(ورلڈ ٹیلی ویژن ڈے)
از قلم: امام علی فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
ٹیلی ویژن کا عالمی دن ہر سال 21 نومبر کو منایا جاتا ہے تاکہ اسکی اہمیت کو اجاگر کیا جائے جو کہ ابلاغ عامہ کا ایک بہترین ذریعہ ہے جو تفریح و تعلیم، خبر اور سیاست کے متعلق سرگرمیوں کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کرتا ہے۔
ٹیلی ویژن کا ایجاد امریکی سائنسدان جان لوگی بیرڈ نے 1927 میں کیا تھا اور 1938 میں الیکٹرانک طریقے سے اپنانے کے بعد مارکیٹ میں متعارف کرایا تھا۔
تاہم اسے ہندوستان تک پہنچنے میں تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سن 1996 میں 21 نومبر کو ٹیلی ویژن کا عالمی دن قرار دیا تھا۔
ٹیلی ویژن کے تاریخ کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ سن 1926 میں اسکاٹ لینڈ کا سائنس دان جان لوئی بیرڈ (John Logie Baird) سمندر کے کنارے چہل قدمی کر رہا تھا وہ سمندر کی لہروں اور موسم سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک اسے گانے کی آواز سنائی دی، گانے کی آواز کے ساتھ سمندر کی لہروں کا منظر بڑا دلکش نظر آ رہا تھا لیکن جان کو اس بات کی حیرت بھی ہوئی کہ گانے کی آواز کہاں سے آرہی ہے جب اس نے آواز کی لہروں کا پیچھا کیا تو پتہ چلا کہ سمندر کے نزدیک ایک ہوٹل پر ریڈیو بج رہا تھا جس میں سے گانے کی آواز اسے سنائی دے رہی تھی۔
جان کو ریڈیو پر بجنے والے گانے سے زیادہ اس بات پر حیرت اور تجسس پیدا ہوا کہ ریڈیو پر بجنے والے گانے کی آواز کی لہریں یہاں تک کیسے پہنچ گئیں؟
اس نے اندازہ لگایا تب پتہ چلا کہ ہوا کی لہریں آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہی ہیں، جان سوچ میں پڑ گیا اور سوچا کہ اگر ہوا کی لہروں سے آواز ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتی ہے تو پھر ان لہروں پر تصویر بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتی ہے۔ جان لوئی کو چونکہ فوٹو گرافی کا شوق تھا اور وہ کئی مرتبہ تصویروں اور بجلی کے تاروں پر تجربہ بھی کرچکا تھا، اس نے ہوا کی لہروں میں چھپے گہرے راز کو بھانپتے ہوئے ارادہ کیا کہ وہ ان لہروں کے ذریعے تصویریں بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کا تجربہ کرے گا۔
چنانچہ جان لوئی نے اپنے تجربے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کچھ چیزیں اکٹھی کیں، اس نے ایک شیشے کا ایک بڑا صندوق، کپڑے سینے والی سوئیاں، بسکٹ کا ایک ڈبہ، سائیکل کے لیمپ کا شیشہ، کچھ بیٹریاں، بجلی کے تار اور موم اکٹھا کیا اور ایک کمرے میں بند ہو کر تجربہ شروع کر دیا۔
کمرے کی ایک دیوار کے ساتھ اس نے ایک پردہ لگا رکھا تھا جس پر وہ تصویر ابھارنا چاہتا تھا۔
