اتحاد کے سفر کا آغاز

0

2024 کے عام انتخاب سے قبل اپوزیشن اتحاد کی کوششیں اب آخری شکل لینے والی ہیں۔ آج جمعہ کو پٹنہ میں بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی قیادت میں ملک بھر کی اپوزیشن سیاسی جماعتیں اکٹھی ہورہی ہیں۔ جموں و کشمیرکی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی،تمل ناڈوکے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن، بایاں محاذ کے ڈی راجہ اور دیپانکربھٹاچاریہ، ترنمول کانگریس کی سپریمو ممتابنرجی اور ان کے بھتیجے ابھیشیک بنرجی، سنجے سنگھ، راگھو چڈھا جیسے لیڈران تو جمعرات کو ہی پہنچ گئے جب کہ راہل گاندھی اور کانگریس صدر ملکارجن کھرگے اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ شرد پوار جمعہ کی صبح تک پہنچنے والے ہیں۔نتیش کمار کی قیادت میں ہونے والی اس میٹنگ کے تمام شرکا بھارتیہ جنتاپارٹی کے خلاف انتخابی جنگ لڑنے کی حکمت عملی طے کریں گے۔کانگریس سمیت کئی اہم اپوزیشن جماعتیں بی جے پی کے خلاف اس اجتماع کو ہر قیمت پر کامیاب بنانے کی خواہش مند ہیں۔سیٹوں کی تعداد اور وزیراعظم کے عہدہ کی امیدواری پر اتفاق رائے جیسے معاملات بھی کانگریس اور اس جیسی دوسری پارٹیوںکیلئے ثانوی درجہ پر آچکے ہیں، ان کاایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح یہ میٹنگ کامیاب ہو اور اپوزیشن جماعتیں کم از کم کسی ایک مشترکہ پروگرام پر متفق ہوجائیں۔
لیکن اپوزیشن کی کچھ سیاسی جماعتیں ایسی بھی ہیں جو قبل از وقت لایعنی اور نامعقول شرائط عائد کرکے اتحاد کے سفر کو منزل سے بھٹکانے کی کوشش کررہی ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں میں عام آدمی پارٹی کے کنوینر اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال، بہوجن سماج پارٹی کی سپریمو مایاوتی پیش پیش ہیں۔ مایاوتی نے تو اپوزیشن اتحاد کی اس کوشش کاباقاعدہ مذاق تک اڑایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ’ دل ملے نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے‘ اور منہ میں ’رام بغل میں چھری‘ جیسے محاورے اس میٹنگ کے شرکاپر صادق آتے ہیں۔ مایاوتی کا کہنا ہے کہ یہ جماعتیں عوام میں مشترکہ اعتماد پیدا کرنے میں اب تک ناکام رہی ہیں۔ان کا مقصد صرف اقتدار حاصل کرنا ہے۔ اترپردیش کی80لوک سبھا سیٹوں پر ا ن کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں لیکن یہ پارٹیاں یہاں کے عوام خاص کر بہوجنوں کی ابتر حالت کی بہتری کیلئے کوئی منصوبہ نہیں رکھتی ہیں، نہ ان کے پیش نظر مہنگائی، غربت، بے روزگاری، پسماندگی، ناخواندگی، ذات پات کی منافرت اور مذہبی جنون وتشدد وغیرہ سے نمٹنا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال تو اپنے کچھ لیڈروں کے ساتھ اس میٹنگ میں شامل ہورہے ہیں لیکن انہوں نے اپنی شرطیں بھی عائد کردی ہیں اور ان شرطوں کی تکمیل نہ ہونے پر میٹنگ کے بائیکاٹ کی دھمکی بھی دے دی ہے۔ کجریوال کا کہنا ہے کہ میٹنگ میں سب سے پہلے مرکزی حکومت کی جانب سے متنازع دہلی آرڈی نینس پر بات کی جائے اور کانگریس راجیہ سبھا میں اس آرڈنینس کے خلاف عام آدمی پارٹی کی حمایت کا اعلان کرے ورنہ دوسری صورت میں وہ میٹنگ سے واک آئوٹ کرجائیں گے۔
یہ وقتی مفاد اور تنگ نظری ہی اپوزیشن اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ علاقائی پارٹیاں اپنے محدود مقاصد کی وجہ سے کانگریس کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہوتی ہیں اور نتیجہ میں اپوزیشن منقسم رہتا ہے اور یہی منقسم اپوزیشن آج بی جے پی اور نریندر مودی کی کامیابی کی اصل وجہ ہے۔ اروندکجریوال کی پارٹی خیر سے آج دو ریاستوںمیں حکمراں ہے اور اسے قومی پارٹی کا بھی درجہ مل چکا ہے لیکن باوجود اس کے وہ ’علاقائی‘ مفاد سے اوپر اٹھنے میں ہچکچاہٹ کے شکار ہیں یہی صورتحال بی ایس پی کی مایاوتی جی کے بھی ساتھ ہے۔لیکن یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ وقتی اور علاقائی فائدے کے پیش نظر ملک کے وسیع تر مفاد سے سمجھوتہ کرلیاجائے۔
آج ہندوستان کی سب سے بڑی ضرورت ایک ایسے اپوزیشن کی ہے جو بھارتیہ جنتاپارٹی کے متبادل کے طور پر سامنے آئے۔ لیکن انفرادی طور پر کوئی بھی سیاسی جماعت اس ضرورت کو پورا نہیں کرپارہی ہے اور یہ صورتحال مسلسل9برسوں سے ہے۔کانگریس نے ہر چند کہ کوشش کی ہے مگر مطلوبہ کامیابی سے وہ بھی کوسوں دور ہے۔ اب آج مختلف سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوکر اس چیلنج کو قبول کرنے کی ہمت جٹارہی ہیں تو اسے وقتی مفاد سے مشروط کیاجاناکسی بھی حال میں مناسب نہیں ہوسکتا ہے۔75برسوں کے مسلسل سفر کے بعد آج ہندوستان کی جمہوریت کو آمریت اور اکثریت پسندی سے سخت چیلنج کا سامنا ہے۔ملک کے آئین اور جمہوریت پر یقین رکھنے والی تمام قوتوں کا یہ مشترکہ فرض ہوناچاہیے کہ وہ چیلنج اور مشکل کی اس گھڑی میں ہر چھوٹے مفاد سے اوپر اٹھیں اور مشترکہ و متحدہ طور پر اس کا سامنا کریں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS