپنی زندگی کو آخرت کی کامیابی کے لیے وقف کرنا چاہیے۔

اعمال کا محاسبہ

اسلام نے ہمیشہ خود احتسابی کو اہمیت دی ہے۔ قرآن و حدیث میں بار بار یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سال کا اختتام اور نئے سال کا آغاز ایک ایسا وقت ہے جو ہمیں اپنے اعمال کے محاسبے کا موقع فراہم کرتا ہے۔اسلام نے انسان کو یہ تعلیم دی کہ وہ اپنے ہر عمل کا حساب خود کرے اور اپنے اعمال کی نگرانی کے لیے ہمیشہ چوکنا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا:’’پھر انہیں اللہ کی طرف لوٹایا جائے گا‘‘۔ علامہ اسماعیل حقی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں ’’جب مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا اور اعمال کا حساب ہوناہے اور اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے ا س کے اعمال کا حساب لینا ہے تو عقلمند انسان پر لازم ہے کہ وہ حساب کے معاملے میں جرح ہونے سے پہلے ہی اپنے نفس کا محاسبہ کر لے کیونکہ انسان راہِ آخرت میں تاجر ہے، اس کی عمر اس کا مال و متاع ہے، اس کا نفع اپنی زندگی کو عبادات اور نیک اعمال میں صرف کرنا ہے اور ا س کا نقصان گناہوں اور معاصی میں زندگی بسر کرنا ہے اور ا س کا نفس اس تجارت میں اس کا شریک ہے‘‘۔ حضرت عمرؓ کاقول ہے: مفہوم ’’ یعنی اپنے اعمال کا حساب خود کرو قبل اس کے کہ تم سے حساب لیا جائے‘‘۔یہ قول ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ پرکھنا چاہیے اور اپنے اعمال کی ذمہ داری خود اٹھانی چاہیے۔ امام محمد غزالی فرماتے ہیں ’’ انسان کو چاہئے کہ رات کو سوتے وقت ایک گھڑی مقرر کرے تاکہ وہ اپنے نفس سے اس دن کا سارا حساب کتاب لے سکے اور جس طرح کاروبار میں شریک شخص سے حساب کرتے وقت (انتہائی احتیاط اور) مبالغہ سے کام لیا جاتاہے اسی طرح اپنے نفس کے ساتھ حساب کرتے ہوئے بہت سے احتیاط تدابیر کرنے چاہئے کیونکہ نفس بڑا مکار اور حیلہ ساز ہے، وہ اپنی خواہش کو انسان کے سامنے اطاعت کی شکل میں پیش کرتا ہے تاکہ انسان اسے بھی نفع شمار کرے حالانکہ وہ نقصان دہ ہوتا ہے‘‘۔

نماز، جو ایک مسلمان کی زندگی کی بنیاد اور ستون ہے، سب سے زیادہ توجہ طلب عبادت ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو دن میں پانچ مرتبہ ہمیں اللہ کے قریب ہونے کا موقع دیتا ہے۔ سال کے 365 دنوں میں 1825نمازیں فرض ہوتی ہیں۔ کیا ہم نے ان تمام نمازوں کو خشوع و خضوع کے ساتھ وقت پر ادا کیا؟ اگر نہیں، تو یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ نمازوں کے معاملے میں کوتاہی کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنے رب کی عظمت کو نظر انداز کیا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے پچھلے سال کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کن مواقع پر ہم نے نماز میں سستی کی۔ اس کے ساتھ ہی آئندہ کے لیے ایک مضبوط ارادہ کریں کہ ہم اپنی نمازوں کو کبھی ترک نہیں کریں گے اور نہ ہی ان میں کسی قسم کی غفلت برتیں گے۔سال بھر میں رمضان کے روزے فرض ہیں، جو روحانی ترقی اور تقویٰ کا ذریعہ ہیں۔ ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہم نے رمضان کے تمام روزے رکھے؟ کیا ہم نے ان میں صرف بھوک اور پیاس برداشت کی، یا واقعی اللہ کی رضا کے لیے خود کو گناہوں سے بچایا؟ اس کے علاوہ، نفل روزے، جیسے پیر اور جمعرات کے روزے، بھی روحانی ترقی کا اہم ذریعہ ہیں۔ ہمیں ان کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔عبادات کے دائرے میں زکوٰۃ اور صدقات بھی شامل ہیں۔ کیا ہم نے اپنی آمدنی سے مستحقین کے حقوق ادا کیے؟ زکوٰۃ ایک فرض ہے، مگر بہت سے لوگ اسے ادا کرنے میں غفلت برتتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مالی معاملات کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہم نے اپنے مال کا حق کس حد تک ادا کیا ہے۔

قرآن مجید ہماری زندگی کا حقیقی رہنما ہے، مگر کیا ہم نے سال بھر میں اسے اپنی زندگی کا حصہ بنایا؟ کیا ہم نے اس کی تلاوت کی، اس کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کی، اور اس کی تعلیمات پر عمل کیا؟ یہ سوالات ہر مسلمان کے لیے نہایت اہم ہیں۔ اگر ہم نے قرآن سے دوری اختیار کی ہے تو ہمیں فوراً اپنی روش بدلنی ہوگی اور آئندہ کے لیے قرآن کو اپنی زندگی کا محور بنانا ہوگا۔عبادات کے علاوہ، ہمیں اپنے اخلاق اور سماجی تعلقات کا بھی محاسبہ کرنا چاہیے۔ کیا ہم نے اپنے والدین، رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا؟ کیا ہم نے کسی کا دل دکھایا یا کسی کا حق مارا؟ اسلامی تعلیمات ہمیں حکم دیتی ہیں کہ ہم اپنے اخلاق کو سنواریں اور دوسروں کے لیے نرمی اور محبت کا مظاہرہ کریں۔یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے پیشے اور کاروباری معاملات کا بھی جائزہ لیں۔ کیا ہم نے کسی قسم کی دھوکہ دہی کی؟ کیا ہم نے کسی کا حق چھینا؟ یہ تمام پہلو ہماری زندگی کا حصہ ہیں اور ان کا محاسبہ کرنا نہایت ضروری ہے۔

الغرض،سالِ نو کا آغاز ایک نئی امید، حوصلہ اور عزم کا پیغام لے کر آتا ہے، جو ہمیں اپنی زندگیوں میں بہترین تبدیلیاں لانے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ موقع ہمیں اپنی گزشتہ سال کی کوتاہیوں، غلطیوں اور کمیوں پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے تاکہ ہم اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر ان کی تکمیل میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ ہمیں اپنے معاشرتی، اخلاقی اور دینی فرائض کا شعور حاصل کرتے ہوئے ہر نئے دن کو ایک نئے عزم کے ساتھ گزارنا چاہیے۔ سال نو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم اپنے ارادوں، کوششوں اور نیک نیتی کے ساتھ ہر کام میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ وقت ہمیں اپنے اندر کی صلاحیتوں کو پہچاننے، دوسروں کی مدد کرنے اور معاشرتی ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے نبھانے کا درس دیتا ہے۔ اس کے ذریعے ہم اپنے روایات، تعلیمات اور اقدار کو مستحکم کر کے ایک بہتر اور روشن مستقبل کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS