جمہوریت کی اصل روح عوامی نمائندگی،آئینی اقدار اور غیرجانبدارانہ اصولوں پر استوار ہوتی ہے،لیکن جب جمہوری ادارے سیاست کی بھینٹ چڑھنے لگیںتو نہ صرف ان کی وقعت کم ہوتی ہے، بلکہ جمہوریت کے بنیادی ستون بھی ہل جاتے ہیں۔ راجیہ سبھامیں آج چیئرمین جگدیپ دھن کھڑ کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد نے ایک نئے سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا ہمارے جمہوری ادارے آئینی اقدار پر قائم رہنے کے بجائے سیاسی مفادات کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں؟
دھن کھڑ اور اپوزیشن کے درمیان زبردست لفظی جنگ نے اس سوال کو ایک بار پھر اہمیت دی ہے اور یہ دکھایا ہے کہ جب سیاسی مفادات جمہوریت کے مقدس اداروں میں دراندازی کرتے ہیں تو ایوان کا تقدس متاثر ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف ایوان کے اندر کی سیاست کا منظر تھا بلکہ اس نے عوامی نمائندگی کے نظام پر بھی سوالات اٹھا دیے۔ راجیہ سبھا میں جمعہ کے دن چیئرمین جگدیپ دھن کھڑ کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی،جس نے ایوان میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ اس تحریک کا مقصد نہ صرف دھن کھڑ کے عہدے کے خلاف تھا بلکہ یہ جمہوریت کی بنیادی اقدار اور آئینی اصولوں کی جنگ تھی۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ دھن کھڑ نے اپنے عہدے کی غیرجانبداری کو برقرار رکھنے میں ناکامی دکھائی ہے اور بار بار حکومتی جماعت کے مفادات کی حمایت کی ہے۔ دھن کھڑ کے فیصلوں اور رویے نے ایوان کے وقار کو مجروح کیا اور اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی کوشش کی،جس سے جمہوریت کے بنیادی اصولوں پر سوالیہ نشان لگ گیا۔
جگدیپ دھن کھڑ نے اپنی جوابی تقریر میں اپنے کسان ہونے پر فخر کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئین کے وفادار ہیں اور ملک کیلئے اپنی جان دینے کو تیار ہیں،لیکن ان کے عملی اقدامات ان کے دعوؤں سے متضاد نظر آئے۔کانگریس صدر لیڈر ملکارجن کھرگے نے دھن کھڑ کے اس دعوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کسان کے بیٹے ہیں تو میں بھی مزدور کا بیٹا ہوں اور میں نے آپ سے زیادہ چیلنجز کا سامنا کیا ہے۔ کھرگے نے یہ بھی کہا کہ دھن کھڑ اپوزیشن کے بجائے حکومتی پارٹی کے مفادات کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے فیصلوں سے ایوان میں اپوزیشن کی آواز دبی ہوئی ہے۔ملکارجن کھرگے کی باتوں کی تصدیق خود جگدیپ دھن کھڑ کے رویہ سے ہوتی ہے۔ راجیہ سبھاکے چیئرمین کے عہدہ پر بیٹھنے کے بعد ان کے طرزِ عمل نے نہ صرف ایوان کی خودمختاری کو متاثر کیا بلکہ جمہوریت کی بقا کیلئے بھی ایک سنگین سوال اٹھا دیا۔ جب ایک چیئرمین جو آئینی طور پر غیرجانبدار رہنے کا حلف اٹھاتا ہے،اپنی غیرجانبداری میں کمی دکھاتا ہے اور حکومتی جماعت کی حمایت میں کھڑا ہوتا ہے تو اس سے جمہوریت کی بنیاد ہل سکتی ہے۔
اپوزیشن نے دھن کھڑ کے رویے کو بے بنیاد اور یکطرفہ قرار دیا اور ان پر الزام لگایا کہ وہ اپوزیشن کو اپنے حق میں بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے،جبکہ حکومتی جماعت کے ارکان کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس صورتحال نے ایوان کے وقار کو نقصان پہنچایا اور جمہوری اداروں کے حوالے سے عوام کا اعتماد متزلزل کر دیا۔ چیئرمین دھن کھڑ نے اپنی غیر جانبداری پر اٹھنے والے سوالات کا واضح اور دوٹوک جواب دینے کے بجائے اپنی جوابی تقریر میں اپنے سیاسی ایجنڈہ کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک کیلئے مریں گے اور ختم ہوجائیں گے۔ان کی اس غیرمنطقی بات کا کانگریس لیڈر ملکارجن کھرگے نے بالکل درست جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی توہین کر رہے ہیں،وہ کانگریس کی توہین کر رہے ہیں،ہم(اپوزیشن) یہاں ان کی تعریف سننے کیلئے نہیں ہیں بلکہ بحث کرنے کیلئے آئے ہیں۔
یہ نوک جھونک ایک اہم سوال اٹھاتی ہے کہ کیا جمہوری ادارے اب سیاست کے اس کھیل کا حصہ بن چکے ہیں جہاں مفادات کی لڑائی ایوانوں میں ہی لڑی جاتی ہے؟ کیا دھن کھڑ جیسے آئینی عہدوں پر فائز افراد واقعی غیرجانبداری کا حق ادا کر رہے ہیں یا وہ اپنی ذاتی اور سیاسی وفاداریوں کی پگڈنڈی پر چل رہے ہیں؟
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ دھن کھڑ کا سیاسی پس منظر اور ان کی بی جے پی سے وابستگی اس تنازع کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ مغربی بنگال کے گورنر کی حیثیت سے ان کے فیصلوں اور ممتابنرجی کے ساتھ تعلقات نے ان کی غیرجانبداری پر سوالات اٹھائے تھے۔ ان کے رویے نے یہ ظاہر کیا کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مفاد کو ترجیح دیتے ہیںجو کہ ایک آئینی عہدے کیلئے ناقابل قبول ہے۔
ملکارجن کھرگے نے اس بات کو درست طور پر اجاگر کیا کہ ایوان میں اب سیاست کا غلبہ ہے اور آئینی اصولوں کی جگہ محض سیاسی مفاد کا کھیل ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دھن کھڑ نے جان بوجھ کر اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے اہم مسائل پر بحث کی اجازت نہیں دی اور بار بار اپوزیشن رہنماؤں کو بات کرنے سے روکا۔ یہ صورتحال جمہوری اداروں کی غیرجانبداری کی اہمیت کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ ہے،جس کا اثر جمہوریت کے مستقبل پر پڑسکتا ہے۔
دھن کھڑ اور کھرگے کی یہ لفظی جنگ دراصل ایک بڑے آئینی اور سیاسی تنازع کی غمازی کرتی ہے۔ یہ جنگ صرف ایک شخص کے خلاف نہیں بلکہ جمہوریت کی روح کو بچانے کی لڑائی ہے۔ اگر جمہوریت کے ادارے اپنی غیرجانبداری اور آئینی اصولوں کی پاسداری میں ناکام ہو جاتے ہیں تو عوام کا ان پر اعتماد متزلزل ہو سکتا ہے اور جمہوریت کی تقدیر خطرے میں پڑ سکتی ہے۔