جان لوئی اپنے تجربے میں بارہا ناکامی کے باوجود مصمم ارادے کے ساتھ کام کرتا رہا اور بالآخر اس کی محنت رنگ لائی اور وہ پردے پر تصویر لانے میں کامیاب ہو گیا، ابتداء میں تصویر کچھ دھندلی سی نمودار ہوئی تو جان لوئی نے تصویر کو نمایاں کرنے کے لئے روشنی کو تیز کرنے کا پروگرام بنایا پھر اس نے روشنی کو تیز کرنے کے لئے ایک ہزار بیٹریاں ایک ساتھ رکھیں تو پردے پر تصویر نمایاں طور پر نظر آنے لگی۔
بہر حال جان لوئی کا تجربہ کامیاب ہو چکا تھا بعد میں دیگر سائنس دانوں نے مزید تجربات کر کے ٹی وی میں جدت پیدا کی لیکن ٹی وی کا موجد جان لوئی کو ہی مانا جاتا ہے۔ 30 دسمبر 1929 کو بی بی سی لندن نے جان لوئی کے بنائے ہوئے ٹی وی پر پہلا پروگرام پیش کیا لیکن 1937 میں بی بی سی نے جان لوئی کی بجائے ایک اور کمپنی سے معاہدہ کر لیا، جان لوئی کو اس بات کا دکھ تھا لیکن اسے یہ معلوم نہ تھا کہ دنیا اسے ہمیشہ ٹی وی کے موجد کے طور پر یاد رکھے گی ۔
ٹیلی ویژن کے فوائد-
ٹیلی ویژن ذہن کو وسعت دینے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے: جیسے دستاویزی فلمیں دیکھتے وقت اس سے آپ ایسی چیزیں سیکھ سکتے اور دیکھ سکتے ہیں جو آپ کو شاید ہی اپنی زندگی میں نہ مل سکے۔
ٹیلیویژن لوگوں کو ایک معاشرتی گروپ کا حصہ بنا سکتا ہے:
لوگوں میں آپسی تعاون کو فروغ دے سکتا ہے، آپسی رابطے کی ترغیب دے سکتا ہے۔
صحت سے متعلق فوائد حاصل کرسکتے ہیں:
ٹیلیویژن میں دیکھ کر ورزش کر سکتے ہیں، اطباء و حکماء کے مشوروں سے مستفید ہو سکتے ہیں، اور معاشرے میں پھیلی بیماریوں سے آگاہ ہو کر اسکا علاج کرا سکتے ہیں۔
یہ تفریح کا ذریعہ ہے بھی ہے:
ٹیلی ویژن ہر عمر کے لوگوں کو تفریح فراہم کرتا ہے کیونکہ اس میں ایسے ایسے ڈرامے ، گانے اور غزلیں آتی ہیں جس سے ہر عمر کے لوگ تفریح کر سکتے ہیں۔
ٹیلی ویژن سے علوم حاصل کر سکتے ہیں:
اگر ہم جانتے ہیں کہ کیا ہمیں کیا دیکھنا ہے تو ہر عمر کے لوگوں کے لئے یہ ٹیلی ویژن تعلیمی ہوسکتا ہے کیونکہ اسمیں ایسے ایسے پروگرام آتے ہیں جس سے ہم علوم کا خزانہ حاصل کر سکتے ہیں۔
قارئین! ذرا غور کریں کہ جس ٹیلی ویژن کا ایجاد تعلیم تفریح کے لئے کیا گیا تھا آج اسکی حالت کیا بن چکی ہے، آج اس میڈیا کے ذریعے اور اسی ٹیلی ویژن کے ذریعے لوگوں میں زہر ڈالا جارہا ہے، سارے دنگے فساد کا جڑ بنا ہوا ہے، صبح سے لیکر شام تک صرف لوگوں کے درمیان زہر گھولا جا رہا ہے، ہر ٹی وی چینلز سے ایک گندی ہوا کی لہر چل رہی ہے۔
اس دور کو ہم میڈیا کے ایسے دور سے تعبیر کر سکتے ہیں جس میں قوموں کو اسلحہ اور فوجوں کے ذریعے قتل کرنے کے بجائے ٹیلی ویژن کے ذریعے قتل کیا جا رہا ہے، اس ثقافتی، تہذیبی اور نفسیاتی جنگ کی منصوبہ بندی ٹیلی ویژن کے ماہرین ہی کر رہے ہیں نہ کہ فوجی ماہرین۔
ٹیلی ویژن کے ایجاد سے پہلے لوگوں میں خواہ وہ ہندو ہو یا مسلم، سکھ ہو یا عیسائی ہر شخص ایک دوسرے کا خیرخواہ تھا سب کے سب خوشحال تھے لیکن جب سے ٹیلیویژن نے کا ایجاد ہوا ہے سب کو منتشر کردیا ہے، آج لوگوں کو خوشحالی و دلشادی، تعلیم و تفریح سے نکال کر تباہی کے دہانے پر لانے کا جس نے اہم رول ادا کیا ہے وہ ٹیلی ویژن ہی ہے۔