جمہوری نظام کو پسند کیا جاتا ہے کہ اس میں عوام کو اپنے نمائندوں کے انتخاب کا موقع ملتا رہتا ہے۔ اسی لیے جمہوری نظام کی بقا کے لیے انتخابی عمل کی بڑی اہمیت ہے مگر امریکہ میں ایک انتخابی ریلی کے دوران سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جان گنوانے سے بال بال بچ گئے۔یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ ٹرمپ کی زندگی تھی اسی لیے وہ بچ گئے، ورنہ کیا ہوتا، اس کا اندازہ اس رپورٹ سے بھی ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے 0.05 سیکنڈ میں سر گھما لیا تھا اور گولی ان کے داہنے کان کو زخمی کرتی ہوئی نکل گئی تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ وہی امریکہ ہے جو کافی مستحکم اور پرامن مانا جاتا ہے۔ سیاست میں تشدد کے لیے گنجائش نہیں سمجھی جاتی ہے، یہ مانا جاتا ہے کہ امریکی نمائندے صحیح معنوں میں عوام کے نمائندے ہوتے ہیں۔ پوری دنیا میں جمہوریت کی سب سے مقبول تعریف یہ مانی جاتی ہے کہ جمہوری نظام میں عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے ہوتی ہے۔ یہ تعریف امریکہ کے صدر ابراہم لنکن نے دی تھی۔ ان کا شمار امریکی تاریخ کے بہترین صدور میں ہوتا ہے مگر تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ فطری موت نہیں مرے تھے، انہیں مارا گیا تھا ۔ اس کے بعد بھی امریکہ کے کئی صدورمارے گئے۔ کئی زخمی ہوئے مگر ان کی جان بچ گئی۔ ان میں رونالڈ ریگن کا نام شامل ہے۔ ان پر 30 مارچ، 1981 کو قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ وہ بچ گئے۔ بعد میں سوویت یونین کو انجام تک پہنچانے میں ان کا بڑا اہم رول رہا۔ اگر سوویت یونین نہیں بکھرتا اور وارسا پیکٹ کی تحلیل نہیں ہوتی تو ناٹو کی توسیع نہیں ہو پاتی، امریکہ کی وہ مستحکم پوزیشن نہیں بن پاتی جو ناٹو کی توسیع سے بن سکی۔ یہ بات الگ ہے کہ بعد میں جونیئر بش کی حکومت نے امریکہ کو افغان اور عراق جنگوں میں الجھاکر چین، روس اور دیگر ملکوں کو مستحکم سے مستحکم تر بننے کا موقع فراہم کر دیا اور اس کا بھرپور فائدہ اٹھاکر یہ ممالک اس پوزیشن میں آگئے کہ امریکہ کے لیے چنوتی بن گئے ۔یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ چین، امریکہ کی جگہ لینا چاہتا ہے۔ وہ دنیا بھر کے ملکوں کو قرض دے کر دائرۂ اثر بڑھا رہا ہے۔ خود امریکہ بھی اس کا قرض دار ہے۔
براک اوباما جب صدر بنے تھے تو امریکہ دوجنگوں میں الجھا ہوا تھا۔ ان کی کوشش یہ رہی کہ کسی طرح جنگ ختم کی جائے اور فوجیوں کو واپس اپنے ملک بلایا جائے۔ اوباما اس بات سے واقف تھے کہ ایشیا بحرالکاہل میں چین کا دائرۂ اثر بڑھا لینا امریکہ کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا مگر ان کی مدت صدارت میں چین کے خلاف امریکہ کی جارحانہ پالیسی نہیں تھی، البتہ ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد امریکہ نے چین کے خلاف واضح پالیسی اختیار کی۔ ٹرمپ کا یہ قدم امریکہ کا دبدبہ قائم رکھنے کے لیے ٹھیک تھا مگر ان کے دیگر کئی کاموں کی وجہ سے امریکہ کی امیج اس کے دوست ممالک میں بدلی۔ ٹرمپ نے انتخاب جیتنے کے لیے جارحانہ تشہیر کی تھی۔ بعد میں بھی ان کا تیور برقرار رہا۔ کثرت میں وحدت کو پسند کرنے والے امریکیوں کو ایسا لگنے لگا کہ ان کا ملک تنگ نظری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ امریکہ کو مستحکم بنانے میں سب سے اہم رول اس کی اس پالیسی نے ادا کیا کہ دنیا کے کسی بھی حصے کا آدمی ہو، کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو، وہ اگر باصلاحیت ہے تو اس کا استقبال کیا جائے گا۔ اسی لیے ٹرمپ کے ایک بار پھر امریکہ کو عظیم بنانے کے لیے اسے محدود کرنے کی ان کی کوشش اعتدال پسند امریکیوں کو پسند نہیں آئی۔ ڈونالڈ ٹرمپ مسلسل دوسری بار صدرنہیں بن سکے مگر غزہ جنگ پر امریکی پالیسی کی وجہ سے بائیڈن کی وہ امیج نہیں رہی جو کبھی تھی۔ کئی بار ایسا لگا کہ عمر ان پر حاوی ہو رہی ہے اور ٹرمپ کے مدمقابل وہ کمزور پڑ رہے ہیں اور اب جبکہ صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران ٹرمپ پر حملہ ہوا ہے تو یہی لگتا ہے کہ اب حالات ان کے لیے زیادہ سازگار ہو جائیں گے۔ وہ یہ دکھانے کی کوشش کریں گے کہ جو بائیڈن کی مدت صدارت میں واقعی حالات کافی خراب ہو گئے ہیں۔ حالات کے خراب ہونے کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہوا کہ 43 سال بعد امریکہ کے سابق صدر پر حملہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے رونالڈ ریگن کے صدر رہتے ان پر حملہ ہوا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کے لوگ ٹرمپ پر ہوئے حملے کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ جو بائیڈن کے وقتی طور ٹرمپ پر سیاسی حملہ چھوڑ کر حملے کی مذمت پر زیادہ زوردینے سے یہی لگتا ہے کہ وہ ٹرمپ کو مظلوم بننے دینا نہیں چاہتے۔ ویسے بات جہاں تک ٹرمپ پر ہوئے حملے کی ہے تو یہ واقعی تشویشناک ہے۔ یہ امریکہ کی ساکھ کے لیے ٹھیک نہیں۔
[email protected]
ٹرمپ پر حملہ تشویشناک
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS