انجینئر خالد رشید (علیگ)
صدارتی خطبہ کے جواب میں حزبِ اختلاف کا جارحانہ رویہ راہل گاندھی کی ولولہ انگیز تقریر حزب اختلاف کے ارکان کا پر اعتماد انداز اور حزبِ اقتدار کی صفوں میں بے چینی کا نظارہ مودی اور امت شاہ کے چہروں پر فکرمندی کی لکیریں۔ راہل کی تقریر کے درمیان غیر روایتی طور پہ وزیر اعظم، وزیر دفاع،وزیر داخلہ اور شیو راج چوہان کا اپنے بنچوںسے کھڑے ہوکر احتجاج درج کرانا راجیہ سبھا میں حزبِ اختلاف کا شور غل اور مودی جی کے خطاب سے پہلے ہی واک آؤٹ، یہ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کا وہ منظر نامہ ہے جو گزشتہ ایک ماہ سے ملک کی مین اسٹریم میڈیا کے ساتھ ساتھ اخبارات اور سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ ہر شخص اپنے اپنے انداز میں اس نئے سیاسی منظرنامہ کا مطلب نکالنے میں مصروف ہے۔ کسی کو راہل کے بدلے انداز میں جمہوریت کی فتح نظر آرہی ہے، کوئی اسے بی جے پی کے تکبرکے خاتمے کا آغاز بتا رہا ہے تو کوئی اس اعتماد کا نتیجہ جو بھارت جوڑو یاترا سے راہل کے اندر پیدا ہوا۔ وہ جو بھی رہا ہو ملک نے حزب اختلاف کی بدلی ہوئی تصویر دیکھی جو گزشتہ ایک دہائی سے نہ صرف پھیکی پڑ چکی تھی بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی بقا پہ سوالیہ نشان لگا رہی تھی۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اس فلم کا ٹریلر ہے جو آنے والے 5سال کی جمہوریت کے مندر میں چلنے والی ہے۔ ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ اس فلم کا انجام کیا ہوگا؟ اس سوال کا مثبت جواب تو یہ ہے کہ ملک کی جمہوریت کو تقویت حاصل ہوگی۔ عوامی مسائل پہ حکومت کو توجہ دینے پہ مجبور ہونا پڑے گا اور قومی اہمیت کے قوانین پارلیمنٹ میں مفصل بحث و مباحثہ کے بعد پاس ہوںگے نہ کہ اس انداز میں جیسے گزشتہ 10سالوں میں ہوتے رہے۔ دوسرا منفی جواب جو حصہ خوف ناک ہے وہ یہ کہ حکومت اپنے رویہ میں کوئی تبدیلی لانے کے بجائے حزب اختلاف کو کمزور کرنے کا اپنا سابقہ رویہ جاری رکھے گی۔ دشمن زیادہ طاقتور ہو گیا ہے اس لیے زیادہ دھار دار ہتھیاروں کا استعمال کیا جائے گا۔ای ڈی اور سی بی آئی کو مزید طاقتور بنایا جائے گا ۔ 240 کو مخالف پارٹیوں میں سیندھ ماری کر کے 272بنانے کی حکمت عملی پہ عمل کیا جائے گا۔ چھوٹی پارٹیوں میں لوٹس آپریشن کے ذریعہ توڑ پھوڑ کی جائے گی۔ حزب اختلاف کے اراکین کو گزشتہ سالوں کی طرح معطل کیا جائے گا۔ اصل اسپیکر کی مدد سے ایوان کی کارروائیوں کو مرج کیا جائے گا، جس کا اشارہ مودی جی اپنی تقریر میں دے ہی چکے ہیں جو لوگ مودی جی کے طرز حکومت سے واقف ہیں ان کو اس دوسرے جواب میں زیادہ دم نظر آتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ باوجود 303 سے 240 نشستیں ملنے کے بی جے پی یا مودی جی کے رویہ میں کسی تبدیلی کا کوئی عندیہ نہیں ملتا جس انداز میں مودی جی نے اپنی نئی کابینہ کی تشکیل دی اور جس طرح ایک بار پھر اسی شخص کو اسپیکر بنایا جس پہ گزشتہ پارلیمانی مدت کے دوران من مانے اور غیر جمہوری طریقوں سے ایوان چلانے کے الزامات لگے تھے۔ صاف پیغام ہے کہ باوجود بیساکھیوں کے حکومت کی چال میں وہی اکڑ قائم رہے گی جو گزشتہ 10سال میں محسوس کی گئی۔ اسپیکر کے علاوہ میڈیا کا رول بھی کافی اہم رہنے کی توقع ہے جو حزب اختلاف کے سچ کو جھوٹ اور حزب اقتدار کے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔ پارلیمنٹ کا حالیہ اجلاس اس کلاکاری کا جیتا جاگتا نمونہ ہے جہاں گودی میڈیا کو راہل کے بیان کا وہ حصہ نظر نہیں آیا جس میں انہوں نے چیخ چیخ کر کہا کہ ہندو کبھی تشدد نہیں کر سکتا، ہندو کبھی ڈر نہیں پھیلا سکتا، ہندو کبھی نفرت نہیں پھیلا سکتا ۔
بہر حال یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا جواب تو وقت ہی دے گا، لیکن جس طرح راہل گاندھی نے پارلیمان کے اندر نریندر مودی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حزب اختلاف کے237اراکین کی ترجمانی کی اور جس طرح اکھلیش یادو کے علاوہ ترنمول کانگریس کے لیڈران نے حزب اقتدار کی صفوں میں کھلبلی پیدا کی اس سے یہ تو اندازہ ہوگیا کہ آنے والا بجٹ کا اجلاس بہت دھماکہ خیز ہوگا۔ اس کے علاوہ ملک کے سیکولر حلقوں نے بھی راہل کی تقریر کو بہت غور سے سنا جس میں کانگریس کی قیادت کے بدلتے رخ کا واضح اشارہ موجود تھا۔ ان کی سمجھ میں شاید یہ بات آگئی ہے کہ سنگھ کے ہندتو کا مقابلہ اب جنیو پہن کر نہیں کیا جا سکتا۔ کسی کی دکان کے سامنے ٹھرے کی دکان کھولنے سے وہسکی کی دکان بند نہیں کرائی جا سکتی۔ ہاں بی جے پی کے انتخابی ہندتو کو اصل ہند و مذہب کے خلاف ثابت کر کے اس کا جواب ضرور دیا جا سکتا ہے جس کے لیے کانگریس کو ہندو سنتوں کی ایک جماعت تشکیل دینی ہوگی جو عوام کو یہ بتا سکے کہ بی جے پی نے ہندتو کو سیاست میں گھسیٹ کر اصل مذہب کو کتنا نقصان پہنچایا ہے ۔ راہل فی الحال تو ٹاپ گیئر میں نظر آ رہے ہیں وہ پارلیمنٹ کی تقریر کے بعد مودی کے گڑھ گجرات پہنچ گئے جہاں انہوں نے کانگریس کے خوف زدہ کار کنان کوبھی وہی پیغام دیا جو پارلیمنٹ کی تقریر کے دوران دیا تھا ڈرو مت ڈراؤ مت۔ اس کے علاوہ وہ لوکو پائلٹ سے ملے تیسری بار منی پور کے مظلوموں کے آنسو پوچھنے پہنچ گیے، ہاتھرس گئے اور اپنے حلقہ رائے بریلی کا دورہ بھی کر لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ راہل کا یہ نیا روپ اور حوصلہ دیکھ کر ملک کے جمہوریت پسند عوام نے سکون کی سانس لی ہے۔ ان کو راہل کی شکل میں امید کی ایک کرن بھی دکھائی دی ہے اور اس سوال کا جواب بھی مل گیا ہے کہ مودی کے بعد کون ؟
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس راہ پر راہل چل نکلے ہیں وہ اتنی آسان بھی نہیں ہے۔ ان کا مقابلہ ایسے لوگوں سے ہے جو اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے، ان کو نہ جمہوریت سے محبت ہے نہ دستور سے اور نہ ہی اخلاقیات اور پارلیمانی روایات سے ان کے لیے اکثریت اور اقلیت کا کوئی خاص مطلب نہیں ہے ۔ ویسے بھی مادہ پرستی کے اس دور میں کبھی بھی اراکین کو پالا بدلنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ مہاراشٹر کے حالیہ ایم ایل سی انتخابات اس کا تازہ ثبوت ہے اس میں بھی کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ مودی کا جادو ختم ہو گیا ہے اور عوام کے ذہنوں سے مذہب کی افیم کا اثر اترنے لگا ہے۔ 12 جولائی کو اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے نتیجے اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام اصل ایشو کی طرف لوٹنے لگے ہیں۔سیاست میں پیش گوئیاں کرنا مشکل کام ہے لیکن اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ آغاز تو اچھا ہے ۔
[email protected]