غزہ کی موجودہ صورت حال اور مغربی ایشیا کا بحران شایدعالمی سیاسی نظام بدل رکھ دے گا کہ بات اگرچہ کچھ عرصہ قبل یوکرین پر روسی حملہ کی بابت کہی جارہی تھی مگر اب امریکہ اور اس کا سخت ترین حریف ایران کہہ رہا ہے۔ جس طرح غزہ میںحالات بگڑتے جارہے ہیں اور اسرائیل اور اس کے مغربی حلیف یوکرین جنگ چھوڑکر غزہ بحران کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں،اس سے لگتا ہے کہ غزہ بحران خطے کے دوسرے علاقوں میں پھیلے گا اور جنگ میں شدت آئے گی۔ غزہ کے لوگ گزشتہ16سال سے بدترین زندگی گزاررہے ہیں۔ پورا خطہ چاروں طرف سے آہنی دیوار سے گھرا اورمحصور ہے اور صرف چند راہداریاں ہیں جس سے فلسطینیوں کو مقبوضہ فلسطین یعنی اسرائیل کے اندرجانے اور روٹی روزی کی کمائی کی آزادی ملی ہوئی تھی۔ اس سے قبل اسرائیل چارمرتبہ غزہ پر بم برساکر سیکڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارچکا ہے۔
7اکتوبر کے افسوس ناک واقعات نے پورے خطے اور عالمی نظام کو بدل کر رکھ دیا۔ مغربی دنیا جو یوکرین میں روس کو پست کرنے میں مصروف تھی، غزہ کے آج کے حالات میں پھنستی دکھائی دے رہی ہے۔ مغرب کو بالکل اس بات کی پروا نہیں کہ 1993میں ہونے والے اوسلومعاہدے کے بعد فلسطینیوںکے مصائب کا خاتمہ ضروری ہے اور ارض فلسطین کے اس قضیہ کو حل کرنا ضروری ہے۔ 7اکتوبر کے حملے سے قبل ایسا لگ رہا تھا کہ غزہ کو اس طرح اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا جبکہ غرب اردن میں اسرائیلی بستیوں کوتعمیر کرکے اور فلسطینیوں کی آبادی کا تناسب کم کرکے آج وہاں یہودی اکثریتی علاقہ بنا دیاگیاہے۔ دراصل اسرائیل کے ٹارگیٹ پرغزہ کی آبادی ہے تو مغربی کنارے کی سرزمین پراس کی نظر ہے اور اس کا اولین نشانہ مغربی کنارے یاغرب اردن پر اپنا مکمل اقتدار اعلیٰ قائم کرنا چاہتاہے اورمغربی کنارے کو اسی طرح ہڑپ لیناچاہتا ہے جس طرح جولان کی پہاڑیوں کو اس نے ہڑپ رکھاہے۔اسی حکمت عملی کے تحت اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ کو آتش فشاں بنارکھاہے۔جوبائیڈن کے پیش رو ڈونالڈٹرمپ کو اسرائیل نے کافی حد تک اپنے دام میںپھانس لیاتھا اور مغربی کنارے پر اقتداراعلیٰ قائم کرنے کی صورت میں ہونے والے ردعمل میں ٹرمپ اس کا ساتھ دیتاتھا جبکہ جوبائیڈن مغربی کنارے پر ابھی عالمی برادری، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی پیروی کرتے رہے ہیں اور وہاں صہیونی حکومت کے ذریعہ یہودی بستیوں کی تعمیر کو غیرقانونی قراردیتے ہیں۔ اس سے جوبائیڈن کی خارجہ پالیسی میں لچک سے ہی تعبیر کیاجائے گا۔مگرایک طرف تو وہ مغربی کنارے کو فلسطینی اراضی تسلیم کرتے ہیں اور دوسری طرف وہاں یہودیوں کی بستیوں کی تعمیر غیرقانونی ہونے کے باوجود ان تعمیرات کی مخالفت اور احتجاج کو دہشت گردی کی حمایت قراردیتے ہیں۔مغربی کنارے اور غزہ پرجارحیت اوربربریت جاری ہے اور امریکہ اوراسرائیل کا اصرار ہے کہ پہلے یرغمال بنائے گئے افراد کو حوالے کیاجائے اور اس کے بعد ہی غزہ کو ملنے والی امداد میں اضافہ کیاجائے گاجبکہ حماس نے کہا ہے کہ اسرائیل کی کارروائی میں پچاس مغویہ افراد مارے جاچکے ہیں۔ اسرائیل جوشمالی غزہ سے فلسطینیوں کوکھدیڑ کر جنوبی غزہ میں جانے کی صلاح دے رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جنوبی غزہ خاص طور پر مصر میں کھلنے والی رفح راہداری پربمباری کررہاہے۔ اس طرح فلسطینی درمیان میں پھنس گئے ہیں۔ ادھر مصر نہیں چاہتا کہ اس کی سرزمین میں غزہ کے فلسطینی مہاجرین آئیں، کیونکہ ایک مرتبہ فلسطینیوں نے غزہ چھوڑدیا تودوسری مرتبہ ان کا اپنے گھروں کو لوٹنا مشکل ہوجائے گا، اس کا بوجھ مصر پر پڑے گا۔ دوسری بات یہ کہ ان مہاجرین میں حماس کے جنگجو نہیں ہوں گے ،اس کی گارنٹی کون دے گا؟ اس سے مصر کی اپنی سیکورٹی خطرہ میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جب مصرمیں اسرائیل کے خلاف زبردست ناراضگی ہے۔ ایک سیاحتی مقام پر دواسرائیلیوں کامارا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ حالات یہودیوں کے لیے سازگار نہیں ہیں، اسی لیے اسرائیل نے مصر سے اپنا پورا سفارتی عملہ واپس بلالیا ہے۔ اسی طرح خلیج کے اکثرممالک سے اسرائیل کے سفارت کاروں کو بھی نکال لیاہے جن ممالک سے اس نے اپنے شہریوں کونکالاہے۔ ان میں وہ ممالک بھی ہیں جن کے ساتھ اس نے ’ابراہم معاہدہ‘(Abraham Acord) کیاہے۔
موجودہ صورت حال گزشتہ مصالحتی کوششوں پر پانی پھیرنے والی ہوسکتی ہے۔ مراقش، یواے ای، بحرین اور اردن میں اسرائیل کے خلاف غیرمعمولی مظاہرے ہورہے ہیں اور ان ممالک کے حکمراں کتنے بھی مطلق العنان سہی،اسرائیل کے خلاف ناراضگی کونظرانداز نہیں کرسکتے ہیں۔یہ مسلمانوں کے جذبات سے وابستہ مسئلہ ہے۔ اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ امریکہ نے شام میں ایرانی ٹھکانوں پرفوجی کارروائی کی ہے۔ یہ کارروائی اس لیے بھی حالات کو خراب کرنے والی ہے کہ وہاں پہلے ہی امریکہ اور ایران کی افواج کا جماوڑا ہے۔n
نسل پرست ریاست اور توسیع پسندانہ عزائم
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS