شاہد زبیری
کشمیر کی ارضی جنت کو دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر جہنم بنانے کی کوشش کی ہے اور پہلگام کی حسین اور پر سکون وادیاں دہشت گردوں کی گولہ باری سے تھرا اٹھی ہیں ۔مودی حکومت کے دوران پٹھان کوٹ اور پلوامہ کے بعدپہلگام میں دہشت گردانہ حملہ تیسری بڑی ایسی واردات ہے جس سے انسانیت شرمسار ہوئی ہے ۔اس کیلئے جہاں بلا شبہ پاکستان ذمّہ دار ہے۔ حکومت کی لا پروائی پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں ۔ اس مسئلہ پر غور کرنے کیلئے بلائی گئی کل جماعتی میٹنگ میں دبے لفظوں ہی میں سہی حکومت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ حکو مت سے سیکورٹی میں چوک ہوئی ہے۔ پاک کی حمایت یافتہ دہشت گردوں کی یہ ناپاک کرتوت بلا شبہ انسانیت پر حملہ ہے، جس میں 26بے گناہوں نے جانیں گنوائی ہیں، لیکن پہلگام کی وردات نے کشمیریت کو زندہ کردیا ہے اور ہمارے قومی اتحاد کو مضبوط کیا ہے ۔اس واردات کے دوران جس طرح گھوڑا چلانے والوں اور ٹو رسٹ گائیڈوں نے سیاحوں کی جانیں بچائیں ہیں اور جس طرح کشمیری ڈاکٹروں نے دن رات جاگ کر زخمیوں کا علاج کیا ہے وہ قابل ستائش ہے، جس کا اعتراف زندہ بچ جا نے والے سیاح ٹی وی چینلوں اور یو ٹیوب پر کررہے ہیں ۔ گھوڑا چلانے والے سیّد عادل شاہ کا نام سب کی زبان پر ہے جس نے دہشت گردوں کے ہاتھوں سے گن چھیننے کی کوشش میں اپنی جان گنوادی اور اس کا ایک قریبی عزیز نزاکت علی کا نام بھی سرخیوں میں ہے،جس نے تن تنہا 11 سیاحوں کی جان بچائی، جو شدید زخمی تھے جن کو اس نے جیسے تیسے پہلگام کے اسپتال پہنچایا ،ایساہی ایک اور نوجوان ہے جو گرم شالیں فروخت کررہاتھا اس نے بھی جان پر کھیل کر زخمیوں کو پہلگام کے اسپتال پہنچایا ۔سیّد عادل شاہ کے وارثان کو شیو سینا کے لیڈر اور مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے اپنا آدمی بھیج کر 10لاکھ کی مدد پہنچائی ہے۔ ایکناتھ شندے کا یہ قدم کشمیریوں کے حب الوطنی اور کشمیریت کے جذبہ کا کھلے دل سے اعتراف ہے جس کی تعریف کی جانی چاہئے لیکن اسی مہاراشٹر سر کار کے ایک وزیر نتیش رانے نے ایک مرتبہ پھر نفرت کا مظاہرہ کیا ہے اور کہا کہ مسلمانوں سے سامان مت خریدیں ،اگر وہ ( مسلمان) مذہب پوچھ کر گولی ماریں توآپ مذہب پوچھ کر سامان خریدیں، یہی نہیں سنگھ پریوار کے زیر سایہ پلنے والی درجنوں ہندو سینائیں ہندو رکشک دل اپنی زبانوں سے ایسی ہی نفرت کی آگ اگل رہے ہیں ۔جے پور کی جامع مسجد میں زبردستی گھس کر اشتعال انگیز نعرے لگانے اور نفرت بھرے پوسٹر لگانے والا بھی کوئی اور نہیں بی جے پی کا ایم ایل اے بالمکند ہے ۔اترا کھنڈ سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں نام نہاد ہندو سینائیں کشمیر سے باہر کشمیری مسلمانوں کو زندہ نہ چھوڑ نے کی وارننگ دے رہی ہیں اورکشمیری مسلمانوں اور نوجوانوں کو ڈرانے اور دھمکانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی جا رہی ہے، ان کشمیری مسلمانوں میں کشمیری طلبہ بھی ہیں اور معاش کی تلاش میںآنے والے کشمیری مسلمان بھی ۔بات صرف اتنی نہیں میڈیا رپورٹ کے مطابق نتیش رانے کے مسلم مخالف بیان کے بعد ہندو انتہا پسندعناصر یوپی ہریانہ پنجاب اورچنڈی گڑھ جیسے نہ جانے کتنے ایسے علاقوں میں رییڑھی پر سامان بیچنے والے مسلمانوں پر حملے کررہے ہیں، جہاں وہ تھوڑی تعداد میں ہیں۔ موہالی کی یو نیورسٹی میں زیر تعلیم کشمیری طالبہ کے کمرے میںگھس کر اس سے گالی گلوچ کی اور دھمکی دی کہ 26کا بدلہ 2600سے لیں گے، ایسی خبر ایک بڑے ہندی روزنامہ نے دی ہے، دھمکیوں کے پیش نظر اترا کھنڈ میں زیر تعلیم طلبہ واپس کشمیر جا نے کیلئے رات کو 3بجے ہی دہرہ دون ایئر پورٹ پہنچ گئے تھے۔ جبکہ چشم بینا یہ نظارہ دیکھ رہی ہے کہ مسلمان برادران وطن کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملاکر دہشت گردی کیخلاف صف آرا ہیں اور دہشت گردی مردہ باد اور پاکستان مردہ باد کے بلند بانگ نعرے لگا رہے ہیں، یہاں تک کہ مسلم پر سنل لاء بورڈ نے بھی وقف ترمیمی قانون کے خلاف چلائی جا رہی اپنی احتجاجی تحریک ملتوی کر دی ہے۔ جمعہ کی نماز کے بعد ملک بھر کے مسلمانوں نے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر ہاتھوں میں دہشت گردی مخالف نعروں کے پلے کارڈ لے کر جلوس نکالے ہیںاور نعرے لگائے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ہندو سینائیں اور ہندو رکشک دل ہی نہیں ہمارا گودی میڈیا بھی کشمیریوں اور ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف اپنی فطرت کے عین مطابق زہر اگل رہا ہے۔
ٹی وی مباحثے میدان جنگ بنے ہوئے ہیں اور پہلگام کے دہشت گردانہ حملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے ۔ ایسے حالات میں یہ ممکن نہیں کہ ہم ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ دہشت گرد اور ان کے آقا بھی تو ایسا ہی چا ہتے ہیں کہ ہم آپس میں کٹ مریں ۔ہماری حکومت نے بھی اس طرح کے فرقہ پرست عناصر کو بے لگام چھوڑ رکھاہے۔ اس معاملہ میں اپوزیشن کے کردار کی تعریف کی جا نی چاہئے کہ اس نے حکومت سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دہشت گردی مخالف ہر قدم کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس کیلئے حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کی سیکورٹی چوک کو بھی معاف کردیا ہے اور ایک مثبت پیغام دیا ہے، تاہم کانگریس و دیگر اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم نریندر مودی کے رویہ پر ضرور سوال اٹھا رہی ہیں کہ انہوںنے اس حساس اور اہم قومی مسئلہ پر بھی اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دی ہے اور کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کی بجا ئے بہار کی انتخابی ریلی میں شرکت کو ضروری سمجھا۔وزیر اعظم نہ صرف کل جماعتی میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے بلکہ انہوں کشمیر جا کر زخمیوں کی عیادت تک کی زحمت نہیں کی ہے اور نہ ان کا حال چال پوچھا، جبکہ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے اپنا غیر ملکی دورہ درمیان میں چھوڑ کر کشمیر کا دورہ کیا اور اس سانحہ میں زندہ بچ جانے والے خوش نصیبوں کے زخموں پر مرہم رکھا ہے۔ یہ کام ہمارے وزیر اعظم کو بھی کرنا چاہئے تھا، جو انہوں نے نہیں کیا ۔جہاں تک پاکستان کو سبق سکھانے کی بات ہے تو اس سے کس کو انکار ہے، طریقہ کار سے اختلاف ممکن ہے، جیسا کہ ملک کے سب سے بزرگ اور جہاندیدہ لیڈر شرد پوار نے پاکستان سے جنگ کئے جانے سے پیدا شدہ حالات کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کو آگاہ کیا کہ جنگ کی صورت میں پاکستان بھی خاموش نہیں بیٹھے گا وہ بھی جواب دے گا، اس لئے مرکز سوچ سمجھ کر فیصلے کرے ۔انہوں نے کارگل جنگ کے حوالہ سے کہا کہ اس وقت پاکستان نے اپنی فضائی حدودبند کر دی تھیں، جس سے ہندوستان کو 7ہزار کروڑ کا نقصان اٹھانا پڑا تھا، اس لئے کہ ہندوستان سے یوروپ جانے والی تمام پروازیں پاکستان کی فضائی حدود سے ہو کر گزرتی ہیں ۔اسی طرح کر ناٹک کے کانگریسی وزیر اعلیٰ سدا رمیا نے بھی ہندوستان پاکستان کے درمیان کشیدگی کے حوالہ سے ایک اہم بیان دیا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ جنگ کے حق میں نہیںہیں۔ پہلگام واقعہ میں سیکورٹی میں چوک ہوئی ہے، اس لئے مرکزی حکومت کشمیر میں امن کو یقینی بنا نے کیلئے سیکورٹی بڑھائے، تاہم اسی کے ساتھ انہوں نے ویزا پر آئے پاکستانیوں کو واپس بھیجے جا نے کی تائید میں کہا کہ اس بابت حکومت کی ہدایت کے مطابق پاکستانی شہریوں کو واپس بھیجا جائے گا ۔ہند- پاک کے مابین جنگ پر بھی دانشوروں میں اختلاف پایا جا تا ہے، ان میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائی ہمیشہ کار گر نہیں ہوتی، یہاں تک کہ 11ستمبر 2001 میں امریکہ میں دہشت گردانہ حملہ کے خلاف امریکہ نے’ وار آن ٹیرر‘ کے نام سے جو جنگ چھیڑی تھی اس میں امریکہ جیسی سپر پاور کو بھی پسپائی اختیار کر نی پڑی تھی اور امریکہ کو ہتھیار چھوڑ کر افغانستان سے واپس جانا پڑ ا تھا ۔ ڈیڑھ سال سے زائد ہوگیاا مریکہ اور اسرائیل مل کر بھی حماس کو شکست نہیں دے پائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی نکیل کسنے کیلئے مضبوط خارجہ حکمت عملی اختیار کی جا ئے کہ عالمی سطح پر پاکستان تنہا پڑ جا ئے۔اس لئے کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں بلکہ جنگ خود اپنے آپ میں ایک مسئلہ ہے ۔